حکومت کچھ بھی کہے مگر ہر شعبے میں اس کی کمزوری پوری طرح
عیاں ہے۔وہ چیز جسے ریاست کہا جاتا ہے جانے کہاں ہے۔بہت سے تازہ واقعات ذہن
میں آ رہے ہیں ۔سوشل میڈیا پہ ایک چھوٹا سا کلپ چل رہا تھا۔ لاہور کے ایک
بڑے پولیس افسرانٹریو دے رہے تھے۔ اس دوران انہوں نے پولیس کو بھی مظلوم
بتایا اور اس کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ذکر کرتے ہوئے کوہٹہ میں ایک
سیاستدان کا ایک کانسٹیبل پر گاڑی چڑھا کر قتل کرنے کے واقعے کا ذکر کیا۔
انٹریو لینے والے نے پوچھا کہ اس دن ریاست کہاں تھی۔ جواب ملا کہ اس دن
ریاست مر گئی تھی۔ آج وہی افسر لاہور میں موجود ہیں اور پولیس میں اعلیٰ
عہدیدار ہونے کی وجہ سے یہاں کے امن و امان کے ذمہ دار ہیں۔ان کی خدمت میں
ایک چھوٹا سا واقعہ بیان کر رہا ہوں ۔ شاید وہ بتا سکیں کہ اس دن ریاست
کہاں تھی۔زندہ تھی، بے ہوش تھی، مدہوش تھی یا مر گئی تھی۔
میں رائے ونڈ روڈ پر واقع لاہور کی ایک مضافاتی بستی کا مکین ہوں۔ سستی
زمین کے چکر میں میرے جیسے بہت سے لوگ نے وہاں اپنے اپنے گھر بنائے ہوئے
ہیں ۔ یہ گھر اپنے ارد گرد بنے ہوئے فارم ہاؤسز سے گھرے ہوئے ہیں۔ یہ فارم
ہاؤس اچھے اور نفیس لوگوں کے بھی ہیں مگر چند ایسے بھی ہیں کہ جن سے بساند
آتی ہے۔چند دن پہلے ایک فارم ہاؤس میں ایک تقریب تھی۔رات نو بجے تقریب کا
آغاز ہوا اور یہ تقریب صبح پانچ بجے تک جاری تھی۔یہ کوئی شادی یا سالگرہ کی
تقریب نہیں تھی۔ تھرکتی اور مچلتی جوانیوں کی ایک رنگا رنگ شاید میوزیکل
ایونگ کے نام سے جانے والی تقریب تھی۔ ساری رات بے ہنگم میوزک نے کسی مکین
کو سونے نہیں دیا۔درجنوں مسلح گارڈ پہرہ دے رہے تھے۔نیم عریاں لڑکے اور
لڑکیاں فارم ہاؤس کے اندر ہی نہیں باہر بھی کھلے عام پھر رہے تھے۔ کھلی سڑک
پر ان کی مد ہوشی بھری نعرے بازی باعث شرم تھی۔وہ کسی اور کے نہیں، ہماری
اشرافیہ کے بیٹے اوربیٹیاں تھیں۔ ان کی حرکتوں کو دیکھ کر لوگ شرم سے پانی
پانی ہو رہے تھے اور اس رات گھر سے باہر نکلنا ایک گناہ سمجھ رہے تھے۔
آبادی کے کچھ لوگ مجھے بتا رہے تھے کہ انہوں نے پولیس کو مدد کے لئے طلب
کیا کہ تقریبات کا ایک مقررہ وقت ہے ۔ پھر ہمیں کیوں ساری رات عذاب میں
ڈالا ہوا ہے ۔ مگر کوئی مدد کے لئے نہیں آیا۔ شاید وہ ذمہ دار افسر بتا
سکیں کہ اس دن ریاست کو کیا ہوا تھا۔
صبح پانچ بجے جب تقریب کا اختتام ہوا تو ایک نوجوان جو شایدکسی بڑے سرکاری
افسر کا بیٹے تھا، نشے میں دھت ایک سرکاری گاڑی (ڈالہ) ، جس پر سبز رنگ کی
نمبر پلیٹ تھی، لے کر بڑی تیزی سی واپس روانہ ہوا۔ سب سے پہلے اس نے اپنی
گاڑی ایک گھر کے باہر کھڑی گھر والوں کی گاڑی سے ٹکرائی اور اس کو تباہ
کیا۔ دھماکے کی آواز سن کر گھر والے دوسری گاڑی میں ان کے تعاقب میں چلے۔
اگلے مرحلے میں گاڑی ہماری سکیم کے گیٹ پر لگے بیرئیر کو توڑتی گیٹ سے
ٹکرائی۔ تھوڑی سی دیوار بھی ٹوٹی اور لوہے کا گیٹ بھی زخمی ہوا۔ مگر اس کی
رفتار میں کوئی کمی نہ آئی۔ جن کی کار ٹوٹی تھی وہ پوچھتے ہوتے اسی راستے
پر آگے بڑھ رہے تھے۔ اس دوران 15 پر بہت سے فون ہوئے لیکن کوئی مدد موصول
نہ ہوئی۔ ٹوٹی گاڑی والے تعاقب میں بھوبتیاں گاؤں کے پاس پہنچے تو وہاں رش
