جمیل الدین عالی

اردو کے ممتاز شاعر، ادیب ، دانشور، کالم نگار اور ہر دلعزیز شخصیت ڈاکٹر جمیل الدین عالی نے اردو ادت کی بے پناہ خدمات انجام دیں۔

ڈاکٹر جمیل الدین عالی کا خاندانی نام نوابزادہ مرزا جمیل الدین احمد خان تھا، وہ 20؍ جنوری 1925کو دہلی میں پیدا ہوئے تھے۔

ان کے آبا واجداد ڈھائی سو برس قبل وسط ایشیا سے ہندوستان آئے، نواب امین الدین خان اول کے بیٹے اور ڈاکٹر جمیل الدین عالی کے دادا علاؤالدین احمد خان علائی، ریاست لوہارو کے والی ہوئے، جمیل الدین عالی کے والد اور ریاست لوہارو کے والی نواب سر امیر الدین احمد خان عرف فرخ مرزا 1860 میں پیدا ہوئے اور 1937 میں وفات پائی۔ عالی صاحب، نواب سر امیر الدین احمد خان کی چوتھی بیوی سیدہ جمیلہ بیگم بنت سید ناصر وحید بن خواجہ سید ناصر وزیر (سجادہ نشین خواجہ میر درد دہلوی) کی اولاد ہیں۔
ڈاکٹر جمیل الدین عالی تمام زندگی روزنامہ جنگ سے وابستہ رہے اور کبھی کسی دوسرے اخبار کیلئے نہیں لکھا۔ اس سے ان کی مستقل مزاجی اور کردار کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ عالی جی کی جنگ سے وابستگی نصف صدی سے زیادہ عرصے پر محیط رہی، نقارخانے کے عنوان سے جو ہفتہ وار کالم 1967 میں شروع کیا تھا، وہ آخری وقت تک جاری رہا ۔ انہوں نے 1994سے 1996تک جنگ میں ہفتہ وار اقتصادی کالم بھی لکھا۔ ان کی دودرجن سے زائد نثری اور شعری کتب ، اردو ادب کا گراں قدر سرمایہ ہیں۔ 54برس تک انجمن ترقی اردو پاکستان کے معتمد اعزازی کے طور پر بے مثال خدمات انجام دیں، پاکستان رائٹرز گلڈ کا قیام بھی ان کی عملی جدوجہد کا نتیجہ تھا۔ وفاقی اردو یونیورسٹی کی صورت میں انہوں نے بابائے اردو مولوی عبدالحق کے خواب کو حقیقت میں بدل دیا۔ بلاشبہ یہ ان کا تاریخی کارنامہ ہے، جسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

وہ نصف صدی سے زائد عرصے تک روزنامہ جنگ سے وابستہ رہے۔ اس کے علاوہ پاکستان ٹیلی ویژن پر کئی پروگرام کئے۔

طویل علالت کے بعد ۹۰ برس کی عمر میں 23نومبر 2015کو ان کا کراچی میں انتقال ہوگیا۔

عالی جی بنیادی طور پر شاعر تھے ، ان کی شاعر ی بھی اپنا ایک شجرہ ٔ نسب رکھتی ہے، انہوں نے غزل، نظم ، گیت اور قومی نغمے بھی لکھے ، لیکن دوہا نگاری ان کی پہچان ٹھیری۔ اس صنف میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ انہوں نے ہندی دوہے کے وزن و آہنگ سے ہٹ کر اردو دوہے میں نئے وزن و آہنگ کو استعمال کیا، دوہا نگاری کے حوالے سے "عالی چال" بہت مشہور ہوئی ۔ عالی جی ایک سچے محب وطن تھے، پاکستان سے ان کا عشق مثالی تھا، ان کی ہر تحریر میں ان کی پاکستانیت نمایاں ہے۔ انہوں نے لاتعدادقومی نغمے لکھے، لیکن ان کے نغمے "جیوے جیوے پاکستان" کو جو مقبولیت حاصل ہوئی وہ بھی تاریخ کا ایک حصہ ہے۔ ایک نثر نگار کی حیثیت سے بھی عالی جی کو منفرد مقام حاصل تھا، ان کے سفرناموں کی تاریخی حیثیت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے انجمن ترقی اردو پاکستان جانب سے شائع ہونے والی کتابوں پر "حرفے چند" کے عنوان سے جو پیش لفظ لکھے ہیں ، ان کے تین مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ عالی صاحب ہمہ صفات بھی تھے اور ہمہ جہت بھی۔ ان کی زندگی کی ہر جہت ایک الگ کتاب کا تقاضا کرتی ہے۔ عالی صاحب جس ادارے سے بھی منسلک ہوئے ، ایک داستان چھوڑ آئے۔

انہیں تاقیامت ایک اچھے اور مخلص انسان کی حیثیت سے یادرکھا جائے گا۔ عالی جی ایک صاحب نظر آدمی تھے۔ انہوں نے جس کام میں بھی ہاتھ ڈالا، کامیابی ان کا مقدر ٹھیری۔ عالی صاحب کی انسان دوستی بھی مسلم ہے اور شاید اسی جذبے کے تحت انہوں نے طویل نظم "انسان" لکھی، جس کی تکمیل ، جس کی تکمیل میں پچاس برس لگے۔


 

Shabbir Ibne Adil
About the Author: Shabbir Ibne Adil Read More Articles by Shabbir Ibne Adil: 108 Articles with 128121 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.