ڈاکٹر کفیل خان کا بول بالہ اور یوگی ادیتیہ ناتھ کا منہ کالا

انسان اپنی تسکین طبع کے لیے جو عجیب و غریب حرکات کرتا ہے اور اس کا دارومدار اس کی طبیعت پر ہوتا ہے ۔ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ کو اپنی بے عزتی کرانے کا شوق ہے اور اس کے لیے وہ وقفہ وقفہ کوئی نہ کوئی ایسی حرکت کرتے رہتے ہیں جس سے عدالت انہیں پھٹکار لگاتی رہتی ہے۔ یوگی جی کے بھکتوں کو اس سے پریشانی ہوتی ہوگی لیکن چونکہ یہ یوگی جی ایسی ہی ضرورت ہے جیسے کہ کسی منشیات کے عادی شخص کی ہوتی ہے اس لیے وہ باز نہیں آتے اور اسے دوہرائے جاتے ہیں۔ گوگل پر تلاش کے خانے میں اگر کوئی یوگی اور پھٹکار یہ دو الفاظ لکھ دے تو اس کے سامنے معلومات کا ایک آتش فشاں پھٹ پڑے گا ۔ یوگی جی نے جن مختلف النوع موضوعات پر عدالت سے ڈانٹ کھائی ہے ، اس کو اگر ایک جگہ مجتمع کردیا جائے تو بعید نہیں کہ گینس بک آف ورلڈ ریکارڈ والے ایک نیا زمرہ قائم کرکے یوگی کا نام اس میں درج کرلیں اور وہ اس تمغہ کو اپنے گلے میں ڈا ل کر شان سے گھومیں۔

اس سال 2020کی ہی بات کریں تو کبھی سی اے اے کےخلاف احتجاج کرنے والوں کے پوسٹر لگا کروہ عدالت کو ناراض کرتے ہیں تو کبھی تاج محل کے بارے میں وہ ویژن دستاویز بناکر عدالت سے ڈانٹ کھاتے ہیں ۔ خیر مسلمانوں سے ازلی دشمنی کو سب سے بڑا پونیہ( کارِ ثوب) سمجھتے ہیں اس لیے حیرت کی بات نہیں ہے، لیکن جس گائے کے ساتھ تصویر کھنچوا کر وہ عوام سے ووٹ مانگتے ہیں، صوبے کے اندر اس کی حالت ِ زار اور گئو رکشا قانون کے بیجا استعمال پر بھی عدالت کو ان کی سرزنش کرنی پڑتی ہے ۔ کورونا کے معاملے میں عدالت کو انہیں پھٹکارنا پڑتا ہے۔ ہاتھرس کے معاملے تو کورٹ یوگی انتظامیہ پر آگ بگولہ ہوجاتی ہے ۔ یہ سارے اور اس طرح کے کئی معاملات تو اس ایک سال کے دوران الہ باد ہائی میں ہوئے لیکن پرشانت قنوجیا کے معاملے میں سپریم کورٹ نے بھی یوگی سرکار کو پھٹکار لگائی لیکن ان کی عقل ٹھکانے نہیں آئی ۔

کفیل خان کے معاملے میں انہوں نے خود سپریم کورٹ سے رجوع کرکے اپنی رسوائی کا سامان کیا لیکن اس سے ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ مالش ہوجاتی ہے۔ جس طرح جوتا پالش کے بعد چمکنے لگتا ہے اسی طرح یوگی جی کا مزاج عدالتی پڈانٹ ڈپٹ کے بعد ترو تازہ ہوجاتا ہے۔ ڈاکٹرکفیل خان پر شہریت (ترمیمی) ایکٹ کے خلاف ایک مبینہ تقریر کو لے کر یوگی ادیتیہ ناتھ نے انتقام کے جذبے سے این ایس اے تک لگا دیا تھا ۔یہ وہی ڈاکٹر کفیل خان ہے جنھوں نے سال2017 میں بی آر ڈی میڈیکل کالج میں بچوں کی جان بچانے کے لیے اپنی جان لڑا دی۔ گودی میڈیا تک نے انہیں مسیحا کے خطاب سے نوازہ لیکن اناپرست یوگی کی نظروں میں ڈاکٹر کفیل کی مقبولیت کانٹا بن کر چبھنے لگی ۔ اس کی اولین وجہ یہ تھی کہ ان کی حق گوئی نے سرکار کی کوتاہی کا پردہ فاش کردیا تھا ۔ حسدو و بغض نے پہلے تو یوگی کو انہیں معطل کر نے پر مجبور کیا اور پھر ایک مسیحا کو قاتل بناکر گرفتار کرلیا گیا ۔

