حیدر آباد میں کمل کھلا مگر وارانسی میں مرجھا گیا ؟

حیدر آباد کے میونسپل انتخاب میں زبردست کامیابی کے بعد وزیر داخلہ امیت شاہ نے تلنگانہ کی عوام کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ اپنے ٹویٹ میں یہ لکھا کہ یہ نتائج ترقی کی سیاست اور وزیر اعظم نریندر مودی پر اعتماد کا اظہار ہے۔ امیت شاہ نے بے نام کارکنان ، صوبائی صدربندی سنجے کمار اور پارٹی کے صدر جے پی نڈا کو بھی مبارکباد دی ۔ جے پی نڈا نے حیدر آباد میونسپل کارپوریشن کے نتائج کو تاریخی قرار دیتے ہوئے لکھا کہ اس سے پتہ چلتا ہے ملک کے عوام صرف اور صرف ترقی کے ایجنڈا کی حمایت کرتے ہیں ۔ بی جے پی کے نزدیک ترقی سے مراد اپنے مخالف کو دوسرا جناح ، روہنگیا اور بنگلا دیشی غیر قانونی در اندازوں کا محافظ بناکر پیش کرنا ہے۔ عوام کو یہ سمجھانا ہے کہ ٹی آر ایس نے ایم آئی ایم سے خفیہ معاہدہ کرکے ہندووں کے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔ حیدر آباد کا نام بدل کر بھاگیہ نگر رکھنا اور اس پر سرجیکل اسٹرائیک کرنا بھی ترقی کا جز لاینفک ہے خیر جے پی نڈا نے یہ بھی لکھا کہ یہ نتائج عوام کے وزیر اعظم نریندر مودی کی ترقی اور عمدہ طرز حکومت کی حمایت کا بھی اظہار ہیں ۔ ویسے اٹھتے بیٹھتے وزیر اعظم کے نام کا بھجن گانا بی جے پی والوں کی عادتِ ثانیہ بن چکا ہے۔
 
ان رہنماوں کی اس منطق کو اگردرست مان لیا جائے کہ حیدر آباد میں مودی جی کی وجہ سے کامیابی ملی تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہی فتح وزیراعظم کے حلقۂ انتخاب وارانسی میں کیوں نصیب نہیں ہوئی؟ وارانسی کے اندر حال میں کوئی میونسپل انتخاب تو نہیں ہوا مگر صوبائی قانون ساز کونسل کے دو ضمنی انتخابات ہوئے۔ ان کے نتائج کو ذرائع ابلاغ نے اس لیے نظر انداز کردیا کیونکہ وہ بی جے پی کے خلاف تھے۔ حیدر آباد الیکشن کے فوراً بعد اتر پردیش قانون ساز کونسل کے وارانسی حلقہ انتخابات میں سماج وادی پارٹی نے حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کوزبردست شکست سےدوچار کرتے ہوئے دونوں سیٹوں پر قبضہ کر لیا ۔ ان میں سے ایک پر بی جے پی اور دوسری پر اس کے حامی امیدوار گزشتہ دو بارسے کامیابی حاصل کرتے رہے تھے۔ یہ عام انتخاب نہیں تھا بلکہ اس صرف گریجویٹ و اساتذہ حضرات نے اپنے ووٹ کا استعمال کیا تھا ۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جاہلوں کو تو بی جے پی اوٹ پٹانگ نعروں سے جھانسے میں لے لیتی ہے لیکن تعلیم یافتہ طبقہ اس کی گرفت سے آزاد ہورہا ہے۔
 
ایم ایل سی کے اس انتخابات میں ایس پی امیدوار آشوتوش سنہا نے اپنے قریبی حریف بی جے پی امیدوار کیدار ناتھ سنگھ کو شکست فاش سے ہمکنار کیا ۔ کیدار ناتھ سنگھ کوئی نیا چہرہ نہیں ہیں ۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے وارانسی میں آمد سے پہلے بھی وہ اس سیٹ سے دو مرتبہ فتحیاب ہوچکے ہیں اس لیے اس بار ان کی ناکامی میں یقیناً مودی جی کا حصہ ہے۔ وزیر اعظم کے تئیں عوامی ناراضی کی قیمت بیچارے آشوتوش سنہا کو چکانی پڑی اور ایک سخت مقابلے میں کیدار سنگھ نے انہیں دھوبی پچھاڑ مار دیا۔ وارانسی کے سدھاگری باغ کے رہائشی آشوتوش سنہا نے ووٹوں کی گنتی کے آخری مرحلے میں صرف 22685 ووٹ حاصل کیے جبکہ ضلع کے ساکیت نگر کالونی کے رہنے والے کیدار ناتھ سنگھ نے26535 ووٹ حاصل کرکے اپنی جیت درج کرالی۔ یہ تو خیر گریجویٹ لوگوں کا حلقۂ انتخاب تھا مگر اس سے قبل اساتذہ کے زمرے والی نشست پر بی جے پی اور بھی برا حال ہوا۔

