کُتّوں کے ساتھ وزیرِ اعظم کی تصاویر سرکاری اہتمام
کے ساتھ جاری کی گئیں، اِس کاوش کا مطلب یہی لیا جاسکتا ہے کہ خواص و عوام
یہ تصاویر دیکھیں اور اپنی مرضی کا تبصرہ جاری کریں۔ صرف تصاویر کو دیکھنے
اور خاموشی اختیار کرنے سے تصویر کا مقصد ہی ختم ہو جاتا ہے ۔ یہی ہوا، بہت
سے سیاسی و سماجی تبصرے سامنے آئے۔ ابھی یہ کام جاری ہی تھا کہ ایک اخباری
خبر نے چونکا دیا۔ ’’اسلام آباد کا چڑیا گھر بند کر دیا گیا‘‘۔ چڑیا گھر کا
ہاتھی ، جو کہنے کو تو سب کا ساتھی کہلاتا ہے، کچھ عرصہ پہلے بیرونِ ملک
روانہ کر دیا گیا کیونکہ اپنے ہاں اس کی مناسب دیکھ بھال نہیں ہو پا رہی
تھی، اس سے پہلے کہ بہاول پور چڑیا گھر کی طرح یہ بھی زندگی کی بازی ہار
جاتا اس سے جان خلاصی کروا لی گئی۔ معاملہ ہاتھی تک ہی محدود نہیں تھا،
پاکستان کے خوبصورت ترین شہر اور دارالحکومت اسلام آباد میں چڑیا گھر کا
حال بدحالی کی آخری حدوں کو چھو رہا تھا، کئی سالوں سے زوال کا شکار تھا،
ہزاروں برس پرانے جانوروں کے بنائے جانے والے مصنوعی ڈھانچوں کی حالت بھی
خستہ ہو رہی تھی، جانور بہت ہی کم تھے، بطخوں اور پانی کے دیگر جانوروں کے
لئے تالاب خشک ہی دیکھے گئے۔ ظاہر ہے ایسے میں تفریح کے لئے آنے والوں کی
تعداد بھی محدود ہوتی گئی، یوں دانشورانِ حکومت نے معاملہ ہی ٹھپ کر دیا۔
رہے سہے جانور بھی اِدھر اُدھر کر دیئے۔
اسلام آباد چڑیا گھر کی بندش کا مسئلہ اتنا سادہ نہیں، ممکن ہے متعلقہ
محکمہ جات تازہ دم ہو کر نئے سرے سے معاملات درست کرنے کی سوچ رہے ہوں۔ مگر
حکومت کے زیر نگرانی چلنے والے ماتحت ادارے کیا کر رہے ہیں؟ لائیوسٹاک
والوں کی اور کونسی مصروفیات ہیں کہ وہ اسلام آباد کے چڑیا گھر کو بھی نہیں
چلا سکے؟ دوسری طرف اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ اداروں پر حکومتی
پالیسیاں ہی اثر انداز ہوتی ہیں، حکومتیں کوئی اور ’’اہم‘‘ معاملات پر اپنے
فنڈز خرچ کرنے کو ترجیح دیتی ہیں، جن کی وجہ سے چڑیا گھروں جیسے غیر اہم
کام پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔ (حکومتوں کے نظر انداز کئے جانے والے
معاملات میں تعلیم سمیت اور بھی بہت کچھ شامل ہے)۔کیا متعلقہ وزیر یا
بیوروکریسی یا دفاتر کے عہدیداران چڑیا گھر کے زوال اور اب بندش کے ذمہ دار
نہیں، کہ اِس پستی تک پہنچنے میں کتنے فنڈز اور وسائل ضائع ہوئے ہوں گے؟ کس
کی نااہلی ہوگی اور کون اس کرپشن میں ملوث ہوگا؟ کرپشن، نااہلی اور کاہلی
وغیرہ کے خاتمے کے سلسلے میں وزیراعظم کے دعووں کا سلسلہ بہت طویل ہے، اُن
کی تمام تر توانائیاں سابق حکمرانوں کی لوٹی ہوئی دولت برآمد کرنے پر صرف