ڈاکٹرکفیل خان پر لگے الزامات کو کئی ماہ کی حراست کے بعد محکمہ جاتی جانچ میں خارج کر دیا گیا لیکن ان سے معافی طلب کرنے اور نقصان بھرپائی دینے کے بجائے معطلی تک منسوخ نہیں کی گئی۔ اس کے بعد ان کی ترمیم شدہ شہریت قانون پرعلی گڑھ میں کی جانے والی تقریر کو اشتعال انگیز قرار دے کر ممبئی میں گرفتار کیا گیا۔ انکاونٹرس کے معاملے میں بدنام زمانہ اترپردیش کی حکومت نے یہ مضحکہ خیز الزام لگایا کہ ڈاکٹر خان کا مجرمانہ پس منظر رہا ہے۔ یہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے والی بات ہے۔ ان پرمذہب کی بنیاد پرمختلف گروہوں کے درمیان نفرت کو فروغ دینے کے لیے الزام لگا کر 29 جنوری کو حراست میں لیا گیا مگر 10فروری کو عدالت نے انہیں ضمانت پر رہا کردیا ۔ اس پر نادم ہونے کے بجائے ہٹ دھرمی دکھاتے ہوئے یوگی انتظامیہ نے ان کو قومی سلامتی قانون کے تحت گرفتار کیا تاکہ عدالت کے لیے ضمانت دینا مشکل ہوجائے حالانکہ سپریم کورٹ کے 1985 میں دیئے گئے ایک حکم نامے کے مطابق ضمانت کے فوراً بعد این ایس اے نہیں لگایا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر کفیل کے خلاف جتنے بھی فرضی مقدمات تھے ان سب میں ضمانت مل جانے کے بعد محض انتقام کے جذبے سے پھر ایک نیا کیسجڑ دیا گیا۔

این ایس اے کے تحت حکومت عوامی نظام میں رخنہ ڈالنے یا ملک کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے والوں یا پھرغیرممالک کے ساتھ روابط رکھنے والوں کو حراست میں لے سکتی ہے۔ اس قانون کے تحت حکومت ملزم کو بغیرکورٹ میں چارج لگائے ایک سال تک حراست میں رکھ سکتی ہے۔ اب بھلا کفیل خان جیسے سماجی جہد کار کا ان سنگین الزامات سے کیا تعلق ؟ لیکن جہاں اتر پردیش کی طرح اندھیر نگری اور چوپٹ راج ہو وہاں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ اگرمودی ہے تو ممکن ہے تو یوگی تو ہو کیا ناممکن ہے؟ اس طرح جنوری سے ستمبر تک ڈاکٹر کفیل کو جیل میں رکھا گیا لیکن ہائی کورٹ نے ڈاکٹرکفیل خان کی نظربندی ’غیرقانونی‘ قرار دے کر انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا ۔ عدالت کے مطابق سرکار نے ان کی جس تقریر میں نفرت یا تشدد کو فروغ دینے کا الزام لگایا تھا اس میں ویسی کوئی بات نظر نہیں آئی۔
ڈاکٹر کفیل خان کے معاملے میںالہ آباد ہائی کورٹ کا یو پی حکومت کے خلاف یہ سخت فیصلہ تھاجس میں یو پیسرکار کیجانب سے ڈاکٹر کفیل خان کو گرفتار کرنے ، ان کو جیل میں بند رکھنے اور ان پر نیشنل سکیورٹی ایکٹ ( این ایس اے) لگائے جانے کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا گیا تھا۔ الہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس گووند ماتھر اور جسٹس سمترا دیال سنگھ کی بنچ نے ۴۲؍ صفحات پر مشتمل اپنے اہم فیصلے میں 13؍ فروری سن 2020 کو علی گڑھ ڈی ایم کے ذریعے ڈاکٹر کفیل خان پر لگائے گئے این ایس اے کو منسوخ کر دیاتھا ، ساتھ ہی ہائی کورٹ نے ڈاکٹر کفیل خان کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے انہیں فوری طور سے رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے شنوائی کے دوران کہا کہ کفیل کا بیان تشدد یا نفرت کو بڑھانے والا نہیں بلکہ قومی سالمیت اور شہریوں کے بیچ اتحاد کوفروغ دینے والا تھا۔

