کیا سیاسی تبدیلی ناگزیر ہے؟ ہر
ایک کو اس بات کا اندازہ ہے کہ پاکستان میں ایک فوجی آمر کی چھتری کے بغیر
جمہوری حکومت کی اوسط عمر تین سال سے زائد نہیں ہے۔ اگر تاریخی پس منظر میں
دیکھا جائے تو موجودہ جمہوری دورانیہ اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے۔
موجودہ صورتحال یہ ہے کہ اتحادی پارٹنرز کے درمیان بد اعتمادی بڑھ رہی ہے ۔
قومی مصالحتی آرڈیننس(این آر او) پر عدلیہ اور ایگزیکٹیو کے درمیان قانونی
تنازعہ گہرا ہورہا ہے جبکہ سوئٹزر لینڈ میں صدر آصف علی زرداری کے خلاف
مقدمات کی ری اوپننگ عام آدمی کو ریلیف نہ ملنا اور بڑے پیمانے پر کرپشن کی
رپورٹوں کی موجودگی میں گورننس کے معاملات حکومت کے استحکام کو توڑنے کا
سبب بن سکتے ہیں۔
گزشتہ ایک برس کے دوران بہت سی ڈیڈ لائنز مقرر ہوئیں تاہم وہ گزر گئیں اور
کچھ بھی نہ ہوا ۔ پی پی پی کی قیادت میں نازک اتحاد اتحادیوں کی بلیک میل
کی سیاست کے باوجود تنی ہوئی رسی پر چل رہا ہے ۔ تاہم سیاسی پنڈتوں کا اب
بھی اصرار ہے کہ تبدیلی ناگزیر ہے اور اب تازہ ڈیڈ لائن جولائی ہے ۔ اب
تمام آنکھیں سپریم کورٹ پر لگی ہوئی ہیں جس نے پہلے ہی سیاسی اور آئینی
اہمیت کے بعض کیسز سماعت کے لئے تیار کر رکھے ہیں ۔ حکومت کے اقدامات ظاہر
کرتے ہیں کہ اس نے سابق وزیر قانون بابر اعوان کی معیت میں تصادم کا راستہ
اختیار کرلیا ہے۔
یہ بات قابل فہم ہے کہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی حکومت کو کیچ (Catch
22) 22جیسی صورتحال درپیش ہے کیونکہ ملک کے صدر پارٹی کے شریک چیئر مین بھی
ہیں۔ گیلانی کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ زرداری کے خلاف کوئی کام کریں تا
وقت یہ کہ ملک میں سیاسی منظر نامہ تبدیل کرنے کے لئے حتمی فیصلہ نہ ہو
جائے گو کہ آپشنز ہمیشہ ہی موجود ہوتے ہیں اور اسکرپٹ رائٹر اس وقت تک پلاٹ
کو بہتر بناتے ہیں جب تک کہ اسٹیج پر عمل کے لئے فائنل ڈرافٹ تیار نہ ہو
جائے ۔ اب تک صرف ایک فارمولا(وحید کاکڑ) جو کہ ایک ریٹائرڈ بریگیڈیئر کی
حالیہ تحریر میں بھی سوچ کے لئے خوراک کے طور پر بعض اخبارات میں شائع ہوا
ہے۔
ایک چیز بہر کیف واضح ہے کہ اگر تبدیلی رونما ہوئی تو وہ یقینی طور پر
12اکتوبر 1999ءکی تاریخ نہیں دہرائے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فوج نے بمشکل
اپناا میج بحال کیا ہے جو کہ جنرل پرویز مشرف کی 9سالہ حکمرانی میں دھند لا
گیا تھا اور ایک سکوت پسند پروفیشنل جنرل اشفاق کیانی اپنے ادارے کو سیاست
میں نہیں لے جائیں گے۔ تاہم ملک میں افرا تفری سے بچاؤ کیلئے جمہوری اداروں
کے درمیان تصادم روکنے کے لئے وہ اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں اور اس عمل میں
ممکنہ طور پر سسٹم کو بچانے کیلئے”کسی کو“ جانا پڑ سکتا ہے۔ یہ افراد نہیں
بلکہ ادارے ہوتے ہیں جو کہ سیاسی عمل جاری رکھنے کیلئے ضروری ہوتے ہیں۔
اس لئے وہ تبدیلی جس کی پیش گوئی کی گئی ہے ظاہر سسٹم پر اثر اندوز نہیں
ہوگی۔ خواہ یہ ایک سے زائد افراد کی تبدیلی ہو۔ اور اگر سیاسی جماعتیں
مشترکہ طور پر مڈ ٹرم الیکشن کا مطالبہ کریں تو بھی سسٹم کی بنیاد پر سول
حکمرانی کا تسلسل ہے۔ تاہم اس کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ صورتحال کیا رخ
