کشمیری سیاسی اور انسانی حقوق کی جما عتیں اقوام متحدہ کے
اہم ترین ذیلی اداروں کے ایوانوں میں بھارتی "سری واستوا " گروپ کی آلہ کار
کیسے بن گئی ہیں؟ یہ جاننے کے لیے ہمیں یورپی یونین کے پالیسی ساز اداروں
پر اثرانداز ہونے کی کامیاب کوشش کرنے والے اس گروپ کے بارے میں انکشافات
سے بھرپور ایک رپورٹ کا سہارا لینا ہوگا۔ گزشتہ کئی روز سے دنیا بھر کا
میڈیا آزاد یورپی تنظیم ڈِس اِنفو لیب کی اس تہلکہ خیز تحقیقی رپورٹ پر
تبصرے اور جائزے پیش کر رہا ہے۔ اس تحقیقاتی رپورٹ میں آزاد کشمیر اور گلگت
بلتستان کے متعلقہ مواد کو بہت زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے۔ اس مواد کو ایک
مختصر کالم میں سمیٹنا دریا کو کُوزے میں بند کرنے کے برابر ہے۔ میں اس کے
چیدہ چید ہ نکات کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں اور رونگٹے کھڑے کر دینے
والے حقائق کو یہاں کسی لگی لپٹی اور اضافی تبصرہ کے بغیر درج کر رہا ہوں ۔
سب سے پہلے اس ادارے کے بارے میں کچھ حقائق جس نے یہ رپورٹ تیار کی ہے۔ ڈِس
انفو لیب ایک غیر منافع بخش اور آزاد ادارہ ہے جس کے قیام کا مقصد یورپی
یونین اور اس کے ممبر ممالک کے مشترکہ اداروں کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔
اس ادارے سے منسلک ماہرین اور تحقیق کار تحقیقاتی صحافت کے مسلمہ اصولوں
اور ضوابط کو بروئے کار لاتے ہوئے غلط، جھوٹی اور بے بنیاد معلومات کی تہہ
تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس ادارے کا ویژن متاثر کن ہے۔ " ہم ایک ایسے
معاشرے کا تصور رکھتے ہیں ، جس کا ہر فرد معلومات کے اس تناظر کو سمجھتا ہو
جس میں وہ زندگی گزار رہا ہے اور وہ ایسی کسی بھی کوشش ، خا ص طور پر سوشل
میڈیا کی جانب سے کے مقابلے میں ایک کمزور ہدف نہیں ہے جو اس کا استحصال
کرسکے"۔
دسمبر 2020 میں شائع کردہ اس رپورٹ کے مطابق 2005 سے جاری ایک منظم مہم کے
تحت گزشتہ 15 سالوں میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے منسلک کم از
کم 10 بڑے اداروں کے پلیٹ فارم کو بھارتی پراپیگنڈے ، جھوٹ اور نفرت پر
مبنی مواد کی مسلسل تشہیر کے لیے استعمال کیا گیا ہے ۔اس مہم کا مقصد 116
ممالک میں 750 سے زائد جعلی میڈیا تنظیموں، 550 کے لگ بھگ ویب سائٹس، برسلز
اور جینیوا میں قائم انتہائی طاقتور میڈیا مینیجمنٹ اداروں ، کئی مردہ
شخصیات اور متروک اداروں کے نام پر جھوٹی سرگرمیوں ، اقوام متحدہ کے کئی
ذیلی اداروں کے نام اور پلیٹ فارم کے گھناونے مقاصد کے لیے استعمال اور نام
نہاد انسانی حقوق اور ابلاغ عامہ کے اداروں وشخصیات کے ذریعہ پاکستان کے
خلاف زہر اگلنا تھا ۔ یہ مہم اتنی منظم، طاقتور اور موثر تھی کہ اس نے
متعدد عالمی اداروں، ملکی تنظیموں، سیاسی اور سماجی شخصیات ، انسانی حقوق
کے ماہرین اور سیاسی مبصرین کی نہ صرف شناخت استعمال کی بلکہ کئی ایسے
اداروں اور شخصیات کو جعلی طور پر دوبارہ جنم دیا جن کی سرگرمیاں یا تو
متروک ہوچکی ہیں یا ان کی سرگرمیوں کا اس مہم کے بیانیے سے سرے سے کوئی
تعلق نہیں جڑتا۔ اس نیٹ ورک کی طاقت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ
مذکورہ رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد بھی یہ مسلسل جھوٹ اور پراپیگنڈے
پر مبنی وضاحت آج بھی جار ی رکھے ہوئے ہے۔
یہ گھناونی مہم چار بڑے آپریشنل مقاصد کے تحت چلائی جا رہی ہے۔ اول :
انسانی حقوق کے لیے قائم کردہ این جی اوز کی حمایت ، دوئم : یورپی یونین
جیسے طاقتور اداروں کے اہم ارکان کی شناخت اور شہرت کا استعمال کرتے ہوئے
ان اداروں پر اثر انداز ہونا، سوئم : جینیوا میں قائم کردہ ہیومن رائٹس
کونسل کوسیڑھی بنا کر عالمی اداروں اور اہم ممالک کی ہمدردیاں حاصل کرنا
اور چہارم: جعلی میڈیا تنظیموں کے ذریعہ پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈہ
کروانا۔ اس سارے عمل کی معاونت کے لیے یورپین یونین آف پبلک ریلیشنز ،
ایشین نیوز انٹرنیشنل ( اے این آئی ) اور انڈین کرانیکلز جیسے نام نہاد
اداروں کے ذریعہ خبروں ، آرٹیکلز اور مراسلوں کے انبھار لگا دینا ۔ اس مہم
کو نئی دہلی میں قائم سری واستوا گروپ سے جوڑا گیا ہے۔
رپورٹ میں لکھا ہے کہ " اے این آئی اور مختلف ممالک میں میڈیا کے مقامی سطح
کے ان گنت اداروں کے ذریعہ مسلسل جھوٹ پر مبنی لاتعداد آرٹیکلز شائع کرائے
جاتے رہے ہیں ۔ اس کی ایک مثال برطانیہ سے سینٹر فار اینوائرنمنٹل اسٹڈیز
کے نام سے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے ادارے کو نمایاں طور پر پیش
کیا جانا ہے جس کی سربراہی امجد ایوب مرزا کرتے ہیں۔ وہ اپنا تعارف اس
ادارے کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی حیثیت سے کرواتے ہیں۔ انہیں اے این آئی نیوز
ایجنسی کے آرٹیکلز میں نمایا ں کر کے اجاگر کیا جاتا رہا ہے"۔ اسی طرح
انٹرنیٹ پر فرینڈز آف پاکستان اور کشمیر سینٹر نامی اداروں کی تشکیل کی گئی
ہے جو کہ بظاہر تو لابنگ کرتے ہیں۔ مگر ان کے مقاصد کچھ اور ہیں۔ ان کے
انٹرنیٹ ڈومین ایڈریس انڈین لابی گروپ" سری واستوا " کی ملکیت میں ہیں۔ یہ
وہی گروپ ہے جسے یورپین ڈِس اِنفو مہم کے تحت2019 مین 265 دیگر جعلی اداروں
کے ساتھ بے نقاب کیا گیا تھا۔اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ 65 ممالک
میں قائم یہ ادارے پاکستان کے خلاف منفی مواد تسلسل کے ساتھ دنیا بھر میں
پھیلاتے ہیں۔
نئی دہلی میں قائم کردہ سر ی واستوا گروپ انتہائی موثر اور طاقتور تنظیم ہے
جس کے نشانے پر یورپی یونین کے اہم ترین ادارے ہیں۔ اس کا مقصد ان اداروں
کی فیصلہ سازی کی قوت پر اثر انداز ہو نا ہے تاکہ انڈیا کا ایسے ہمسایہ
ممالک کے خلاف مفادات کا تحفظ ممکن بنایا جائے جن سےاس کے علاقائی تنازعات
ہیں۔ ان ممالک میں پاکستان اور چین سر فہرست ہیں۔ 2019 میں یورپی یونین کے
تحت 27 ممبران پارلیمنٹ کا کشمیر کا دورہ بھی " سری واستوا " گروپ کی ایسی
ہی کارروائیوں کا نتیجہ تھا ۔ اکتوبر 2019 میں بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں
اس گروپ کے حوالے سے لکھا تھا کہ یہ ایک پی آر اسٹنٹ سے زیادہ کچھ نہیں تھا
کیونکہ اسے یورپی یونین کے نمائندہ وفد کی حیثیت حاصل نہیں تھی۔ تاہم اگست