ڈاکٹر کفیل خان کی والدہ نزہت پروین کی طرف سے داخل حبس بیجا کی عرضی پر عدالت نے فیصلہ سنا تے ہوئے اس بات کو تسلیم کیاتھا کہ ان کو حبس بیجا میں رکھا گیا ہے ، لہٰذا ان کو فوری طور سے رہا کیا جائے۔اس طرح گویا عدالت نے ڈاکٹر کفیل خان پر لگائے گئے این ایس اے کی مدت میں توسیع کے فیصلے کو بھی غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔ اس وقت ڈاکٹر کفیل کے وکیل اور الہ آباد ہائی کورٹ کے سینئر ایڈو کیٹ نذرالااسلام جعفری کا کہا تھا قانونی اصطلاحات کی روشنی میں الہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ کافی سخت ہے۔ اس فیصلے میں عدالت نے ڈاکٹر کفیل خان کی گرفتاری کے معاملے میںیو پی حکومت کے رویئے پرسخت تنقید کی ہے اور ہائی کورٹ نے ڈاکٹر کفیل کی گرفتاری، ان کو متھرا جیل میں بند رکھنے اور ان پر این ایس اے لگائے جانے کو غیر قانونی قرار دےدیا ہے۔ ڈاکٹر کفیل خان کے وکیل نے امید ظاہر کی کہ اس فیصلے سے قانونی طورا نہیں کافی تقویت ملی ہے اورجلد ہیوہ تمام مقدمات سے بری ہو جائیں گے۔

اترپردیش کی حکومت میں اگررتیّ برابر بھی شرم و حیا ہوتی تووہ ڈوب مرتی اور نادم ہوکر ڈاکٹر کفیل کی ملازمت بحال کرتی لیکن اگر ایسا کردیا جاتا تو یوگی جی کی پھٹکار والی ضرورت کیونکر پوری ہوتی ؟ اس لیے جیسے گیدڑ کی موت آتی ہے تو وہ شہر کی طرف دوڑتا ہے اسی طرح یوگی سرکار نے سپریم کورٹ کا رخ کرکے عرضی دائرکردی ۔ صوبائی حکومت نے ڈاکٹرکفیل خان کے خلاف قومی سلامتی ایکٹکومنسوخ کرنے کے الہ آباد ہائی کورٹ کے حکم کو چیلنج کرکے اپنے پیروں پر کلہاڑی مار لی اور وہاں بھی اس کے ہاتھ ناکامی و نامرادی ہی لگی ۔حکومت یوپی نے 26 اکتوبر کو ایک خصوصی درخواست (ایس ایل پی) دائر کی اور اس پر 17 دسمبر کو سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی ۔اس درخواست میں یوگی کے ساتھ مودی کی مرکزی حکومت نے بھی اپنا کندھا لگا دیا۔ اس میں دعوی کیا گیا ہے کہ ڈاکٹرخان کی مختلف جرائم کا ارتکاب کرنے کی ایک تاریخ ہے، جن کی وجہ سے انضباطی کارروائیوں، ان کی ملازمت سے معطلی، ان کے خلاف پہلی معلوماتی رپورٹس کا اندراج اور اس کے پیش نظر قومی سلامتی ایکٹ کو بحال کی درخواست کی گئی ۔

اس درخواست کے جواب میں ڈاکٹر کفیل خان نے ایک ای میل میں کہا کہ وہ یکم ستمبر کو جیل سے باہر آنے کے فوراً بعد اتر پردیش سے باہر چلے گئے تھے۔ڈاکٹر کفیل نے یہ بھی بتایا کہ رہائی کے بعد سے انھوں نے گورکھپور کے بابا رگھو داس میڈیکل کالج اور اسپتال میں اپنے عہدے پر بحال ہونے کے لیے ریاستی حکومت کو تین خط لکھے ہیں، لیکن اس کا کوئی جواب نہیں ملا ۔ڈاکٹر کفیل خان کا مطالبہ حق بجانب ہے کیونکہ گورکھپور کے بابا رگھو داس میڈیکل کالج اور اسپتال میں ملازمت کے دوران 2017 میں ان پر جو طبی غفلت، بدعنوانی اور فرائض میں سستی کا مجرمانہ مقدمہ درج کرکے انھیں معطل کیا گیا تھا اس پر اتر پردیش حکومت کی ایک انکوائری کمیٹی نے انھیں تمام الزامات سے بری کرچکی ہے۔ کمیٹی کے ارکان نے اس کے برخلاف یہ پایا کہ بحران کے دوران بچوں کی جان بچانے کے لیے کیے گئے ان کے اقدامات کی تعریف تھے، لیکن حکومت یوپی نے اس کا یہ انعام دیا کہ نو ماہ کے لیے انہیں جیل بھیج دیا ۔

