بھارتیہ جنتا پارٹی اٹل بہاری واجپائی کے زمانے میں
براہمن اور مہاجن (بنیا) پارٹی تھی ۔ اٹل جی خود براہمن تھے اور پرمود
مہاجن کاتو نام ہی مہاجن تھا لیکن اب مودی شاہ کے زمانے میں وہ صرف اور صرف
بنیا پارٹی بن کر رہ گئی ہے اس لیے کہ اس کا کام سرمایہ داروں کے مفادات کا
تحفظ کرنے اور انہیں زیادہ سے زیادہ سہولیات مہیا کرنے تک محدود ہوکر رہ
گیا ہے ۔ سرمایہ داروں کو عوام کا جی بھر کے خون چوسنے کا موقع اس لیے دیا
جاتا ہے تا کہ وہ اس میں سے انتخانی تشہیرکے لیے بھرپور چندہ دے سکیں ۔ اسی
سرمائے سے گودی میڈیا کو پالا پوسا جاتا ہےجو صبح سے شام تک تلوے چاٹتا ہے
اور پھر رات گئے تک بھونکتا رہتا ہے۔ بی جے پی کو ایسا لگتا ہے کہ اس حکمت
عملی سے وہ تاقیامت اقتدار پر قابض رہے گی لیکن کسانوں نے دہلی پر یلغار
کرکے اس کی چولیں ہلا کر رکھ دیں ۔ نئے زرعی قوانین کے خلاف 8 دسمبر کو
کسان تنظیموں کی جانب سے بھارت بند کی کال نے سنگھیوں کے ہوش اڑا دیئے ہیں
۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی اکڑ اور قوت فیصلہ کی کمی بی جے پی کو ایک ایسی
اندھیر گلی میں لے گئی جہاں سے واپس لوٹنا مشکل اور آگے جانا ناممکن ہوگیا
ہے۔ اب اس کے سامنے کسانوں کے مطالبات پر سرِ تسلیم خم کرنے کے سوا کوئی
چارۂ کار نہیں ہے۔
کسانوں کی اس تحریک کے سامنے سنگھ کے وہ بلند بانگ دعویٰ دھر ا کا دھرا رہ
گیا کہ وہ بڑی دیش بھکت اور بہت دلیر جماعت ہے۔ ان کے اندر اگر ہمت ہو تی
تو وہ اپنی ہمنواوں پولس کی آڑ میں سہی گھروں سے نکال کرلاتے اور ان
کسانوں روکنے کی کوشش کرتے۔ اس طرح ہر صبح شاکھاوں میں سکھائی جانے والی
لاٹھی بازی کا پول بھی کھل جاتا ۔ چین سے مقابلہ کرنے کا دعویٰ کرنے والے
سنگھ کو میڈیا کے پیچھے بیٹھ کر جھوٹ پھیلانا زیب نہیں دیتا ۔ ویسے وہ کر
بھی کیا سکتے ہیں جبکہ ان پردھان سیوک سائنسدان بن کر کسانوں کی تحریک سے
نبرد آزما ہونے کے بجائےکورونا کا مقابلہ کرنے کے لیے سنجیونی بوٹی تلاش
کرنے نکل کھڑا ہوا ہے اور اپنے پیادوں کو مختلف محاذ پر تعینات کردیا تاکہ
کسی طرح کسانوں کو دہلی میں داخل ہونے سے روکا جائے یا جو بات چیت کے
لیےآئیں انہیں گھما پھرا کر کنفیوز کیا جائے۔
کسانوں کو روکنے میں جب ہر محاذ پر سنگھ کے پرچارک ناکام ہوگئے توسرکار نے
بالآخر ان کے خلاف شک و شبہ اور نفرت کا بازار گرم کردیا ۔ اس نفسیاتی
حملے کے لیے میڈیا کو آلۂ کار بنایا گیا ۔ سب سے پہلے سوال آیا کہ پنجاب
کا کسان ہی کیو ں احتجاج کررہا ہے؟ یہ اس احتجاج کو سیاسی رنگ دینے کی ایک
کوشش تھی ۔ اس کا مقصد یہ بتانا تھا کہ پنجاب کی کانگریسی حکومت کے ایماء