2019 کے بھارتی اقدام کے بعد یہ کسی بھی بین الاقوامی ادارے کے ارکان کا
کشمیر کا پہلا دورہ تھا جس پر انسانی حقوق کے ملکی اور بین الاقوامی اداروں
نے شدید تحفظات کا اظہار کیاتھا۔ بھارت کے وزیرِاعظم نریندر مودی سمیت اہم
حکومتی شخصیات سے اس وفد کی چوٹی کی ملاقاتیں ڈھکی چھپی نہیں تھیں۔
بلوچستان ، جموں وکشمیر اور گلگت بلتستان کے حوالے سے جن اداروں اور شخصیات
کا باالوسطہ تعلق " سری واستوا " گروپ سے جوڑ ا گیا ہے ، ان میں کئی اہم
سیاسی تنظیمیں اور ان کے رہنماؤں کے نام شامل ہیں۔ جن میں جنید قریشی (
یونائٹڈ اسکولز انٹرنیشنل)، سردار شوکت علی کشمیری، اور جمیل مقصود ہیں
شامل ہیں۔ یونائیٹڈ کشمیر پیپلز نیشنل پارٹی (یوکے پی این پی)،جموں کشمیر
نیشنل عوامی پارٹی، گلگت بلتستان سٹڈیز، اور بلوچستان ہاؤس شامل ہیں۔ رپورٹ
میں اس بات کا برملا اظہار بھی کیا گیا ہے کہ ان اداروں اور شخصیات کے کام
اور ان کی عالمی پروجیکشن میں " سری واستوا " گروپ کی دلچسپی اس حد تک رہی
ہے کہ انہیں کئی سو مرتبہ سری واستوا گروپ کے قائم کردہ فرنٹ لائن اداروں
کے پلیٹ فارم سے عالمی اداروں کے ایوانوں سے مخاطب ہونے کے مواقع فراہم کئے
گئے۔ مثال کے طور پر مارچ 2019 میں جنید قریشی نے یونائٹڈ اسکولز انٹرنیشنل
کے پلیٹ فارم سے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے 40 ویں اجلاس سے خطاب
کیا۔ یہ تنظیم نئی دہلی میں 1961 میں قائم کردہ ملتی جلتی تنظیم یونائٹڈ
اسکولز آرگنائزیشن آف انڈیا سے منسلک ہے اور حیران کن حدتک اقوام متحدہ کی
پورٹل پر درج اس تنظیم کا ایڈریس تک جعلی ہے۔
یہاں ایک وضاحت بھی کی گئی ہے کہ اس تحقیقی رپورٹ کا مقصد جموں وکشمیر سمیت
پاکستان کے خلاف منفی پروپیگینڈہ کا حصہ بننے والی سیاسی جماعتوں، تھنک
ٹینکس اور انسانی حقوق کا پرچار کرنے والے اداروں کے مقاصد اور سرگرمیوں کی
جوازیت پر تبصرہ کرنا نہیں بلکہ یہ ثابت کرنا ہے کہ یہ تمام ادارے اور
شخصیات "سری واستوا" گروپ کے براہ راست آلہ کار بن کر کام کرتے رہے ہیں، جس
کے ناقابل تردید شواہد اس رپورٹ میں شامل کئے گئے ہیں۔ مثلا یو کے پی این
پی کے شوکت کشمیری کے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس سے خطاب
کو تو بھارتی ایجنسی اے این آئی تسلسل سے پھیلائی جانے والی ویڈیوز اور
اخباری بیانات کا حصہ بناتی ہے مگر اس تنظیم کا ذکر گول کر جاتی ہے جس کے
پلیٹ فارم کو استعمال کرکے شوکت کشمیری جیسے سیاسی رہنما ایوان میں اپنی
آواز بلند کرتے ہیں، کیو نکہ ایسی تنظیموں کے نام سامنے آنے سے عام پڑھا
لکھا انسان بھی تھوڑی سی تحقیق کرتے ہوئے اصل محرکین تک پہنچ سکتا ہے۔
اس رپورٹ کا اختتامیہ بھی چونکا دینے والا ہے۔ تحقیق کاروں کے مطابق سری
واستوا گروپ کی سرگرمیوں کی گزشتہ رپورٹ کی اشاعت کے بعد اس کا اثرو رسوخ
کم اور یورپی اداروں تک اس کی رسائی محدود ہونا چاہیے تھی مگر حیران کن حد
تک ایسا نہیں ہوا ۔ بلکہ ان کے خیال میں انڈین کرانیکلز کی جگہ ای یو
کرانیکلز کا اجرا اور اس نیٹ ورک کا دیدہ دلیری سے منظر عام پر ڈٹے رہنا
یورپی یونین کے مقتدر اداروں کی فعالیت اور شفافیت پر سوالیہ نشان ہے۔
|