چھ مغربی سیاستدانوں اور میڈیا میں ایسے عناصر موجود ہیں
جن کو چین کی ویکسین کی تحقیق و ترقی ایک آنکھ نہیں بھاتی اور اس کے خلاف
افواہیں پھیلاکر اپنے جیو پولیٹیکل مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔مثال کے طور
پر ، جب ابھی چینی ویکسین انڈونیشیا پہنچی تو ، برٹش فنانشل ٹائمز نے ایک
رپورٹ میں غلط دعوی کیا ہے کہ "سیاسی عوامل کی وجہ سے چینی ویکسین کا
استعمال خطرناک ہے۔"تاہم ایک ذمہ دار بڑے ملک کے طور پر چین اپنے وعدوں پر
عمل کرتا رہےگا ، اقوام متحدہ اور ڈبلیو ایچ او کے اقدامات کی حمایت کرتا
رہے گا ، تمام فریقوں کے ساتھ مل کر کام کرے گا ، ترقی پذیر ممالک کی
ضروریات کو ترجیح دے گا ، ویکسین کی مناسب ، متوازن اور معقول تقسیم کو
فروغ دے گا ، اور مایوسی کے اندھیروں کو امید کی روشنی سے دور کرے گا۔
متحدہ عرب امارات کی میڈیا رپورٹس کے مطابق ، ملک کی وزارت صحت نے نو تاریخ
کو اعلان کیا کہ اس نے چین کے نیشنل فارماسیوٹیکل گروپ کی تیار کردہ نوول
کوروناوائرس ویکسین کی باضابطہ طور پر منظوری دے دی ہے۔ گزشتہ دنوں ، چین
سے کووڈ-19 کی ویکسین کی 10 لاکھ خوراکیں برازیل کے شہر ساؤ پاؤلو پہنچیں۔
اس سے قبل چین کی تیار کردہ ویکسین کی 1.2 ملین خوراکیں انڈونیشیا کے
دارالحکومت جکارتہ پہنچی تھیں۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق متحدہ عرب امارات کے محکمہ صحت کی جانب سے
جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ چین کی دوا ساز کمپنی سینو فارم کی ویکسین کے
ٹرائل کے تیسرے مرحلے میں ملک بھر میں 125 ممالک سے تعلق رکھنے والے 31
ہزار رضاکاروں کو ویکسین لگائی گئی۔
ویکسین لگوانے والوں میں متحدہ عرب امارات کے نائب صدر اور وزیراعظم محمد
بن راشد المکتوم بھی شامل ہیں جب کہ وزیر صحت سمیت چند اعلیٰ حکام نے بھی
آزمائشی طور پر ویکسین لگوائی تھیں۔
متحدہ عرب امارات میں رواں برس ستمبر سے جاری ٹرائل میں سینو فارم کی
ویکسین کو 86 فیصد تک مؤثر پایا گیا جب کہ ویکسین کا ’سیرو کنورژن ریٹ‘ 99
فیصد رہا، یہ ویکسین 18 سے 60 سال کے عمر کے افراد کو لگائی گئی تھی۔
خیال رہے کہ متحدہ عرب امارات میں کورونا وائرس کے مجموعی تعداد ایک لاکھ
78 ہزار 883 ہوگئی ہے جب کہ اس مہلک وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 596
ہے۔
واضح رہے کہ کورونا ویکسین کا سب سے پہلا ٹیکہ برطانیہ کی 90 سالہ خاتون کو
لگایا جا چکا ہے، برطانیہ پہلا ملک ہے جہاں کورونا کی ویکسینیشن کا آغاز
ہوگیا ہے تاہم انہوں نے فائزر کی ویکسین کا انتخاب کیا ہے۔
چین نے دنیا بھر کے ممالک کو فراہم کرنے کے لیے کورونا وائرس کی ویکسین کی
لاکھوں خوراک تیار کر لیں۔
چین کے شینجن ایئر پورٹ پر محفوظ انداز میں کورونا وائرس کی ویکسین کی دیگر
ممالک کو ترسیل یقینی بنائی جا رہی ہے۔
کورونا وائرس کی ویکسین کے گوداموں میں داخلے کے لیے ہر فرد کا 2 ہفتے کا
قرنطینہ لازمی قرار دیا گیا ہے۔
چین کا اس ضمن میں کہنا ہے کہ دنیا بھر کے مختلف ممالک سے کورونا وائرس کی
ویکسین کے آرڈر ملتے ہی یہ ویکسین ان کی جانب روانہ کر دی جائے گی۔
چین کا مزید کہنا ہے کہ ویکسین کی فراہمی کارگو جیٹ طیاروں کے ذریعے کی
جائے گی جہاں اس ویکسین کو کنٹرولڈ درجۂ حرارت میں رکھا جائے گا۔
واضح رہے کہ 1 ارب 43 کروڑ سے زائد آبادی والے ملک چین میں کورونا وائرس
کا پہلا کیس سامنے آیا تھا، چین اس فہرست میں 72 ویں نمبر پر پہنچ چکا ہے،
جہاں کورونا مریضوں کی تعداد 86 ہزار 551 ہو چکی ہے تاہم اس سے ہونے والی
اموات کی تعداد 4 ہزار 634 پر رکی ہوئی ہے۔
بلاشبہ اس وقت دنیا میں وبا کی سنگینی کے تناظر میں اتحاد اور تعاون ہی
واحد درست انتخاب ہے کیونکہ دنیا دیکھ چکی ہے کہ عالمگیر وبائی بحران سے
کوئی بھی ملک تنہا نہیں نمٹ سکتا ہے ، اگر ایک ملک کے پاس ویکسین دستیاب ہے
اور اس کے ہمسایہ ممالک یا دیگر پسماندہ ممالک کی ویکسین تک رسائی نہیں ہے
تو اس کا مطلب دنیا بدستور غیر محفوظ ہے کیونکہ اس وبا کے مکمل خاتمے تک
کوئی بھی ملک خود کو وبا سے پاک قرار نہیں دے سکتا ہے۔لہذا چین کے ساتھ
ساتھ دیگر بڑے ممالک کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ دنیا کے بہترین مفاد میں
انسداد وبا کے عالمی تعاون کو موئثر طور پر آگے بڑھائیں بالخصوص ویکسین تک
عام آدمی کی رسائی یقینی بنائی جائے۔ویکسین کو صرف اپنے ملک تک محدود کرنے
یا اسے "قومی پراڈکٹ" کا درجہ دینے میں کسی ملک کا دیرپا فائدہ نہیں ہے
بلکہ ویکسین کی عالمگیر دستیابی ہی وبائی بحران سےنکلنے کا واحد راستہ
ہے۔اس وقت ویکسین پر سیاست یا اسے منافع کے حصول کا آلہ سمجھنے کی سوچ نہ
صرف تباہ کن ہو گی بلکہ بڑے ذمہ دار ممالک کے شایان شان بھی نہیں ہے۔
|