خصوصی تحریر: چند سطریں ضرور پڑھیں:
Long walk to Freedom"1994 " Autobiography
|
|
|
نیلسن منڈیلاکی" آپ بیتی" سے چند اقتباسات تحقیق و تحریر :عارف جمیل [email protected]
کورونا وائرس کویڈ۔19 کے دوران جہاں ایک اختلافی بحث چل نکلی ہے کہ اس وائرس کی حقیقت کیا ہے؟ وہاں اس وائرس سے متعلق دُنیا بھر کی حکومتوں کی احتتاطی تدابیر کے منفی مُثبت نتائج پر مختلف عالمی بڑے ادارے کچھ حکمرانوں پر نااہل ہونے کا لیبل بھی چسپاں کر رہے ہیں۔یہ ایک مزید بحث طلب موضوع ہے ۔لیکن اس دوران بہت سے سکالرز کو موجودہ دور میں لیڈر شپ کے فُقدان پر "نیلسن منڈیلا "کی شخصیت کی خصوصیات کو اُجاگر کرتے دیکھا گیااور جس سے عوامی سطح پر سراہا بھی جارہا ہے۔ Long walk to Freedom"1994 " Autobiography جنوبی افریقہ کے عظیم رہنماءاور سابق صدر نیلسن منڈیلا کا 7 سال پہلے 5ِدسمبر 2013ءکو 95برس کی عمر میں انتقال ہو ا۔وہ ایک ایسی تاریخ ساز شخصیت تھے جنہوں نے اپنی ذات سے ثابت کیا کہ : ٭اتنی اذیت کے باوجود(گوروں کے خلاف) بدلے کا عنصر نہیں رکھا۔ ﴿جب وہ صدر بنے تھے تو اُنھوں نے کہا تھا کہ آج کے بعد میری پارٹی ہے نہ قبیلہ نہ خاندان۔ ٭اُنھوں نے 5سال کلین حکومت کی اور پھر رضاکارانہ ریٹائر منٹ لے لی۔جس کی مثال تیسری دُنیا میں نہیں ملتی۔ "نیلسن "نام کیسے رکھا گیا: جولائی1918ءکو گاﺅں مویزو ضلع امتایا ،جنوبی افریقہ میں پیدا ہونے والے بچے کا نام والد کی طرف سے رولہلا ہلا ژہوسارکھا گیا۔جس کا مطلب "کسی درخت کا کھینچنا " جبکہ معروف معنی "مصیبت کا کھڑا کرنے والا "ہے۔منڈ یلا دادا کا ہم نام رکھا گیا۔آگے وہ آپ بیتی میں ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ : "سکول میں پہلے دن میری اُستانی مس اُمڈنگین نے ہم سب کو ایک ایک انگریزی نام دیا اور کہا کہ کہ سکول میں تمھارا یہی نام ہو گا۔یہ اُن دنوں افریقیوں میں رواج تھا اور بلا شبہ ہماری تعلیم برطانوی تھی۔سفید فام افریقی ناموں کا تلفظ کرنے کے قابل نہیں تھے اور وہ افریقی ناموں کارکھنا غیر مہذب سمجھتے تھے۔اُس روز اُمڈنگین نے مجھے بتایا کہ تمھارا نام نیلسن ہے۔اُس نے خاص نام ہی مجھے عطا کیوں کیا یہ نہیں جانتا۔شاید اُس کا تعلق عظیم برطانوی نحری کپتان لارڈ نیلسن سے تھا۔یہ محض ایک قیاس ہو گا"۔ مندرجہ بالا اقتباس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ ایک ایسے انسان کی ولولہ خیز" آپ بیتی" ہے جس نے اپنی جوانی کی عمر سے لیکر وفات تک اپنی عمر اپنے ملک و قوم کی آزادی کی جد وجہد کیلئے صرف کر دی۔اُنھیں اپنے بیوی بچوں اور خاندان سے دور رہ کر بار بار قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیںاور آخری 27برس جن میں 18سال قید تنہائی شامل ہیں مسلسل جیل میں گزارنے پڑے۔وہ ایک قانون دان اور لاءگریجوایٹ تھے۔مگر سفید فام سامراجیوں نے جزیرہ روبن میں اُن کے ساتھ عادی مجرموں سا سلوک کیااور مزدورں کے طرح بوجھ اُٹھوایا۔