جسودھا بین سے سجاتا مونڈل تک کی داستانِ الم

مغربی بنگال میں ٹی ایم سی کے ایک کے بعد ایک ناراض رہنماوں کو اپنے ٹولے میں شامل کرکے بی جے پی والے جو ہوا بنا رہے تھے اس میں سجاتا مونڈل کے ٹی ایم سی میں شامل ہوجانے سے ایک دلچسپ موڑ آ گیا ۔ سجاتا مونڈل نہ رکن پارلیمان ہیں اور نہ اسمبلی کی ممبر ہیں ۔ ان کا شمار بی جے پی کے اہم رہنماوں میں بھی نہیں ہوتا اس لیے ان کی ٹی ایم سی میں شمولیت کو بہ آسانی نظر انداز کیا جاسکتا تھا لیکن ایسا کرنے کے لیے جس عقل کی ضرورت ہوتی ہے وہ سنگھ پریوار میں آنے کے بعد سلب ہوجاتی ہے۔ سجاتا مونڈل دراصل بی جے پی رکن پارلیمان سومترا خان کی بیوی ہے ۔ ایک خاندان کے مختلف لوگوں کا الگ الگ سیاسی جماعتوں میں ہونا ایک عام سی بات ہے۔ جھارکھنڈ کے بی جے پی ایم پی اور سابق وزیرجینت سنہا کے والد یشونت سنہا بی جے پی کے شدید مخالف ہیں ۔ بی جے پی کی سابق نائب صدر و جئے راجے سندھیا کے بیٹے مادھو راو سندھیا کانگریس میں تھے اوربیٹی وسندھرا راجے بی جے پی میں ایسے کئی لوگ ہیں مثلاً گوپی ناتھ منڈے اور ان کی بیٹی بی جے پی میں نیز بھائی کانگریس میں اور بھتیجا پہلے کانگریس اب بی جے پی میں وغیرہ مگر یہ قوت برداشت اب ختم ہورہی ہے اس لیے سومتر ا خان نے پریس کانفرنس کے دوران اپنی بیوی کو یکمشت تین طلاق دے دی ۔

سجاتا مونڈل کی فریاد ہے ا گرچہ میں خاتون ہوں اور بی جے پی کے رکن پارلیمان سومترا خان کی اہلیہ ہوں مگر میری اپنی بھی ایک شخصیت ہے ۔ میں اپنی مرضی سے آزادانہ ماحول میں سانس لینے کےلئے ترنمول کانگریس میں شامل ہوئی ہوں اور صرف اس وجہ سے میرے شوہر نے برسر عام طلاق دینے کا اعلان کردیا ہے ‘‘۔ غیروں کی آزادی کا دم بھرنے والوں کا یہ منافقانہ رویہ چراغ تلے اندھیرے کی مصداق ہے۔ سومترا خان نے اپنی بے بسی بیان کرتے ہوئے نامہ نگاروں سے کہا کہ ’’ ترنمول کانگریس میں شامل ہوتے وقت بھی میں شادی شدہ خاتون کا سنگھار یعنی سندور لگائے ہوئی تھی۔ میری محبت کی شادی کے بعد شوہر نے تحفہ میں جو بالا دیا تھااسے میں پہنے ہوئی تھی۔‘‘ لیکن جب اقتدار کی ہوس قلب و ذہن پر مسلط ہوجائے تو انسانی رشتے بے معنیٰ ہوجاتے ہیں ۔ اپنے خاوند سے مایوس ہوکر سرکار کے آگے دہائی دیتے ہوئے سجاتا کہتی ہیں ’’مجھے امید ہے پی ایم مودی اور بی جے پی کی مرکزی قیادت اس پر نوٹس لیں گے۔‘‘ یہ سجاتا کی خام خیالی ہے کہ پی ایم مودی اس پر کوئی اقدام کریں گے اس لیے کہ اگر ایسا کیا گیا تو سومترا انہیں جسودھا بین کی یاد دلا دیں گے جن کی حق تلفی کا سلسلہ نصف صدی سے جاری ہے اور اس کے خاتمہ کا امکان اب بھی مفقود ہے۔ ٹوئیٹر پرایک صارف نے کیا خوب تبصرہ کیا ہے کہ : ’’وہ جماعت بدلنے کے جو بھی مقاصد بتائیں لیکنیہ اقدام مزید طاقت حاصل کرنے کی لالچ ہے۔’جو مودی سے کرتے ہیں پیار، وہ بیوی کو بھی کرتے ہیں انکار۔‘ سچ یہی ہے کہ کرسی کا لالچ زوجہ کی محبت پر غالب آگیا ہے۔

