ملک میں جس طرف بھی نظر دوڑائیں ہر طرف غربت، لا قانونیت
سے گھبرائی مایوسیوں کا شکار قوم کے مختلف طبقات آپکو اپنے حقوق کے تحفظ،
ظلم، جبر اور زیادتیوں کے خلاف احتجاج، احتجاج، کرتی دکھائی دے رہی ہے، ایک
طرف اپوزیشن کی گیارہ جماعتیں کپتان کی حکومت گرانے کیلئے سراپا احتجاج
ہیں، اور اپوزیشن نے تو دسمبر سے فروری تک ملک کے بڑے شہروں میں ڈویژن سطح
پر احتجاج کرنے کا اعلان بھی کر دیا ہے، اسی کے ساتھ پی ڈی ایم کے قائد
مولانا فضل الرحمان نے کپتان کی حکومت کو ڈیڈ لائن دے رکھی ہے کہ 31 جنوری
تک حکومت چھوڑ کر گھر چلے جائیں ورنہ اپوزیشن اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ
کرے گی اور اپوزیشن جماعتوں کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلیز اپنی نشستوں سے
استعفی دیں گے، دوسری طرف ملک بھر کے سرکاری محکمہ جات کا کلیریکل سٹاف
اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کرتے ہوئے انہیں مراعات، الاؤنسز دینے اور
تنخواہوں میں اضافہ کا مطالبہ کر رہا ہے، سندھ، پنجاب، بلوچستان بشمول گلگت
بلتستان سے تعلق رکھنے والی محکمہ بہبود آبادی کی ہزاروں لیڈی ہیلتھ ورکرز
سپروائزرز جو کہ طویل عرصہ سے کنٹریکٹ پر کام کر رہی ہیں احتجاج کرتے ہوئے
حکومت وقت سے مطالبہ کر رہی ہیں کہ انہیں نوکریوں پر مستقل کرتے ہوئے
تعیناتی سے اب تک مراعات دی جائیں؟ اسی طرح پنجاب بھر میں کنٹریکٹ پر کام
کرنے والے اساتذہ، پروفیسرز، محکمہ صحت، ایجوکیشن، محکمہ مال سمیت دیگر
سرکاری اداروں کے ملازمین آئے روز احتجاج کرتے دکھائی دیتے اور مطالبہ کرتے
نظر آتے ہیں کہ انہیں بھی ملازمتوں پر ریگولر کر کے مستقل ملازمین کی طرح
کی مراعات اور سہولتیں دی جائیں، ملک بھر کے 32 ریڈیو اسٹیشنز سے نکالے گئے
1020 کنٹریکٹ ملازمین اپنی بحالی کیلئے آئے روز اسلام آباد میں احتجاج اور
دھرنا دینے میں مصروف ہے، جن کا مطالبہ ہے کہ انہیں نوکریوں پر بحال کیا
جائے، اسی طرح پنجاب ہو یا سندھ، بلوچستان ہو یا کے پی کے، گلگت بلتستان کے
عوام کو چھوٹا موٹا مسئلہ درپیش آ جائے جو حل ہوتا نظر نہ آئے تو یہی عوام
جتھوں کی صورت میں احتجاج کا راستہ اپناتے ہوئے سڑکوں پر دیکھے جاتے ہیں،
سو یہ تمام احتجاج ہر کوئی اپنے مطالبے، مفاد اور مقصد کیلئے کرتے ہیں۔
پاکستان کے تمام صوبوں بالخصوص پنجاب کے ینگ ڈاکٹر بھی احتجاج میں کسی سے
پیچھے نہیں ہیں، آئے روز ہسپتالوں میں ہڑتال، تالہ بندی کرنا ینگ ڈاکٹرز کا
معمول ہے، اسی بناء پر عوام میں ان (ینگ ڈاکٹرز) کے بارے تاثر ہے کہ یہ ہر
بات پر جارحانہ رویہ اپناتے ہیں، لیکن آپ یہ سن کر حیران اور ششدر رہ جائیں
گے کہ ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن پنجاب کے عہدیداروں کی ڈی ایچ کیو ہسپتال
سرگودھا میں پریس کانفرنس جس میں راقم بھی موجود تھا میں وائی ڈی اے پنجاب
کے صدر سلیمان حسیب، اسامہ بن سعید اور دیگر نے ڈاکٹرز کے مطالبات کے ساتھ
عوام کیلئے بھی آواز بلند کی، اور پنجاب بھر کے ہسپتالوں میں علاج معالجہ