اس کے باوجود اُنکے پاﺅں میں کبھی لغزش نہیں آئی ۔وہ عزم وہمت کے پہاڑ ثابت ہوئے۔اُنکے اس رویئے نے گورے حکمرانوں کو جیل میں اُنکے ساتھ گفت و شنید کیلئے مجبور کر دیا۔اُنھوں نے صبر و تحمل کے ساتھ تحریک ِآزادی ِ جنوبی افریقہ کو ہلاکت خیز ٹکراﺅ سے بچایااور سفید فام حکمرانوں کو قائل کرنے میں کامیاب رہے کہ سیاہ فام اکثریت کو اس جمہوری حقوق دینا ہی وقت کا تقاضا ہے۔لہذا اب جنوبی افریقیوں پر نسلی امتیاز کی پالیسی مزید مسلط نہیں رکھ سکتے۔ جنوبی افریقہ میں نسلی امتیازکی تفریق: تاریخی حیثیت میں جنوبی افریقہ میں جب17ویں صدی میں یورپی آبادکاروں کی آمد بڑبھتی چلی گئی تو اُنھوں نے وہاں کے مقامی سیاہ فام عوام کے خلاف امتیاز یا نسلی تفریق کی ایک ایسی بنیاد رکھ دی جو اگلی صدیوں میں حقوق و مراعات کی شکل میں مزید گہری ہوتی چلی گئی اور 1948ءمیں اس تفریق کو قانونی شکل دے کر سیاہ فام کو مزید غلامی کی طرف دھکیل دیا گیا۔ اس پر وہاں ظلم و ستم کی نئی داستانیں شروع ہو گئیں اور گورے حکمرانوں کے خلاف نفرت کے اظہار نے وہاں چند ایسے لیڈر پیدا کر دیئے جو جنوبی افریقہ کو آزاد کروانے کے خواہش مند نظر آنے لگ پڑے۔" نیلسن منڈیلا "بھی اُن میں سے ایک تھے۔ نیلسن منڈیلا کے والد گادلا ہنرینسوا نسلی و رسمی دونوں لحاظ سے اپنے علاقے کے ایک چیف تھے اور اُنکی 4بیویوں تھیں۔جن میں سے 13بچے تھے ۔4لڑکے اور 9لڑکیاں۔نیلسن منڈیلا تیسری بیوی نوسے کینی فینی سے پیدا ہوئے اور چاروں لڑکوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ اُنھوں نے اپنا بچپن اور جوانی افریقہ کے تمام بچوں کی طرح کھیلتے کودتے گزاری ۔ساتھ میں سکول میں تعلیم حاصل کرتے رہے۔بعدازاں کالج سے بی اے کرنے کے بعد ملازمت کے دوران قانون کی تعلیم حاصل کرتے رہے۔ ازدواجی زندگی: اپنی پہلی شادی جو 5اکتوبر 1944ءکو ہوئی۔ کے متعلق وہ لکھتے ہیں کہ : "ایولین میز(میری پہلی بیوی) سے پہلی ملاقات کے فوراًبعد میں نے اُسکو باہر ساتھ چلنے کیلئے کہا۔بہت جلد ہم محبت میں گرفتار ہو گئے۔ چند ماہ بعد میں اُسکو شادی کیلئے کہا اور وہ مان گئی۔ہم نے ایک سول تقریب میں شادی کر لی۔" سیاسی مصروفیات کی وجہ سے ازدواجی زندگی متاثر ہونا شروع ہو ئی تو لکھتے ہیں کہ: "اُن دنوں میں روز و شب بڑی مصروفیت میں گزرتے تھے۔صبح سویرے گھر سے نکلتا اور رات گئے لوٹتا ۔سارا دن دفتر میں کام کرنے کے بعد ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہو جاتاتھا۔ایولین میری ان ملاقاتوں کی نوعیت کو نہیں سمجھتی تھی۔جب میں دیر سے گھر پہنچتا تھا تو وہ شُبہ کرتی تھی کہ میں دوسری عورتوں میں دلچسپی لیتا ہوں۔بار ہا کہا کہ میں اہم میٹنگ میں تھا لیکن وہ یقین نہ کرتی تھی ۔1955ءمیں مجھے اُس نے الٹی میٹم دے دیا کہ میں اُس کو چُن لوں یا اپنی سیاسی جماعت کو"۔ نیلسن منڈیلا کیلئے سیاست میں وہ ایک کٹھن وقت تھا جسکی وجہ سے اُنکی پہلی بیوی نے اُن سے علحیدگی اختیار کر لی اور نتیجہ طلاق کی صورت میں سامنے آیا۔ نیلسن نے اپنی اولاد کو اُس کے ساتھ رہنے کی اجازت دے دی اور اُس دوران ہی 14ِجون 1958ءکو نومزا موونی مادی کیزیلاجو "ونی" کے عرفی نام سے معروف تھیںاور ایک سکول پر نسپل کی بیٹی تھیں سے شادی کر لی۔نیلسن منڈیلا کی اسیری کے دوران "عرفی"نے اپنے خاوند کی سیاسی تحریک کو بھرپور طریقے سے جاری رکھا۔ لیکن اُنکی رہائی کے بعد دونوں میاں بیوی میں وہ تعلق قائم نہ ہوسکا جن کی تواقع تھی ۔لہذا 1996ءمیں نیلسن منڈیلا نے "عرفی"کو طلاق دے کر 1998ءمیں ہمسایہ ملک موزنبیق کے آنجہانی صدر سامورا مائیکل کی بیوہ "گریکا مائیکل" سے شادی کر لی جو آخر تک قائم رہی۔ اپنے پہلے کرائے کے گھر کا نقشہ کھینچنا: اس ہی طرح اپنے پہلے اُس گھر کا انتہائی خوبصورت الفاظ میں نقشہ کھینچاتے ہیں جس میں اپنی پہلی بیوی کے ساتھ رہائش اختیار کی تھی : "ہمارے نئے گھر کا کرایہ 17شیلنگ6پینس تھا۔یہ مکان ہزاروں دوسرے مکانوںجیسا ہی تھا۔جو غلاظت سے اٹی سڑکوں پر ڈاک ٹکٹ کے سا ئز کے پلاٹوں پر تعمیر کیئے گئے تھے۔اسکی ویسی ہی ٹین کی چھت تھی ، ویسا ہی سیمنٹ کا فرش، ایک تنگ باورچی خانہ اور عقب میں ایک مشکیزے جتنا طہارت خانہ تھا۔اگرچہ باہر سٹریٹ لیمپ تھے لیکن گھر میںپیرا فین لیمپ استعمال کرتے تھے کیونکہ گھروں میں ابھی بجلی کی سہولت موجود نہیں تھی۔بیڈروم اتنا چھوٹا تھا کہ ایک ڈبل بیڈ تقریباً تمام فرش کو گھیر لیتا تھا"۔ سیاست کی طرف رحجان: نیلسن منڈیلا کیلئے گوروں کے ساتھ وقت گزارنا کیسا تھا اس کی دلچسپی کا اندازہ تو یہاں سے ہی لگایا جا سکتا ہے کہ ذہن کے کسی کونے میں یہ اُلجھن ضرور تھی کہ آخر اُن میں اور افریقی قوم میں کیا فرق ہے؟اس ہی دوران 16سال کی عمر میں ایک قبائلی سردار کی تقریر گوروں کے نظام کے خلاف سُننے کا موقعہ ملا تو وہ اُلجھن بیج کی شکل اختیار کر گئی۔ اپنی آپ بیتی میں لکھتے ہیں کہ: "مجھے یاد ہے کہ ایک روز میں لیکچر میں چند منٹ لیٹ سے گیا اور سارل نگھی(گورا طالب علم)کے ساتھ والی نشست پر بیٹھ گیا۔اُس نے برملا اپنی چیزیں اکٹھی کیں اور مجھ سے پرے جاکر بیٹھ گیا۔گوروں کیلئے اس طرح کا رویہ معمول کی بات تھی"۔ لہذا نیلسن منڈیلا نے جلد ہی اندازہ لگا لیا تھا کہ مستقبل میں زندگی کا مقصد کیا ہو گا ۔اُنکی" تخیلاتی فکر" میں منزل کا تعین افریقہ کا ایک بچہ کیسے کرتاتھا، بڑا غور طلب ہے ۔اُن کے مطابق : "میں حتمی طور پر اس لمحے کا تعین نہیں کرسکتا جب میں سیاست کے کوچے میں داخل ہوا ۔جب میں جان گیاکہ مجھے اپنی زندگی اس جدو جہد میں گزارنی ہے۔جنوبی افریقہ میں ایک افریقی ہونے کا مطلب ہے کہ وہ اپنی پیدائش کے لمحے سے ہی سیاست زدہ ہے۔خواہ وہ اسے تسلیم کرے یا نہ کرے۔ایک افریقی جس ہسپتال میں پیدا ہوتا ہے اُ سکے گیٹ پر لکھا ہوتا ہے" افریقین اونلی"۔جس بس میں گھر جاتا ہے ،جس علاقے میں رہتا ہے اور جس سکول میں داخل کروا کر اُسکو پڑھنے کیلئے بھیجا جاتا ہے سب پر افریقین اونلی کا لیبل چسپاں ہوتا ہے"۔ نیلسن منڈیلاافریقین نیشنل کانگرس میں شمولیت: کے بعد جلد ہی اُس جماعت کے اہم نمائندے بن کو اُبھرنے شروع ہو گئے۔ظاہر سی بات تھی کہ گورے وہاں پہلے ہی اپنے خلاف کسی تحریک کو کامیاب نہیں ہونے دے رہے تھے اُوپر سے روز بروز بڑھتی ہوئی افراتفری اُن سے برداشت نہیں ہو رہی تھی۔لہذا اُنکی حکومت خلاف کسی بھی منفی رویئے پر جنوبی افریقہ کے کالے با شندوں کو سزائیں دینا عام بات تھی۔اس صورت ِحال کا سامنا نیلسن منڈیلا کو بھی حکومت مخالف رویئے کے وقت کرنا پڑا۔آغاز کے دنوں میںہی جب اُنھیں گرفتار کر کے جیل میں بھیج دیا گیا تو اُنھوں نے اپنے تجربے کو کچھ اسطرح بیان کیا ہے کہ : "آخر کا ایک سفید ڈاکٹر نمودار ہوا۔اُس نے ہم سے پوچھا کہ ہم میں سے کوئی بیمار تو نہیں۔کسی نے بیماری کی شکایت نہ کی۔اب ہمیں کپڑے پہننے کا اذن ملااور پھر ہمیں دو بڑی کوٹھریوں میں لے گئے۔جن کا فرش سیمنٹ کا اور فرنیچر کوئی نہیں تھا۔کوٹھریوں میں حال میں ہی پینٹ کیا گیا تھا اور وہ پینٹ کی بُو سے بھری ہوئی تھیں۔ہر ایک کو تین پتلے کمبل اور سیسل گھاس کی ایک چٹائی دی گئی۔ہر کوٹھری میں ایک فرشی لیٹرین تھی جو کسی آڑ کے بغیر تھی۔کہا جاتا ہے کہ کسی قوم کو اس وقت تک جاننے کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا ہے ۔جب تک اسکی جیلوں میں جانے کا تجزیہ نہ ہو۔ ایک قوم کو اس سے نہیں پرکھا جا سکتا کہ وہ اپنے اعلیٰ ترین شہریوں سے کیا سلوک کرتی ہے بلکہ پرکھنے کا معیار یہ ہے کہ وہ اپنے کمترین شہریوں سے کیسا برتاﺅ کرتی ہے اور جنوبی افریقہ کی گوری حکومت تو جیلوں میں بند افریقیوں سے جانوروں سا سلوک کرتی تھی"۔ گرفتاریاںور قید وبند کی صُعوبتیں: نیلسن منڈیلا میں ایک نیا ولولہ پیدا کر رہی تھیں اور گوروں کو محسوس ہونا شروع ہو گیا تھا کہ جنوبی افریقہ کی قوم میں ایک ایسا لیڈر پیدا ہو چکا ہے جو جلد ہی شہرت کی بلندیوں کو چُھو کر اُنکی حکومت کیلئے خطرہ ثابت ہو گا۔لہذا جنوبی افریقہ کے مشہور ِزمانہ" ریونیا ٹرائلRivonia Trial " 1962-64ءکے دوران نیلسن منڈیلا اور ان کے ساتھیوں کو کو گرفتار کر کے 4بڑے الزامات لگائے گئے: 1) حکومتِ وقت کے خلاف افراد کی بھرتیاں کر کے ملک میں انتشار پھیلانے کی کوشش ۔ 2) اس سازش کے تحت دوسرے ذرائع سے اسلحہ حاصل کرنے کی کوشش۔ 3) کمیونزم کے پرچار کی کوشش ۔ 4) آخری ان مقاصد کیلئے بیرونی ذرائع سے رقم حاصل کرنے کی کوشش۔ بس اس موقع کے فائدہ اُٹھاتے ہوئے نیلسن منڈیلا کو قید کی سزا سُنا دی گئی اور پھر اُنکی 27سالہ طویل قید کا وہ سلسلہ شروع ہوگیا جو شاید دُنیا کی تاریخ میں واحد واقعہ ہو۔ 1964-82ءاُنھیں رابن آئی لینڈ (جزیرہ) میں رکھا گیا ۔1982-88ءپولزمور پریزن اور 1988-90ءتک وکٹر ورسٹر قید خانے میں رکھا گیا اور پھر اس آخری جیل سے ہی اُن کو رہائی ملی۔ نسلی امتیاز خاتمہ: اس عظیم افریقی سیاست دان نے اپنے ساتھیوں کو بھی قائل کیا کہ اب تشدد کی بجائے مفاہمت اور گفت و شنید کی پالیسی ہماری کامیابی کا راستہ استوار کرے گی۔رہائی کے بعد بھی مذاکرات کے کئی دورچلے اور پھر عبوری آئین اور آزادانہ انتخابات کے مرحلے طے پا گئے۔27ءاپریل 1994ءکو سیاہ فام جنوبی ارفریقی باشندوں نے زندگی میں پہلی بار ووٹ ڈالے اور اُنکی جماعت افریقین نیشنل کانگرس نے 62.2فیصد کی اکثریت سے انتخابات جیت لیئے۔انہی دنوں نیلسن منڈیلا کو" نوبل امن "انعام سے بھی نوازا گیا۔10مئی 1994ءکو اُنھوں نے جنوبی افریقہ کے پہلے سیاہ فام کی حیثیت میں صدر مملکت کا منصب سنبھا لااور پانچ سال مکمل ہونے کے بعد 1999ءکو اپنے اس عہدے سے الگ ہوگئے۔ دور ِصدارت: نیلسن منڈیلا کا یہ وہ دور تھا جسکو گورے دیکھ کر بھی حیران رہ گئے کہ کسی گورے سے عداوت کی بنیاد پر نہ بذات ِخود بدلہ لیا نہ اپنی اُس قوم کو بدلہ لینے دیا جس نے جنوبی افریقہ "ہماری اپنی قوم،ہماری اپنی زبان،ہماری اپنی سرزمین"کی تحریک سے آزاد کروایا تھا۔بلکہ تمام دفاتر میں گوروں کو اُس طرح ہی کام کرنے دیا جیسے ماضی میں کر رہے تھے۔جن کھیلوں میں گورے زیادہ ماہر تھے اُنکی ٹیمیں اُنکی سرپرستی میں ہی رکھنے کا حکم دیا۔اصل میں وہ ایک ایسی زندگی گزار چکے تھے جس میں تمام ادیان و نبی ﷺ کے آخری حج کے خطبے کا مطالعہ اور اُنکے بنیادی اصولوں پر عمل کرنے کا فیصلہ اُنکے ذہن کے کسی گوشے میں موجود تھا ۔ اسکے ساتھ ساتھ جدید دُنیا کے فلاسفرز اور رہنماﺅںکے نظریات کی جھلک اُن کے اپنے ان الفاظ میں پوشیدہ ہے: "میں نے مارکس ،اینجلز،لینن، ماوزے تنگ اور دوسروں کی تمام تصانیف حاصل کیںاور جدلیاتی اور تاریخی فلسفہ کھنگالنے لگا۔ان کتابوں کا ٹھیک ٹھیک مطالعہ کرنے کیلئے میرے پاس وقت نہ ہونے کے برابر تھا۔جہاں میں کمیونسٹ منشور سے متاثر ہوا وہاں "داس کپیٹل" سے کبیدہ خاطر ہوا ۔لیکن غیر طبقاتی معاشرے کے تصور نے مجھے اپنی طرف خاصا کھینچا جو میری نظر میں روایتی ثقافت سے مشابہ تھا۔جہاں زندگی مشترکہ و اجتماعی تھی۔میں نے مارکس کے بنیادی دعویٰ کی طرف جھکاﺅ محسوس کیا"۔جس سے سنہری حکومت کی سادگی اور نوازشات کا اظہار ہوتا ہے۔ ہر ایک سے اسکی اہلیت کے مطابق کام لیا جائے اور ہر ایک کو اسکی ضروریات کے مطابق دیا جائے"۔ آپ بیتی : 1974 ءمیں جزیرہ ِروبن کی اسیری کے دوران اُنھوں نے اپنی آپ بیتی "Long Walk To Freedom" لکھنی شروع کی جس میں اُنھوں نے اپنی زندگی کے ہر ظاہر و مخفی سوچ ،عزم و معاملات کی تفصیل مدلل انداز میں بیان کی ہے۔ اُردو میں اُسکا بہترین ترجمہ"محسن فارانی" نے کیا ہے اور اس مضمون کیلئے اُس ہی ترجمے سے استفادہ کیا گیاہے۔ابھی تو ایسی عظیم شخصیت کے بارے میں بہت کام ہو نا ہے کیونکہ اُنکی زندگی کو" زندگی و موت" کی ایسی کشمکش سے تشبیہ دینا ضروری ہے جو ہر پل اپنی" مایوسی کو اُمید سے وابستہ" کر کے ایک لمبی تاریخی قید کاٹنے کے بعد بھی پُر عزم نظر آتی ہے ۔
|