اختیار کرتی ہے سسٹم کو بچانے کے لئے بڑی ذمہ داری سیاسی کھلاڑیوں پر ہوتی
ہے اور اب یہ بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ کتنی بالغ نظری سے کھیلتے اور
جمہوریت کو ایک چانس دیتے ہیں۔
بطور اپوزیشن پارٹی پاکستان مسلم لیگ ن کے کردار کو دیکھتے ہوئے یہ بہر کیف
ظاہر نہیں ہوتا کہ اس کی قیادت مڈ ٹرم الیکشن کا مطالبہ کرے گی اور اس کی
بجائے وہ پی پی پی کی قیادت میں اتحادی حکومت کو پانچ برس کی مدت پوری ہونے
تک انتظار کرے گی یہ فرینڈلی سے بھی بڑھ کر ہے۔ا گر وفادار نہیں تو بھی
بطور اپوزیشن ایسے مضبوط اشارے نہیں دیتے کہ وہ کشتی کو ڈبو نے میں حصہ بنے
گی۔
پی ایم ایل ۔ این ممکنہ طور پر ایک تبدیلی کو ترجیح دے گی تاہم صدارت میں
اور وہ سسٹم کے خلاف سازش کا الزام اپنے سر نہیں لے گی ۔ صدارت میں تبدیلی
کا یقینی طور پر یہ مطلب نہیں کہ حکومت میں تبدیلی ہو کیونکہ پی پی کے شریک
چیئر مین کی حیثیت سے زرداری کو اب بھی بیٹے بلاول بھٹو زرداری کے ذریعے
اپنی کمانڈ کو کوئی خطرہ درپیش نہ ہوگا ۔
مگر کیا زرداری اقتدار چھوڑنے پر آمادہ ہو جائیں گے اور وہ بھی محفوظ راستہ
ملے بغیر؟انہیں جاننے والے بعض سیاسی پنڈت یہ اصرار کرتے ہیں کہ اگر ایسی
صورتحال پیدا ہوئی تو وہ مزاحمت کریں گے ۔ ان کا مسئلہ ان کی اپنی سیکورٹی
اور معافی ہے ۔ اور ایوان صدر سے باہر ہونے کا مطلب ملک سے باہر ہونا ہے اس
کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ ریموٹ کنٹرول کے ذریعے پارٹی پر قابو رکھنا ہے
اور ایک نا تجربہ کار بلاول کو سخت گیر وفاداروں کی مدد سے جنگلے کے ساتھ
بیٹھے سیاسی انکلوں سے بچانا ہے۔ حالانکہ زرداری متعدد بار یہ واضح کرچکے
ہیں کہ وہ کسی دباؤ پرا قتدار نہیں چھوڑیں گے تاہم سیاست میں صورتحال کسی
کی خواہش کے باوجود تبدیل ہو جاتی ہے اور تاریخ ایسے سیاسی واقعات سے بھری
ہوئی ہے ۔
اس کے باوجود کہ عدلیہ اور سیاسی پارٹیوں کا کردار کسی بھی حالت میں نظر
انداز نہیں کیا جاسکتا۔ جو کچھ دکھائی دے رہا ہے وہ یہ کہ عدلیہ ملکی سیاسی
استحکام میں تلخی کا خدشہ مول لینا نہیں چاہے گی وہ کیسز کو طویل عرصہ جاری
رہنے کو ترجیح دے گی اورا نتظار کرے گی کہ سیاسی جماعتیں صورتحال پر قابو
پائیں ۔ بالکل اسی طرح سیاسی پارٹیاں کنارے پر بیٹھی یہ توقع کررہی ہیں کہ
عدلیہ صورتحال ان کے لئے موزوں بنائے گی۔ سب کا کہنا ہے کہ یہ سوال اپنی
جگہ موجود ہے کہ سسٹم کوپٹڑی سے اتارے بغیر تبدیلی کس طرح آئے گی۔ اقتدار
کے ایوانوں میں پھرنے والا جاسوس ایک ایسی ممکنہ ایگزٹ اسٹرٹیجی کے ساتھ
سامنے آیا ہے جو کہ زرداری کو بھی قبول ہرسکتی ہے ۔ اس کیس میں ڈیل اس طرح
ہوسکتی ہے کہ وہ طویل رخصت پر بیرون ملک چلے جائیں اور اپنی آئینی مدت پوری
ہونے تک بیرون ملک رہیں۔ اس سے نہ صرف سسٹم بھی چلتا رہے گا اور انہیں آئین
کے تحت حاصل استثنیٰ لینی صدارتی پروٹوکول حاصل رہے گا۔ ان کی جگہ چیئر مین
سینٹ فاروق نائک لے لیں ۔
( یہ آرٹیکل قبل ازیں روزنامہ جرات میں شائع ہو چکا ہے تاہم ایک سال کا
عرصہ گزر جانے کے باوجود صورتحال آج پھر اسی نہج پر آگئی ہے کہ کیا ملکی
سسٹم میں تبدیلی ناگزیر ہے ) |