ہو رہی ہیں، یقینا یہ کارِ خیر بھی سر انجام دینا چاہیے، ساتھ یہ بھی کہا
جاتا ہے کہ موجودہ حکومت مکمل کرپشن فری ہے، اِس دعوے کو بھیانک مذاق ہی
قرار دیا جاسکتا ہے۔ عمران خان سے اگر کچھ توقعات تھیں تو اُن میں ایک
سیاحت کا فروغ تھا۔ یہ چڑیا گھر بھی یقینا تفریح اور سیر وسیاحت میں ہی آتے
ہیں۔ اس ضمن میں اگر حکومت کسی کا م کا دعویٰ کرتی پائی جاتی ہے تو وہ صرف
درخت ہیں، نہ جانے کتنے ارب درخت لگائے جائیں گے، یا کتنے ارب لگا دیئے گئے
ہیں؟
ساتھ ہی ایک اور خبر نے بھی مایوسی کے بادل گہرے کر دیئے، معلوم ہو ا ہے کہ
چڑیا گھروں اور زُو سفاری پارکوں کی فیس میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ یعنی جب
چڑیا گھروں میں جانور تھے تب فیس نسبتاً کم تھی، اب خالی پنجروں کو دیکھنے
کے لئے ڈبل فیس ادا کرنا ہوگی۔شہباز شریف نے اپنی حکومت میں عام پارکوں کی
ٹکٹ ختم کر دی تھی، موجودہ حالات میں وہ ٹکٹ بھی یقینا بحال ہو جائے گی۔
عوام کو ریلیف دینے کے دعوے تو دُور کی بات ہے، عوام سے پہلی سہولتیں بھی
چھینی جارہی ہیں۔ بچت کے دعوے بھی بہت سننے کو ملتے تھے، مگرسرکاری طور پر
اور حکومتی سطح پر کوئی ایسا اقدام دکھائی نہیں دیتا جس سے پچھلی حکومتوں
کی نسبت سادگی دکھائی دیتی ہو، اخراجات کم کئے گئے ہوں، مراعات میں کمی کی
گئی ہو، کروڑوں روپے الیکشن پر خرچ کرنے والے ’غریب‘ ممبرانِ پارلیمنٹ کی
غیر حاضریوں کے باوجود تنخواہوں میں کٹوتی یا کمی کا سوچا گیا ہو، کسی بھی
شعبے میں رشوت یا کرپشن کم ہوئی ہو؟اُلٹا تفریح چھینی جا رہی ہے۔
کُتّوں کے ساتھ تصاویر میڈیا پر جاری کرنے کا مشورہ ممکن ہے کسی زرخیز ذہن
مشیر کا ہو، یا خود ہی خان صاحب نے ترنگ میں اپنے پالتو جانوروں کو خوراک
کھلانے کو ایسا کارِ نمایاں جانا جسے قوم تک پہنچانا ضروری ہو۔ نتیجتاً یار
لوگوں نے سوشل میڈیا پر علی محمد خان سمیت کابینہ کے چند ارکان کی تصاویر
بھی کُتوں کے ساتھ جاری کردیں، کہ اپنے لیڈر کو خوش کرنے لئے یہ بھی ایک
بہت آسان اور آزمودہ نسخہ ہے۔نہ جانے کتنے اور جانور بھی اِن لوگوں نے اپنے
اپنے گھروں میں پال رکھے ہوں گے۔ مگر کُتّوں سے دل بہلانے والے قوم کے
حکمران اپنے عوام کے لئے چڑیا گھروں تک کو بند کر رہے ہیں۔ کیا گُڈ گورننس
اِسی چیز کا نام ہے کہ جس طرف نگاہ اٹھ گئی اُدھر فنڈز کی نہریں بہا دیں،
جدھر نظر نہ گئی وہ نظر انداز ہو گئے؟ یہ تو شاہانہ اندازِ حکومت ہے، یہ
الزام تو سابقہ حکمرانوں پر لگایا جاتا رہا ہے۔ آپ لوگ بادشاہ نہیں ہیں کہ
جس کو چاہا نواز دیا اور جس کو چاہا دھتکار دیا؟ قوم کو بنیادی حقوق دینا
حکومت کا فرضِ اولین ہے، جس میں وہ بُری طرح ناکام ہے۔
|