یہ عجیب و غریب صورتحال ہے کہ سرکار جس فرد کے خلاف سنگین الزامات لگا کر اسے معتوب کرتی ہے اسی حکومت کے تحت تفتیش کرنے والے افسران اس شخص کی تعریف و توصیف بیان کرتے ہیں، لیکن افسوس کہ پھر بھی حکومت کی کوئی سرزنش نہیں ہوتی ۔ سرکار کو جس تقریر میں تشدد و منافرت دکھائی دیتاہے اس میں عدالت کو محبت و یکجہتی کا پیغام سنائی دیتا ہے لیکن عدالت بھی حکومت کی اصلاح کے لیے کوئی سزا سنانے سے جی چراتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شتر بے مہار کی مانند یوگی جیسے لوگ آئین اور قانون کو پا مال کرتے پھرتے ہیں ۔ یوگی سے پہلے اتر پردیش سرکار سے مایوس ہوکر ڈاکٹر کفیل کی والدہ نزہت پروین نےاس سال مارچ میں اپنے بیٹے کی رہائی کی خاطر سپریم کورٹکےد روازے پر دستک دی تھی۔اتفاق سے ان کی عرضی کو بھی قاضیٔ اعظم ایس اے بوبڈے، جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس بی آر گوئی کی بنچ نے مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس معاملے کی سماعت چونکہ الہ آباد ہائی کورٹ میں جاری ہے اس لیے وہیں ہونی چاہیے۔

سپریم کورٹ نے اس وقت ایک اچھا کام یہ کیا کہ اس معلق قضیہ میں سرعت کی غرض سے الہ آباد ہائی کورٹ کو 15 دن کی مدت میں فیصلہ کرنے کی تاکید کردی ۔ سپریم کورٹ کی اس ہدایت کا الہ آباد ہائی کورٹ پر دباو بناکہ 15 دن میں وہ طے کرے آیا ڈاکٹر کفیل کو رہا کر سکتے ہیں یا نہیں؟ اس کے بعد 19 اگست کو الہ آباد ہائی کورٹ نے اس کا نوٹس لیا اور این ایس اے کے تحت ڈاکٹر کفیل خان پرکی جانے والی کارروائی کے بنیادی دستاویزوں کا مطالبہ کردیا۔ یوگی حکومت نے اس بیچ ڈھٹائی دکھاتے ہوئے ڈاکٹرخان کی این ایس اےکے تحت حراست کو مزید تین مہینے کے لیے بڑھا دیاحالانکہ ان کے خلاف ذمہ داریوں کی مبینہ خلاف ورزی اور ایک نجی پریکٹس چلانے کے بے بنیاد الزامات سے عدالت ان کو پہلے ہی بری کرچکی تھی ۔

اس میں شک نہیں کہ ڈاکٹر کفیل کے حق میں عدالت عالیہ کے فیصلے کے پس پشت عدالت عظمیٰ کا ہاتھ تھا۔ ڈاکٹر کفیل کے ساتھ اس وقت عدالت عظمیٰ کی بلا واسطہ حمایت کے علاوہ سوشل میڈیا پر بعض سماجی کارکنان نے ڈاکٹر کفیل کو بغیر کسی وجہ سے نشانہ بنائے جانے کے خلاف فیس بک پر ہیش ٹیگ #FreeDrKaeel کےنام سے ایک مہم چھیڑ کر حکومت اور عدالت کو اس معاملے میں فوری طور پر مداخلت کرنے کی گہار لگائی ۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی طلباء نے بھی جماعت اسلامی اور دیگر لوگوں کے ساتھ عوامی مظاہرے کیے۔ گورکھپور میں عام انتخابات کے دوران مسلم اکثریت والے علاقوں میں سماج وادی پارٹی اور نشاد پارٹی نے ڈاکٹر کفیل کو ہیرو کی طرح پیش کیا اور حکومت کے خلاف جم کر ما حول سازی کی ۔اس کے برعکس حکومتِ وقت ڈاکٹر کفیل پر متعدد اوچھے الزامات لگاتی رہی۔ 2009 کے ایک طبی امتحان میں کسی اور شخص کی جگہ امتحان دینے کا الزام لگایا گیا نیز 2015 میں ایک خاتون نے ڈاکٹر کفیل اور ان کے بھائی کاشف پر ریپ کا جو مقدمہ درج کرایا تھا اسے بھی ذرائع ابلاغ میں اچھالا گیا ، حالانکہ وہ خاتون ایک ایسے شخص کی ملازمہ تھی جن کی ڈاکٹر کفیل کے خاندان والوں کے ساتھ قانونی لڑائی چل رہی تھی ۔