سجاتا مونڈل کا یہ قدم بھی سیاسی ہے اس لیے کہ انہوں نے ترنمول کانگریس کے رکن پارلیمان سوگت رائے کی موجود گی میں ٹی ایم سی کے اندر شامل ہوتے ہوئے کہا :’’بی جے پی کی گندی سیاست کے سبب انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہے‘‘۔سجاتا نے الزام لگایا کہ بی جے پی میں ان لوگوں کی قدر دانی نہیں کی جاتی جو واقعی اس کے مستحق ہیں ۔ بہت ممکن ہے کہ وہ خود اپنے آپ کو ان بدقسمت لوگوں میں شمار کرتی ہوں ۔ سجاتا کا ماننا ہے کہ مغربی بنگال کو صرف ممتا بنرجی ہی ترقی کی راہ پر آگے لے جاسکتی ہیں۔ اس دعویٰ کی دلیل کے طور پر وہ کہتی ہیں کہ صرف ممتا بنرجی ہی صوبے کو بانٹنے کی سیاست سے بچا سکتی ہیں اس لیے وہ دیدی کے ساتھ جڑ کر کافی خوش ہیں۔ سجاتا کے ارادے تو بظاہر اچھے نظر آتے ہیں مگر آگے چل کر وہ کیا گل کھلاتے ہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ ویسے یہ طے بات ہے کہ اگر شوہر بیوی ایک دوسرے لڑ پڑیں تو غلطی کسی بھی ہو عوام کی ہمدردی بیوی سے ہی ہوتی ہے۔ سجاتا مونڈل کا کہنا ہے کہ بی جے پی والے فریبی خواب دکھا کر دوسری جماعتوں کے رہنماوں کو اپنی جانب کھینچ رہے ہیں اور انہیں اچھے عہدوں کا لالچ دے رہے ہیں بلکہ کچھ لوگوں سے وزارت اعلیٰ کی گدی کا وعدہ بھی کیا گیا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ اس گاجر کے پیچھے دوڑنے والوں میں سومترا خان بھی شامل ہوں کیونکہ اقتدار جب نصب العین بن جائے تو سارے رشتے ناطے بے معنیٰ ہوجاتے ہیں ۔

اس بیچ وشوبھارتی یونیورسٹی کی صد سالہ تقریب میں وزیر اعظم نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ طلبا سے خطاب کیا۔ وزیر اعظم گرو دیو رابندر ناتھ ٹیگور کی قائم کردہ مذکورہ یونیورسٹی کے چانسلر بھی ہیں۔اس موقع پروزیر اعظم نے کہا کہ وہ مقامی طور پر تیار کی گئی اشیا اور کاریگروں کو فروغ دیں تاکہ وہ آن لائن فروخت اور عالمی منڈی تک رسائی حاصل کرنے کے کام میں ماہر ہوسکیں۔ اور اس طرح ’ووکل فار لوکل‘ کا مقصد حاصل ہوسکے گا۔اس علمی تقریب میں یہ انتخابی نعرہ کیوں لگایا گیا یہ تومودی جی ہی جانتے ہیں ۔ وزیر اعظم کے مطابق گرودیو چاہتے تھے کہ دنیا بھارت کی بہترین چیزوں سے فائدہ اٹھائے اور دنیا کی اچھی چیزوں سے بھارت بھی سیکھے۔ وشو بھارتی نے ہمیں فطرت کے ساتھ جینا سکھایا۔ اس کے بعد انھوں نے یہ انکشاف کردیا کہ ہندوستان واحد بڑا ملک ہے جو پیرس سمجھوتے کے تحت طے کئے گئے ماحولیاتی اہداف کے حصول کیلئے صحیح سمت میں آگے بڑھ رہا ہےاور بین الاقوامی سطح پر شمسیتوانائی کے ذریعہ ماحولیات کے تحفظ میں دنیا کی قیادت کر رہا ہے۔ وزیر اعظم کو یہ خوش فہمی کیسے ہوگئی کوئی نہیں جانتا ۔

وزیر اعظم نریندر مودی نے’آتم نربھر بھارت‘ کو گرودیو رابندر ناتھ ٹیگور کا وژن قرار دے دیا ۔ یہ سن کر ٹیگور کی روح بھی چونک پڑی ہوگی ۔ انھوں نے کہا کہ آتم نربھر بھارت، ہندوستان کی خوشحالی کیلئےوہ قدم ہے جس سے عالمی خوشحالی میں مدد ملے گی۔ پہلے مودی جی اچھے دن کا خواب بیچتے رہے وہ نہیں آئے تو اب آتم نربھر بھارت کا نعرہ لگا کر خوشحالی کا سپنا فروخت کرنے لگے ہیں ۔ ہمارے ملک میں ویسے بھی مونگیری لال کے حسین سپنوں کی بڑی کھپت ہے اس لیے سیاستداں اس کی رسد پہنچاتے رہتے ہیں اور وزیر اعظم اس دوڑ میں سب سے آگے ہیں ۔ اس موقع پر مودی جی نے رابندر ناتھ ٹیگور کے بنگال کا تعلق ا اپنی آبائی ریاست گجرات سے جوڑتے ہوئےبات ساڑی کے پلو تک پہنچادی۔انہوں نے بتایا کہ رابندر ناتھ ٹیگور کے بھائی اور بھارت کے پہلے سول سرونٹ ستیندر ناتھ ٹیگور اپنی اہلیہ جناندانندینیدیوی کے ساتھ گجرات کے احمد آباد میں تعینات تھے۔اس وقت جناندانندینی دیوی نے یہ خیال پیش کیا کہ کیوں نہ ساڑھی کا پلو بائیں کندھے پر ڈالا جائےکیونکہ پلو دائیں جانب رکھنے سے کام کاج میں دشواری ہوتی تھی ۔ وزیر اعظم نے مشورہ دیا کہ خواتین کی خود مختاری کے حوالے سے کام کرنے والوں کو اس حوالے سے تحقیق کرنی چاہیے۔ مودی جی وہ تحقیق تو جب ہوگی تب ہوگی لیکن فی الحال وہ مغربی بنگال میں ان کی پارٹی کے رکن پارلیمان سومترا کی جانب سے اس کی اہلیہ سجاتا پر کی جانے والی حق تلفی کا مداوہ کریں ورنہ یہ سارا خود مختاری کا بھاشن بے سود ہوکر رہ جائے گا۔ سومترا نے اپنی بیوی کو یکمشت تین طلاق دے کر ویسے ہی مودی جی کے پاکھنڈ کا پول کھول دیا ہے۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1218645 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.