سعودی اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ ہندوستان کے دفاعی تعلقات میں مزید اضافے کا امکان

ہندوستان کے ساتھ سعودی عرب ا ور متحدہ عرب امارات کے درمیان تعلقات بہتر اور خوشگوار رہے ہیں اور اس میں مزید حکمت عملی کے ذریعہ دونوں خلیجی ممالک سے ہندوستان کے تعلقات اور مستحکم ہوتے نظر آرہے ہیں۔ ہندوستانی آرمی چیف جنرل ایم ایم ناراوانے 8؍ ڈسمبر بروز منگل کو چھ روزہ دورے پر متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے لئے روانہ ہوئے ، آرمی چیف پہلے متحدہ عرب امارات پہنچے جہاں وہ سینئر فوجی عہدیداروں سے ملاقات کریں گے اور دوطرفہ دفاعی تعاون کو بڑھانے کے طریقے کار پر تبادلہ خیال کریں گے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل ایم ایم نراوانے 13؍اور 14؍ ڈسمبر کو سعودی عرب کا دورہ کریں گے ۔ فوجی ترجمان نے کہا کہ آرمی چیف کے دورے سے سعودی عرب اور ہندوستان کے مابین سیکیوریٹی اسٹیبلشمنٹ کے سینئر عہدیداروں کے ساتھ متعدد ملاقاتوں اور دفاع سے متعلق مختلف امور پر تبادلہ خیال کے درمیان بہترین دفاعی تعاون میں اضافہ ممکن ہے ۔ فوجی سربراہ جنرل ایم ایم نراوانے رائل سعودی زمینی فوج کے صدر دفتر ، جوائنٹ فورس کمانڈہیڈ کوارٹر اور کنگ عبدالعزیز ملٹری اکیڈیمی کا دورہ کریں گے۔آرمی چیف مملکت کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کا بھی دورہ کریں گے اور اس ادارے میں طلبا اور اساتذہ سے خطاب کریں گے۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ گذشتہ چند برسوں سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات میں بہت بڑا بدلاؤ دکھائی دیتا ہے ۔ ذرائع کے مطابق سعودی عرب دفاعی سازو سامان کی مشترکہ تیاری میں ہندوستان کے ساتھ تعاون کرنے کا خواہاں ہے۔ چین امریکہ اور جاپان کے بعد سعودی عرب ہندوستان کا چوتھا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے، اور توانائی کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ ہندوستان اپنے خام تیل کی ضرورت کا تقریباً 18فیصد سعودی عرب سے درآمد کرتا ہے۔ سعودی عرب بھی ہندوستان کے لئے ایل پی جی کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ہندوستانی فوجی سربراہ کا یہ دورہ مملکت سعودی عرب کے درمیان مزید بہتر تعلقات کا ضامن سمجھا جارہا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ اس دورے سے پڑوسی ملک پاکستان کس ردّعمل کا اظہار کرتا ہے۔ویسے پاکستانی صحافی نے ایک انٹرویو کے دوران وزیر اعظم عمران خان سے اس دورے کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ۔ البتہ عمران خان نے ہندوستان کو ایک بڑی مارکیٹ قرار دیا اور کہاکہ ان کی حکومت آنے سے قبل ہی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ہندوستان کے ساتھ اچھے تعلقات تھے ، انکے مطابق ان تعلقات سے پاکستان کو کوئی اثر نہیں پرتا کیونکہ پاکستان کے ہمیشہ سے ان ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات رہے ہیں۔