اساتذہ کے حلقہ میں بی جے پی کی حمایت یافتہ امیدوار چیت نارائن سنگھ تو بیچارے مودی جی کی مہربانی سے تیسرے مقام پر پہنچ گئے۔ اس سیٹ پر اصل مقابلہ ایس پی کے لال بہار یادو اور آزاد امیدوار پرمود مشرا کے درمیان تھا ۔ بدقسمتی سے مشراجی بھی 936 ووٹ کے فرق سے ہار گئے۔ اس طرح بی جے پی کے ساتھ برہمن امیدوار بھی کامیابی سے محروم رہا ہے۔ حیدر آباد میں ۳۰ فیصد کامیابی ٹھیکرا وزیر اعظم مودی کے نام پھوڑنے والی بی جے پی اب اس صد فیصد ناکامی کے لیے کسے ذمہ دار ٹھہرائے گی؟ وارانسی کے اندر ایک عدد بنارس ہندو یونیورسٹی ہے۔ یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ سنگھ پریوار کی اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کا بڑا دبدبہ ہے۔ سنگھ ویسے بھی برہمنوں کی سرخروئی کے لیے مصروف عمل ہے اس لیے اگر وہ بی جے پی امیدوار کو نہ سہی تو پرمود مشرا جی کو ہی کامیاب کروادیتا ۔
 
ان نتائج سے یہ ظاہر ہوتا ہے وارانسی میں یوگی کے ساتھ ساتھ مودی کا سحر بھی ٹوٹ رہا ہے۔ یہ لوگ نئے علاقوں میں جاکر پہلے پہل عوام کو ورغلا سکتے ہیں لیکن پرانے لوگوں کو ساتھ رکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔ ایک بار فریب کھاکر جو ان سے قریب آجاتا وہ دوبارہ اپنا کان پکڑ بھاگ لیتا ہے۔ ان انتخابات کو غیر اہم سمجھ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ قانون ساز اسمبلی میں تو بی جے پی کو زبردست اکثریت حاصل ہے ۔اس میں دوچار کی کمی بیشی سے کوئی فرق نہیں پڑتالیکن قانون ساز کونسل کے 100 ارکان میں سے بی جے پی کے صرف 19 ہیں جبکہ سماجوادی پارٹی کے 52 ہیں۔ بی جے پی کے لئے یہ انتخابات کافی اہم تھے کیونکہ اگر ایس پی ہار جاتی تو کوئی فرق نہیں پڑتا مگر بی جے پی کے جیت جانے سے ۱۰ فیصد ارکان بڑھ جاتے۔یوگی ادیتیہ ناتھ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ ہیں۔ ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنے صوبے میں بی جے پی امیدواروں کو کامیاب کرائیں ۔ ہندوستان بھر میں اسٹار پرچارک کے طور پر جانے سے قبل کم ازکم وزیر اعظم کوتو رسوائی سے بچائیں مگر یہ کیا ؟ اسے کہتے ہیں چراغ تلے اندھیرا۔

ان نتائج کا بھکت یہ جواز پیش کر سکتے ہیں کہ بی جے پی کے محنت نہیں کرنے کی وجہ سے ایسا ہوا حالانکہ یہ بات غلط ہے۔ انتخاب سے قبل کورونا کی وبا میں پہلی بار وزیر اعظم نے اپنے حلقۂ انتخاب کا بہ نفس نفیس دورہ کیا۔ وہاں پر انہوں نے قومی شاہراہ -19 کے ہنڈیا (پریاگ راج) –راجا تالاب (وارانسی) کے حصے کی6 لین توسیع کاری پروجیکٹ کو قوم کے نام وقف کیا۔ جملہ 2447 کروڑ روپے کی لاگت سے تیار کی گئی اس73 کلو میٹر لمبی سڑک کی توسیع سے پریاگ راج اور وارانسی کے درمیان سفر کے وقت میں ایک گھنٹے کم ہوجائے گا۔ یہ اقدام ترقی کے خواہشمند رائے دہندگان کو لبھانے کے لیے کیا گیا۔ بی جے پی تو عوام کے جذبات سے کھیل کر الیکشن لڑتی ہے اس کی خاطر وزیراعظم نے دورے کے لیے دیودیپاولی کے موقع کا انتخاب کیا ۔ کارتک ماہ کی پورنیما کووارانسی میں روشنی اور جوش و خروش کے ساتھ منایا جانے والا یہ تہوار دنیا بھر میں مقبولہو گیا ہے۔ اس کی رونق بڑھانے کے لیے وارانسی کے گھاٹ پر وزیراعظم نےدریائے گنگا کے دونوں کناروں پر گیارہ لاگھ دیپ جلوائے اس کے باوجود بی جے پی کے حصے میں تاریکی آئی ۔

