گزشتہ دنوں چار روزہ مختصر سیاحت پر نکلنے کا اتفاق
ہوا۔ دِن کم ہونے کے باوجود پیارے پاکستان کے تین صوبوں میں سے گزرنا تھا۔
بلوچستان جاتے ہوئے کسی بھی مسافر کا یہی تصور ہوتا ہے کہ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ
کا شکار ہوں گی، راستے دشوار اور پُر خطر ہوں گے، منزلیں دُور اور مشکل ہوں
گی۔
مگر ’’سی پیک‘‘ نے یہ تمام خدشات ختم کردیئے ہیں، سڑکیں بہترین، راستے بے
خطر اور منزلیں آسان ہیں۔ ہمارا پہلا پڑاؤ تو ژوب تھا، جہاں جانے کے لئے
بہترین سڑک نے ہمیں خوش آمدید کہا اور آخر تک ہمارا ساتھ نبھایا۔ ہم رواں
سال کے آغاز میں ہی گوادر گئے تھے، نئی سڑکوں کی تعمیر اور سردیوں کے موسم
نے سفر بہت ہی آسان بنا دیا تھا۔ اب چونکہ رُوٹ مختلف تھا، تاہم بہاول پور
سے لورالائی تک کا سفر مشترک تھا، وہاں سے ژوب کی طرف رُخ کرنا تھا۔ یہ
دیکھ کر صدمہ پہنچا کہ اِسی سال کے شروع میں جو سڑک بہترین تھی، اب اس پر
اُبھار نمایاں ہو رہے تھے، گویا ایک موسمِ گرما ہی اُس کے لئے کافی ٹھہرا،
آنے والے سالوں میں سنگلاخ پہاڑوں کے ویران راستوں پر غضب کی گرمی پڑے گی
تو سڑک کی حالت کیا ہو جائے گی؟ افسوس کہ اپنے ہاں سڑک بناتے ہوئے ٹھیکیدار
اور متعلقہ سرکاری محکمہ کا ایک ہی ٹارگٹ ہوتا ہے کہ بچت کتنی ہوسکتی ہے
اور کس طریقے سے ہو سکتی ہے؟ سو فریقین کی تمام تر توانائیاں قومی خزانہ
نوچنے پر مرکوز رہتی ہیں، اور بلاشبہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہی ٹھہرتے
ہیں۔
بلوچستان کی سڑکیں بہتر ہو جانے کے بعد یہ امید بھی کی جاتی ہے کہ وہاں کے
عوام کی حالت بھی بہتر ہو سکے گی، مگر جہاں ہر قدم ذاتی مفاد کے پیش نظر
اٹھایا جاتا ہے، وہاں انسان کی ترقی کا کون سوچے گا ؟ یہی وجہ ہے کہ شہر
کچرے اور گردو غبار سے اَٹے پڑے ہیں، لوگ میلے کچیلے اور غربت زدہ ہیں،
تعلیم کی کمی کا احساس چار سُو دکھائی دیتا ہے۔ بڑی گاڑیاں اگرچہ بہت ہیں،
مگر قوم کے ’سردار‘ بھی بہت ہیں، سرداروں کے علاوہ پورے صوبے میں ’نان کسٹم‘
گاڑیوں کا چلن عام ہے، شاہراہیں تو ہیں ہی، اطراف میں بھی ایسی گاڑیاں عام
دیکھی جاسکتی ہیں۔ شاید یہاں کے باسیوں کی قسمت میں بھیڑ بکریاں چرانا،
مزدوری کرنا اور ٹرانسپورٹ پر چھوٹی ملازمت کرنا ہی ہے۔ اپنی حکومتیں جس
قدر بھی دعوے کریں، پسماندہ عوام کے لئے اُن کے ہاں کوئی عملی اقدام دکھائی
نہیں دیتے، ہاں صرف وعدوں اور دعووں وغیرہ کی بات الگ ہے۔ اگر صوبہ کے وسیع
علاقوں میں شہروں کے قریب چھوٹی صنعتیں لگائی جاتیں، یا مختلف مقامات پر بے
شمار درخت کاشت کئے جاتے تو حالات مختلف ہو سکتے تھے۔ بلوچستان کے مشرقی
ضلع ’شیرانی‘ سے ڈیرہ اسماعیل خان میں داخل ہونے سے قبل چند کلومیٹر
دیوقامت پہاڑوں کا منظر انسان کو ششدر کر دیتا ہے، کہ دو بڑے پہاڑ آمنے