عدالت عالیہ میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوگیا اور فیصلہ سرکار کے خلاف و کفیل خان کے حق میں آگیا۔ہائی کورٹ کے مذکورہ فیصلے کو جب یوگی سرکار نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تو اترپردیش حکومت کی یہ درخواست مسترد کردی گئی ۔چیف جسٹس آف انڈیا ایس اے بوبڈے نے اس پر کہا کہ ’’یہ ہائی کورٹ کا اچھا حکم ہے… ہمیں ہائی کورٹ کے حکم میں مداخلت کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی ہے۔‘‘ یہ دراصل یوپی سرکار کے ساتھ مرکزی حکومت کے گال پر بھی ایک زناٹے دار طمانچہ تھا کیوں کہ یہ سماعتمشترکہ عرضی پر ہوئی تھی۔ اس طرح ملک کی سب سے بڑی عدالت نے میں یوپی حکومت کی فضیحت ہو گئی ۔ اس پر مودی، شاہ یا نڈا کا کوئی ٹوئٹر پیغام نہیں آیا۔ میڈیا کے اندر اوٹ پٹانگ بیان دے کر بھکتوں کو بہکانے والے یوگی کو بھی سانپ سونگھ گیا اور گودی میڈیا نے اسے پوری طرح نظر انداز کردیا کیونکہ یہ سارے ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں ۔
 
ڈاکٹر کفیل کو سپریم کورٹ کے ذریعہ پھر سے گرفتار کرنے کی کوشش ایک ایسے وقت میں کی گئی جب ان کے گھر میں چھوٹے بھائی کی شادی تھی۔ چار سال کی صعوبتوں کے بعد گھر میں خوشی اور شادمانی کا ماحول تھا مگر یوگی انتظامیہ سے یہ دیکھا نہ گیا ۔ اس نے سوچا سپریم کورٹ تو اپنے گھر کی کھیتی ہے ۔ اس میں سارے فیصلے حکومت کے مرضی کے مطابق ہوتے ہیں ۔ عدالت عظمیٰ پر دباو ڈالنے کے لیے اس نے مرکزی حکومت کو بھی اپنے ساتھ کرلیا لیکن جس کو اللہ رکھے اس کو کون چکھے ۔ یوگی سرکار کی ساری ریشہ دوانیاں ناکام رہیں ۔پہلی ہی سماعت میں ڈاکٹر کفیل کا بول بالہ اوریوگی سرکار کا منہ کالا ہوگیا ۔ اس فیصلہ سے خوش ہوکر ڈاکٹر کفیل خان نے عدلیہ پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا ۔ انہوں نے ٹوئٹر پر لکھا، ’’ قومی سلامتی ایکٹ (این ایس اے) کے تحت میری حراست کو رد کرنے کے ہائی کورٹ کے فیصلہ کو چیلنج کرنے والی یوپی حکومت کی عرضی کو سپریم کورٹ نے خارج کر دیا۔ مجھے عدالت پر پورا یقین تھا، مجھے انصاف ملا۔ اللہ کا شکر ہے ، جے ہند، جے بھارت‘ یہی بات انہوں نے سپریم کورٹ کے باہر اپنے ایک ویڈیو پیغام میں بھی کہی اور صحت عامہ کے حق میں اپنی جدوجہد کو جاری رکھنے کے پختہ عزم کا اظہار کیا ۔اس فیصلے کے بعد یوگی اور کفیل کی کشمکش پر عرفان صدیقی کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
رات کو جیت تو پاتا نہیں لیکن یہ چراغ
کم سے کم رات کا نقصان بہت کرتا ہے

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1218637 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.