کی فراہمی میں سستی کاہلی پر حکومت پنجاب کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ
حکومت پنجاب کی طرف سے عوام کو طبی سہولیات کی فراہمی کیلئے وہ انتظامات
نہیں کیے جا رہے جو ہونے چاہئیں تھے۔ جبکہ ڈی ایچ کیو سرگودھا، خوشاب،
بھکر، میانوالی سمیت پنجاب بھر کے ہسپتالوں میں بیڈز کی کمی اور طبی
سہولیات اور ادویات کا فقدان ہے، اکثر ڈسٹرکٹ سطح اور ٹیچنگ ہسپتالوں میں
سرجری، گیسٹرولوجی، سائیکاٹری، سیپشلائزڈ آئی سرجری، برن یونٹ تک نہیں ہیں؟
غریب مریضوں کی سرکاری سطح پر علاج معالجہ کی سہولیات ناپید ہونے کے باعث
اموات میں اضافہ ہو رہا ہے، کرونا کے مریضوں کیلئے بھی سرکاری ہسپتالوں میں
سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں، اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ سرگودھا سمیت پنجاب
کے اکثر سرکاری ہسپتالوں میں ایڈمنسٹریشن، انتظامی امور اور مالی معاملات
ایسے عناصر کے ہاتھوں میں ہیں، جو نہ تو ڈاکٹر ہیں اور نہ ہی انہیں شعبہ طب
کی کوئی سوجھ بوجھ ہے، ینگ ڈاکٹرز نے عوام کے ساتھ ڈاکٹروں کو درپیش مسائل
پر بھی سیر حاصل گفتگو کی، وائی ڈی اے کے ان رہنماؤں کا ڈاکٹرز کے ساتھ
عوام کے حقوق کیلئے بات کرنا خوش آئند نظر آیا، دیگر احتجاجی طبقات کو بھی
چاہئے کہ وہ اپنے مطالبات کے ساتھ عوام کو درپیش مسائل کے لئے بھی آواز
بلند کریں تو نا صرف مسائل حل ہونگے بلکہ عوام خوشحال اور ملک ترقی یافتہ
بن جائے گا؟ لیکن نفسا نفسی کے اس دور میں ایسا کون کرے گا، یہاں تو سب
اپنی اپنی بقاء، مفاد اور مقصد کی جنگ لڑ رہے ہیں،سو بات کہاں سے کہاں نکل
گئی بات ہو رہی تھی احتجاج کی تو قوم کا اکثریتی طبقہ طویل عرصہ سے حکومت
کے ہر دور میں احتجاج کرتا نظر آ رہا ہے اور ہر حکومت نے احتجاج کرنے والوں
کو ان کے مسائل حل کرنے کیلئے کوئی نا کوئی لالی پاپ دے کر انہیں چپ
کروایا، یا ان کے مطالبے کو التواء میں ڈالا ہے۔ موجودہ حکمران بھی اسی
پالیسی پر عمل پیرا ہیں، اور احتجاج کرنے والے ہر طبقہ کو ان کے مطالبات کے
حل کیلئے طریقہ کار طے کرنے کیلئے کمیٹی بنا کر یا مذاکرات کا جھانسہ دے کر
ڈنگ ٹپا رہے ہیں، اور اپوزیشن کو احتساب اور مقدمات سے ڈرا کر خاموش رکھنے
کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔
لیکن کپتان جی ایسا کب تک چلے گا؟ آپ تو خود تبدیلی کا نعرہ لگا کر ایک
طویل احتجاجی تحریک چلا کر اقتدار میں آئے ہیں، آپ اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات
جو طویل ہوں کا راستہ اپنائیں، تاکہ آپ کی حکومت اپنی آئینی مدت پوری کر
لے؟ لیکن احتجاج کرنے والے ایسے طبقات جن کے مطالبات جائز ہیں کو انکو حق
دینے کیلئے کمیٹی، مذاکراتی ٹیمیں بنانے کی بجائے عملی اقدامات اٹھائیں،
کیونکہ آپ کے اقتدار کا آدھا وقت گزر چکا ہے اور آدھا گزرنے کے بعد آپ نے
پھر دوبارہ ووٹ حاصل کرنے کیلئے عوامی عدالت میں پیش ہونا ہے، وقت گزرتے
کوئی دیر نہیں لگتی، کپتان جی اگر کچھ کر نہ پائے تو آپ کی داستان بھی نہ
رہے گی داستانوں میں۔
|