سامنے ہیں، اور اُن کی کوکھ کو کاٹ کر بڑی سڑک بنائی گئی ہے، گاڑی بسا
اوقات کٹے ہوئے پہاڑ کے نیچے سے گزر رہی ہوتی ہے، یہ منظر ناقابلِ فراموش
ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ پہاڑ بہت بڑی بڑی دیواروں کی طرح سیدھے کھڑے ہیں۔
ہمارے اِس سیاحتی دورے میں ژوب کے علاوہ کالا باغ اور وادی سون سکیسر شامل
تھی۔ کالا باغ کے مقام پر دریائے سندھ بہت خوبصورت اور دلکش منظر پیش کرتا
ہے۔ سرسری سوچ رکھنے والے ہمارے جیسے لوگ یہاں نہ بھی آئیں تو کالا باغ ڈیم
کے نام پر دِل ضرور جلاتے ہیں، مگر یہاں آکر تو واقعی دِل ڈوبنے لگتا ہے،
دریائے سندھ کا پانی سیلاب بن کر فصلیں اُجاڑتا ، آبادیاں برباد کرتا،
انسانوں اور مویشیوں کی جانیں لیتا سمندر میں جا گرتا ہے، مگر ڈیم بنا کر
پانی کو زمینیں سیراب کرنے میں ہمارے صوبے یکسو نہیں ہیں، ضرور اُن کے پاس
دلائل ہیں، مگر کیا پاکستان کے وسیع تر مفاد کا تقاضا نہیں کہ اپنے ذاتی
اور چھوٹے مفادات کو پسِ پشت ڈال دیا جائے ؟حالات و حقائق سامنے ہیں، مفاد
اپنا ہوتا ہے، نام ملک کا لیا جاتا ہے۔
وادی سُون سکیسر کا نام ہی دِل کش ہے، یقینا وادی بھی اُسی طرح خوبصورت ہے۔
ہم چونکہ خوشاب اور جوہر آباد کی طرف سے گئے تھے، وادی سون کے آغاز میں
موجود اِن جڑواں شہروں میں سیاحوں کی رہائش کا کوئی خاص بندوبست نہیں ہے،
بہت سے لوگوں سے معلوم کرنے کے بعد کچھ معلومات حاصل ہوتی ہیں، اور بہت
کوشش کے بعد انسان کسی منزل پر پہنچتا ہے۔ وادی میں داخلے سے ہی سڑکیں خستہ
ہیں، خاص بات یہ کہ خوبصورت جھیلوں کی طرف کوئی خاص نشاندہی نہیں، قدم قدم
پر لوگوں سے راستہ معلوم کرتے جائیں، بہت سے لوگ تو ابتدا میں ہی لاعلمی کا
اظہار کردیتے ہیں، اگر کوئی راستہ سُجھانے کی ہمت کر بھی لے تو اپنی مدد کے
لئے اور ساتھیوں کو بھی طلب کر لیتا ہے۔ جھیلوں کی طرف رہنمائی کے لئے اگر
محکمہ سیاحت نے کچھ بورڈ وغیرہ لگائے بھی ہوں گے تو وہ اپنی طبعی عُمر پوری
کر چکے ہیں، یا اپنا وجود ہی کھو چکے ہیں۔ یوں سیاح وادی کی بھول بھلیوں
میں الجھا رہتا ہے۔ ہاں البتہ کلر کہار کی طرف سے وادی میں داخل ہوں تو
سیاحوں کے لئے ’’خوش آمدیدی‘‘ گیٹ موجود ہے،شاید یہ گیٹ لگا کر ہی حکومت
اور متعلقہ محکمہ نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔ ’’کھبیکی جھیل ‘‘ اور ’’
اچھالی جھیل‘‘ کے لیے حکومت اگر روایتی کارروائیوں سے آگے قدم بڑھائے تو
سیاحت کو کسی حد تک فروغ مل سکتا ہے۔ اگرچہ دانشوروں کا یہی قول ہے کہ
انسان کو مثبت سوچ کا حامل ہونا چاہیے، منفی سوچ ترقی کی راہوں میں بڑی
رکاوٹ ہے، مگر کیا کیجئے کہ دِل نہیں مانتا، کیونکہ اِس معاملے میں حکومتی
کارروائیاں اور اقدامات بذاتِ خود مایوس کُن ہیں۔
|