اس سفر کے دوران ، وزیراعظم زیر تعمیر کاشی وشو ناتھ مندر گلیارہ (کوریڈور)پروجیکٹ کی رفتار کا رکاجائزہ لینے کے لئے سائٹ پر بھی گئے۔ مذہبی جذبات کا فائدہ اٹھانے کے لیے کہا گیا کہ ایشیا کے سب سے بڑے وشوناتھ مندرمیں پہلی بار کوئی وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ ایک ساتھ حاضر ہوئے۔ اس سے فارغ ہوکر وہ سارناتھ کے آثار قدیمہ کا معائنہ کرنے کے لیے پہنچے ۔وہاں پر انہوں نے لائٹ اینڈ ساؤنڈ شو بھی دیکھا جس کا افتتاح وہ اسی ماہ(ریموٹ کنٹرول سے) کرچکے تھے۔اپنے دورے کے دوران وزیر اعظم مودی گنگا کی لہروں کے پر الکا نندا کروج میں سوار ہوکر روشنی میں ڈوبے گھاٹوں کی سیر کی ۔ وزیر اعظم کے طفیل تقریباً 7.30 کلومیٹر طویل علاقہ پر محیط 84گھاٹوں کی صاف صفائی بھی ہوگئی ۔وزیر اعظم کے دورے سےقبل شہر کی سرحدوں کو سیل کرکےمقامی پولیس کے علاوہ پی اے سی اور سی آر پیایف کے 10ہزار سے زیادہ سیکورٹی ملازمین کو اہم مقامات پر تعینات کیا گیا۔ اس کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی اپنے پارلیمانی حلقہ بنارس میں پیدل دورے پر نکلےاور پروٹوکول توڑ کروہاں موجود لوگوں سےملے۔ ان لوگوں نے خوشی سے ہر ہر مودی کے نعرے تولگائے لیکن بی جے پی کو ووٹ دے کر کامیاب نہیں کیا ۔ اس طرح یہ ساری مشقت بے کار ہوگئی ۔

روشنیوں سے پُر اس دورے کا ایک تاریک پہلو یہ ہے کہ وزیر اعظم کی خاطر ہیلی پیڈ بنانے کے لیے شجع آباد علاقہ کے ڈھائی سو دلتوں کو اجاڑ دیا گیا جو پچھلے پچاس سالوں سے وہاں رہ رہے ہیں ۔ ایسا ظالمانہ سلوک ان کے ساتھ اسی سال فروری میں بھی وزیر اعظم کے وارانسی کا دورہ کے موقع پرہواتھا ۔ بامبو کی مصنوعات بناکر گزارہ کرنے والے ان لوگوں کے پاس ووٹر شناختی کارڈ اور دیگر کاغذات موجود ہیں اس کے باوجود بغیر پیشگی اطلاع کے انہیں بے خانماں کر دیا جاتا ہے۔ وہ لوگ قریب کے مندر میں پناہ لینے کے لیے مجبور ہوجاتے ہیں کیونکہ ان کی بازآبادکاری کا کوئی بندوبست نہیں کیا جاتا۔ ووٹ کے لیے ان کے پاس آنے والے مقامی سیاسی رہنما برے وقت میں رخ پھیر لیتے ہیں ۔ انّر وائس نامی غیر سرکاری ادارہ ان کی مدد کرتا ہےکیونکہ سرکاری انتظامیہ کچھ نہیں کرتا۔ کورونا کے دوران کسی کو ہٹانے سے متعلق سپریم کورٹ نے سخت ہدایت دی ہیں لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ سردی کی راتوں میں بچے اور بزرگ بیمار ہوجاتے ہیں مگر کوئی توجہ نہیں دیتا ۔ وزیر اعظم کی خاطر گھاٹ کی زیبائش کے لیے پانچ ہزار لوگوں کو کام پر لگایا جاتا ہے مگر ان غریب لوگوں کی دادرسی کوئی نہیں کرتا ۔ ان قسمت کے ماروں پر تو یہ شعر صادق آتا ہے؎
امیرِ شہر کو ضد ہے کہ شامِ غُربت میں غریبِ شہر کی کُٹیا میں چاندنی بھی نہ ہو
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449742 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.