پر یہ تحریک چل رہی ہے ۔ صوبائی حکومت پر مرکز یہ الزام تو لگا سکتا ہے کہ
اس کی طرح کانگریسی سرکار نےکسانوں کو جبر تشدد کاشکار کیوں نہیں کیا لیکن
یہ کہنا کہ اس کی شئے پر اتنی بڑی تحریک اٹھ گئی سراسر احمقانہ دعویٰ تھا ۔
ایک طرف تو یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ ہندوستان کانگریس مکت ہوچکا اور پھر
اسی جماعت کو اتنی بڑی تحریک چلانے کا کریڈٹ دینا دوغلا پن نہیں تو کیا ہے۔
ہریانہ کے بی جے پی وزیر اعلیٰ جب پنجاب کے کسانوں کو روکنے میں ناکام
ہوگئے اور انہوں نے دیکھا کہ ہریانوی کسان ان کے شانہ بشانہ تحریک میں شامل
ہوگئے ہیں تو نامہ نگاروں کے سامنے یہ جھوٹ بول دیا کہ یہ ہمارے کسان نہیں
ہیں ۔ منوہر لال کھٹر جیسے بنیا کو ابھی تک یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ
کسان ہمارا تمہارا نہیں ہوتا ۔ وہ تو کسان ہوتا ہے اور سب کا ہوتا ہے ۔
ویسے پنجاب کا کسان کیوں پیش پیش ہے؟ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ پہلے تو یہ کہ
وہ بیدار ہے اس کو بیوقوف بنانا ناممکن ہے۔ وہ خوشحال کیوں کہ اس کا مال
سرکاری منڈی میں بکتا ہے اور اسے اپنی پیداوار کی اچھی قیمت ملتی ہے۔ یہی
حال ہریانہ کے کسان کا ہے ۔ ان لوگوں کو پتہ ہے کہ اگر براہ راست یا کسی
اور طریقہ سے ان منڈیوں کو بند کردیا گیا تو وہ بھی دیگر ریاستوں کے کسانوں
کی مانند سرمایہ داروں کے آگے محتاج ہوجائے گا۔ غربت اور خودکشی اس کا بھی
مقدر بن جائے گی۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے ہندوستان کے پچاس کروڈ کسان خاندانوں
میں ۵۵ فیصد قرضدار ہیں ۔ ان پر اوسط قرض ۴۷ ہزار ہے۔ اسی لیے خودکشی کے
اتنے زیادہ واقعات مہاراشٹر اور آندھرا و تلنگانہ میں ہوتے ہیں ۔ہریانہ
اور پنجاب کے کسان کو اپنے پیش آئندہ نقصان کا اندازہ ہے۔ آخری وجہ یہ ہے
اس نئے قانون میں کارپوریٹ کو کھیت کرایہ پر دینے کی جو بات کی کی گئی اس
کو پنجاب کا کسان بھگت چکا ہے ۔ اس کو پتہ چل چکا ہے کس طرح یہ کمپنیاں
کسانوں کا استحصال کرتی ہیں ۔ انہیں یہ بھی معلوم ہوگیا ہے کہ انشورنس کے
نام ان کے ساتھ کیسا فریب کیا جاتا ہے۔ اس لیے وہ میدان میں اترا ہےاور
سارے ملک کے کسانوں کی ہمدردیاں اس تحریک کے ساتھ ہیں ۔
سنگھ پریوار کے پاس جب کچھ نہیں بچتا تو دہشت گردی کا الزام حرکت میں آتا
ہے۔ مسلمانوں کو آئی ایس آئی کا ایجنٹ ، اشتراکیوں کو شہری نکسل اور
پنجابیوں کو خالصتانی قرار دے دیا جاتا ہے۔ یہ فتنہ بھی منوہر لال کھٹر کا
چھوڑا ہوا ہے انہوں نے خفیہ ایجنسیوں کے حوالے سے شک کا اظہار کیا جسے
میڈیا نے یقین میں بد ل دیا اور اس تحریک کو پاکستان سے جوڑ دیا۔ یہ نہایت