نظر آیا کہ کوئی حادثہ ہوا ہے۔ پتہ چلا کہ وہی نشے میں دھت شخص کی گاڑی ایک
مرغیوں والے کی گاڑی سے ٹکرائی ہے ، مرغی والوں نے اسے قابو کیا ہوا تھا۔
اتنے میں ایک پرائیویٹ گاڑی میں کچھ پولیس والے آئے اور اس نوجوان کو بچہ
ہے معاف کر دیں کہتے اور ، ا س یقین دہانی کے ساتھ کہ سب کا نقصان پورا کر
دیا جائے گا، اپنی پرائیویٹ گاڑی میں بٹھاکر یہ جا وہ جا۔ پولیس باوجود
کوشش کے موقع پر نہیں آئی۔ میں سوچ رہا ہوں اس دن کیا ہوا تھا۔ ریاست یا
ریاستی اہلکاروں کی غیرت مر گئی تھی، حمیت فوت ہو گئی تھی۔ اہلکار تو
ریاستی نمائندے ہوتے ہیں ۔ ریاست اس وقت مرتی ہے جب ریاستی ذمہ داروں کے
ضمیر مرتے ہیں۔ حکمرانوں کے احساس مرتے ہیں۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ یہ روز
ہوتا ہے ۔ یہ ہمارا اجتماعی رویہ ہے کسی ایک کو کیسے الزام دیا جا سکتاہے۔
حکمران اور اہلکار بھی تو ہم ہی سے ہیں۔ ذرہ سوچیں، سمجھیں اور اپنے اپنے
گریبان میں جھانکیں تو محسوس ہوتا ہے کہ اس صورت حال کے ہم سب خود ذمہ دار
ہیں۔
ایک اور واقعہ ،گھر میں ایک مزدور کام کر رہا تھا۔کہنے لگا کہ مجھے پتہ چلا
ہے آپ پڑھاتے ہیں۔ میری بیٹی کا داخلہ نہیں ہو رہا۔ فلاں سرکاری یونیورسٹی
میں داخلے کی درخواست دی ہے۔ مگرتفصیل اسے معلوم نہ تھی۔ مغرب کے بعد بیٹی
کے ساتھ دوبارہ آیا۔ بیٹی سے پتہ چلا کہ اس نے پبلک یونیورسٹی کے دو تین
ڈیپارٹمنٹس میں اپلائی کیا ہوا ہے مگر میرٹ پر نام نہیں آیا۔میں نے بھی پتہ
کیا تواس کے نمبر میرٹ سے کچھ کم تھے ۔ میرٹ82فیصد نمبر تک تھا جب کہ اس
بچی کے تقریباً 79 فیصد نمبر تھے۔ہر نمبر پر بیس بیس طالب علم ہونے کی وجہ
سے اس کا داخلہ ممکن نہیں تھا۔میں نے اسے کہا ،’’بیٹاتھوڑی محنت اور کرتیں
داخلہ تو مل جاتا‘‘۔ جواب ملا، میرے پورے خاندان میں کوئی پڑھا لکھا نہیں۔
ٹیوشن کے ہم متحمل نہیں۔ خاندان کے زیادہ تر لوگ پڑھنے کے خلاف ہیں۔ذاتی
کوشش کے بل پر میرے جتنے نمبر آ جاتے ہیں وہ بھی غنیمت ہیں۔ اچھے نمبروں کی
وجہ ہی سے میرے والدین نے مجھے پڑھنے کی اجازت دی ہوئی ہے۔ مگر اب قسمت کی
بات ہے۔ پرائیویٹ ادارے بہت مہنگے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں وظیفہ مل جائے گا مگر
داخلے کے پیسے کہاں سے آئیں گے۔ابھی کوئی مدد کرکے داخلہ لے بھی دے تو چار
سال کے اخراجات بار بار مانگنے کی ذلت کون برداشت کرے گا۔اس لئے کسی
پرائیویٹ یونیورسٹی میں داخلہ نہیں لوں گی۔ ایک ہونہار لڑکی مایوس چلی گئی۔
وہ قوم کی بیٹی ہے، میری ،آپ کی، سب کی بیٹی ہے۔ مگر مایوس اس لئے ہے کہ
قوم کو اس کی پریشانیوں سے کوئی سروکار نہیں۔ تعلیم حکومت کی آئینی ذمہ
داری ہے۔ مگر اس معاملے میں حکومت کہاں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس معاملے میں
حکومت کو فوت ہوئے عرصہ بیت گیا ۔ ویسے بھی آج کے حالات میں غریبوں کے بچوں
کو پڑھنا سازگار نہیں۔ آن لائن ایجوکیشن کے فراڈ میں وہی طالب علم شریک ہو
سکتا ہے جس کے پاس ایک اچھا لیپ ٹاپ ہو، گھر میں تیز رفتار انٹر نیٹ ہو،
طالب علم خود پڑھنے کا شوقین ہو اور سب سے بڑھ کر پڑھانے والااستاد
دیانتدار ہو۔
|