پاکستان میں حکومت کے خلاف اپوزیشن کا مضبوط اتحاد
پاکستان میں وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کتنی مضبوط اور مستحکم ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کیونکہ ان دنوں پاکستان کی تقریباً تمام حزب اختلاف کی جماعتیں (پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ) کی تحریک متحدہ طور پر عمران خان کو وزارتِ عظمی کی کرسی سے بے دخل کرنا چاہتی ہیں۔ حزب اختلاف کی جماعتوں کی تحریک کے بارے میں عمران خان نے اس امکان کا اظہار کیا کہ ہوسکتا ہیکہ ان کے پیچھے کچھ ممالک ہوں جن کی وجہ سے اپوزیشن کو اعتماد مل رہا ہے۔ اور یہ ممالک پاکستان کو مضبوط دیکھنا نہیں چاہتے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق عمران خان نے جن خدشات کا اظہار کیا وہ یہ ہیں کہ یہ ممالک پاکستان کا بھی وہی حال کرنا چاہتے ہیں جو لیبیا اور عراق کا ہوا ہے اور اب یہی ممالک سعودی عرب اور ایران کو لڑانے کی سازش کرکے کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے بتایا کہ اس سارے عمل کے پیچھے ایک پلان ہے ۔ پاکستانی صحافی کے مطابق عمران خان کا کہنا ہیکہ ہمیشہ سے کچھ قوتیں ہیں جو پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتی ہیں اور وہ ملک میں انتشار پھیلانا چاہتی ہیں۔ پاکستانی حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے لاہور میں حکومت کو گرانے کے لئے بڑے پیمانے پر13؍ ڈسمبر کو جلسہ منعقد کئے جانے والا ہے جس کی عمران خان حکومت نے اجازت نہیں دی اور اس سلسلہ میں عمران خان نے کہا کہ وہ لاہور جلسے کی اجازت نہیں دیں گے مگر وہ انہیں روکیں گے بھی نہیں۔ عمران خان نے کہا کہ اپوزیشن ہمیں جال میں پھنسانا چاہتی ہے لیکن ہم طاقت کا استعمال نہیں کریں گے ۔ اپوزیشن اتحاد کی جانب سے حکومت کے خلاف استعفے دیئے جارہے ہیں ۔جمعیت علمائے اسلام کے امیر اور اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد ’’پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ‘‘کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے 31؍ ڈسمبر تک تمام پارٹیوں کے اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی کواپنے استعفے پارٹی قیادت کے پاس جمع کرانے کے لئے کہا ہے۔ اس سلسلہ میں عمران خان نے کہاکہ ان استعفوں کے بعد وہ ان نشستوں پر ضمنی انتخابات کراوائینگے۔ عمران کا کہنا ہیکہ پاکستانی فوج نے پوری طرح انکا ساتھ دیا ہے ، ان ہی کے مطابق فوج نے انکی خارجہ پالیسی میں مدد کی ہے اور فوج کے ساتھ انکا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ ایک حقیقت ہیکہ عمران خان کی حکومت کو پاکستانی فوج کا تعاون رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ عمران خان ایک مضبوط وزیر اعظم کی حیثیت سے اپوزیشن کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں اورپاکستان کو ترقی کی راہ پر لے جانے کی سعی کررہے ہیں۔