شرم کی بات ہے کہ یہ لوگ ان پنجابی کسانوں کو خالصتانی کہہ رہے ہیں جن سے
پہلے ہریانوی کسان ڈنڈے کھانے کے لیے اپنے آپ کو ڈھال بنا رہا ہے ۔ جن کی
حمایت میں اتر پردیش کا کسان کوچ کرچکا ہے۔ مدھیہ پردیش اور راجستھان کے
کسان دہلی کی سرحد پر دستک دے رہے ہیں اور ملک بھر کا کسان مودی اور کھٹر
کے پتلے جلا رہا ہے۔ ان احمقوں نے ملک کی نصف آبادی کے خالصتانی یا ان کا
حامی ہونے کا اعلان کردیا جو پاکستان کے لیے بھی ممکن نہیں ہے۔ اسی لیے کہا
جاتا ہے ’احمق دوست سے دشمن اچھا‘۔
کسان جب آہی گئے تو دہلی کے اسٹیڈیمس کو جیل بنانے کی کوشش کی گئی ۔ اس
میں بھی جب ناکامی ہوئی تو وزیر زراعت نریندر سنگھ تو مر بولے وہ ۳ دسمبر
کو بات کریں گے ۔ یہ اس طرح کا اعلان ہے گویا کوئی احسان کریں گے۔ ارے
بھائی جو بات ۳ دسمبر کو کرنی ہے وہ ابھی کرلو تو کیا حرج ہےلیکن یہ اس
حکومت کی اکڑ ہے جو اسے بار بار ذلیل کرتی ہے۔ اس کے بعد کسانوں نے جب
براڈی میں نرنکاری بابا میدان میں جانے سے انکار کردیا اور کہا کہ وہ دہلی
کو گھیرنے کے لیے آئے ہیں گھرنے کے لیے نہیں تو امیت شاہ کو خیال آیا کہ
وہ ملک کے وزیر داخلہ ہیں۔ انہوں نے اعلان کیا کہ کسان طے شدہ مقام پر چلے
جائیں تو ان سے اسی وقت بات ہوسکتی ہے۔ کسانوں کو اگر ابتدا ہی میں بغیر
کسی رکاوٹ کے براڈی میں آنے دیا جاتا اور فوراً ان سے بات کی جاتی تو یہ
رسوائی کیوں ہوتی لیکن جن کو اس کا شوق ہے انہیں کون منع کرسکتا ہے؟
وہ حکومت جو دو ماہ سے کمبھ کرن کی مانند سورہی تھی وہ آہستہ آہستہ جاگ
رہی ہے۔ اب تک شاہ جی تو بیدار ہوئے لیکن پردھان جی نہیں جاگے۔ وزیر اعظم
نریندر مودی کسانوں سے ملنے کے بجائے کورونا وبا کی ویکسین کی تیاریوں کا
جائزہ لینے کے لئے احمد آباد، پونے اور حیدرآباد کی طرف چل پڑے۔ یہ عجیب
حال ہے کہ کسان اپنا سیاسی مسئلہ حل کرنے کے لیے دہلی آئے تو وزیر اعظم
سائنسداں بن کر ملک بھر کے دورے پر نکل کھڑے ہوئے۔ بہار مہم کے دوران انہیں
کورونا کا خیال نہیں آیا لیکن کسانوں نے انہیں ویکسین کے فراق میں مبتلا
کردیا ۔ یہ دورہ دراصل ٹیلی ویژن پر کسانوں کے بجائے ان کی یاترا کی خبر
چلاکر عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے کیا گیا ورنہ وہ تو اپنے دفتر میں بیٹھ کر
آن لائن تبادلہ خیال کرسکتے تھے ۔ ویسے بھی ان کی سائنسی معلومات دنیا بھر
میں مشہور ہے ۔ آبی بخارات سے پانی اور اس سے ہائیڈورجن الگ کرکے بجلی
بنانے والی بات نے عالمی سائنسدانوں کو بھی حیران کردیا تھا لیکن اب انہیں
چاہیے کہ یہ ڈرامہ بازی چھوڑ کر کسانوں کی پریشانی دور کریں ورنہ مستقل طور
پر دہلی سے احمدآباد آکر رہنا پڑے گا ۔
|