بحرین ویکسین لگانے والا پہلا عرب ملک
بحرین ایک چھوٹا سا عرب ملک ہونے کے باوجود بڑے بڑے سوپرپاور ممالک کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ کورونا وائرس کی وبا نے دنیا کو جن حالات سے دوچار کیا ہے اور اس کا ڈرو خوف جس طرح انسانوں کے ذہنوں میں بیٹھا ہوا ہے اس سے کون واقف نہیں ہے۔ کورونا وائرس کا مرض کب ختم ہوگا یا ایسے ہی دیگر امراض کی طرح یہ بھی ہمیشہ رہنے والا ہے اس سلسلہ میں کچھ کہا نہیں جاسکتا البتہ اتنا ضرور ہے کہ اس کی ویکسین اب مارکیٹ میں آنا شروع ہوگئی ہے اور کئی ممالک میں ابھی بھی اس کی تیاری کے لئے لیباریٹریز میں دن رات محنت کی جارہی ہے ۔ بحرین نے 4؍ ڈسمبر جمعہ کو کورنا وائرس سے بچاؤ کیلئے بننے والی فائزر ویکسین کی سرکاری طور پر منظور دے دی ہے۔ یہ اقدام کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے کیسز کو مدنظر رکھتے ہوئے اٹھایا گیا ہے۔ بحرین دنیا کا دوسرا اور عرب دنیا کا پہلا ایسا ملک بن گیا ہے جس نے ویکسین کے استعمال کی باقاعدہ منظوری دی ہے۔واضح رہے کہ گذشتہ ہفتہ برطانیہ ویکسین استعمال کرنے کی اجازت دینے والا دنیا کا پہلا ملک بن گیا تھا۔ برطانیہ نے فائزر کمپنی کو ویکسین کی چار کروڑ خوراکوں کا آرڈر پہلے سے ہی دے رکھا ہے۔ برطانیہ کے مطابق کیئر ہومز میں مقیم عمر رسیدہ افراد اور ان کی دیکھ بھال کرنے والوں کو پہلے مرحلے میں ویکسین لگائی جائے گی۔ برطانوی ذرائع ابلاغ کے مطابق سب سے پہلے 90سالہ مارگریٹ کینن کو8؍ ڈسمبر منگل کے روز صبح 6بجکر 31منٹ پرنرس مے پارسنز نے کورونا وائرس کی ویکسین لگائی ۔ بحرینی اتھارٹی برائے ریگولیٹری پروفیشنز اینڈ ہیلتھ سروسز نے ویکسین کی منظوری ہنگامی حالات کے پیش نظر دی ۔ اتھارٹی کے مطابق یہ ویکسین کورونا سے شدید متاثر افراد کیلئے دستیاب ہوگی، وہ چاہے عمر رسیدہ ہوں یا بچے وغیرہ البتہ ان کی تصدیق وزارت صحت کرے گی۔ اتھارٹی کے مطابق اس فیصلے کی منظوری بحرینی وزارت صحت کی سفارشات اور مطالبے کی روشنی میں دی گئی ہے۔

ترکی سے چین کیلئے کارگوٹرین کا آغاز
ترکی اور چین کے درمیان کارگو ٹرین کا آغاز پانچ ممالک کی معیشت کے لئے ایک اہم حیثیت رکھتی ہے۔ پہلی کارگو ٹرین جو 4؍ ڈسمبر جمعہ کو ترکی استنبول سے ایک تقریب کے ساتھ روانہ ہوئی تھی، یہ ٹرین شیڈول کے مطابق سیواس کے بعد ارضِ روم ٹرین اسٹیشن پہنچ گئی۔ یہاں سے یہ ٹرین اپنی اگلی منزل قارس کیلئے روانہ ہوئی۔ ترکی سے روانہ ہونے والی یہ ٹرین ترکی میں اپنی تمام کارروائیوں کو مکمل کرنے کے بعد چین کیلئے روانہ ہونے کی توقع کی جارہی ہے۔ یہ کارگو ٹرین بالترتیب جارجیا، آذربائیجان، کیسپین سمندر عبور کرنے کے بعد قازقستان اور چین کے شہر ژیان پہنچے گی۔ ٹرین دو براعظموں ، دوسمندروں اور پانچ ممالک کو عبور کرنے کے بعد چین پہنچے گی۔ کارگو ٹرین ترکی میں 2,323کلومیٹر، جارجیا میں 220کلو میٹر، آذربائیجان میں 430کلو میٹر ، بحیرہ کیسپین میں 420کلو میٹر ، قازقستان میں3,200کلو میٹر اور چین میں 100کلو میٹر اس طرح تقریباً سات ہزار کلو میٹر کا سفر طے کرے گی۔اس کارگو ٹرین کی وجہ سے ترکی اور چین کے درمیان تعلقات میں مزید اضافہ ہوگا اور دونوں ممالک کے درمیان اتنی مسافت طے کرکے چلنے والی یہ ٹرین دیگر تین ممالک کے لئے بھی فائدہ مند ثابت ہوگی۔

مستقبل قریب میں ترکی اور امریکہ کے درمیان تعلقات
ترک صدر رجب طیب اردغان نے اپنے دو روزہ دورہ آذربائیجان سے قبل جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ امریکہ کے نو منتخبہ صدر جوبائیڈان کے صدارتی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد بعض موضوعات پر ان سے بات چیت کریں گے۔ انہو ں نے کہاکہ جوبائیڈان انکے لئے اجنبی نہیں ہیں وہ انہیں سابق صدر بارک اوباما کے دور سے بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ صدر ترک نے کہا کہ اس وقت ترکی نیٹو میں امریکہ کے بعدپہلے پانچ ممالک میں شامل ہے ۔ اس بات کے وہ خود یعنی جوبائیڈان بھی معترف ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ وہ اس وقت کسی بھی بیان کو قبل از وقت سمجھتے ہیں لہذا جوبائیڈان صدارتی ذمہ دارایاں سنبھالیں تو ان کے ساتھ مل بیٹھ کر بات چیت کریں گے۔ صدر ترک نے کہاکہ بین الاقوامی سطح پر خاص طور پر سیاست میں تصادم نہیں ہوگا۔ ہم ان موضوعات پر ڈپلومیٹک ماحول میں افہام و تفہیم کے ذریعہ حل کا راستہ نکالیں گے اور انہوں نے اس یقین کابھی اظہار کیاکہ ’’ہم اس مرحلے کو نہایت صحتمندانہ شکل میں چلائیں گے‘‘۔

ترکی کو یورپی یونین کی دھمکیاں
ترکی کی بڑھتی ہوئی طاقت کو دیکھتے ہوئے عالمی سطح پر دشمنانِ اسلام ڈرو خوف محسوس کررہے ہیں یہی وجہ ہیکہ ترکی کی ہر حرکت پر نظر رکھی جارہی ہے۔ جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے یورپی یونین سے کہا ہیکہ وہ ترکی کے ساتھ بات چیت کا دروازہ کھلا رکھے۔ انہوں نے برسلز میں یورپی یونین وزرائے خارجہ کے اجلاس کے بعد اپنے ایک بیان میں کہاکہ اصولی طور پر یورپی یونین ترکی کے ساتھ بات چیت جاری رکھنے پر مجبور ہے، انہوں نے کہا کہ ہم نے یونان، جنوبی قبرص اور ترکی کے درمیان مفاہمت کی کوشش کرچکے ہیں جو ناکام رہی۔ ہائیکو ماس کا کہنا ہیکہ یورپی یونین کے سربراہی اجلاس میں ترکی کا موضوع زیر بحث رہے گا جہاں ترکی کی پیشرفتوں اور انکے نتائج کی روشنی میں غورکیا جائے گا۔ یورپی یونین کے بعض ممالک کی جانب سے ترکی کو دی جانے والی دھمکیوں پر بات کرتے ہوئے ترکی میں برسراقتدار انصاف و ترقی پارٹی کے ترجمان عمر چیلیک نے کہا ہیکہ پاپندیوں کی دھمکیوں کے بغیر یورپی یونین اور ترکی کے درمیان سفارتی ڈھانچے کاقیام ضروری ہے ۔ انہو ں نے یورپی یونین کے ترکی سے متعلق بعض امور پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ یونین کے لحاظ سے جو پانچ اہم مسائل درپیش ہیں انہیں ترکی کے بغیر حل کرنا ممکن نہیں لہذا انہوں نے کہاکہ ہمارا مطالبہ ہیکہ یورپی یونین بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور پابندیوں کی دھمکیوں کے بغیر ترکی کے ساتھ سفارتی ڈھانچے کا قیام عمل میں لائے۔ انہوں نے یونان سے بھی کہا کہ ’’ہم اس خطے میں مل کر رہینگے دور دراز سے مدد مانگنا او رترکی سے تنازعات کو ہوا دینا اس کے مفاد میں نہیں ہوگا‘‘۔ ترکی نے یورپی یونین کی جانب سے ملنے والی دھمکیوں کا جواب دیتے ہوئے اسے سمجھداری کا مظاہرہ کرنے کی بات کی ہے جو سب کیلئے بہتر ہوگا ۰۰۰
***
 

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 209683 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.