اب ان کی طبیعت اکثر خراب رہنا معمول بن چکا تھا، ڈاکٹرز
کے مکمل آرام کرنے کے مشورے کو وہ کوئی اہمیت دینے کو تیار نہیں تھے ، جس
عزم و جنون سے انہوں نے اس ملک کی بنیاد رکھی تھی وہ جلد سے جلد اسے مضبوط
اور مستحکم دیکھنا چاہتے تھے اس لئے دن رات کام میں مصروف تھے ۔ جنوری 1948
کا کوئی دن تھا، قائد اعظم محمّد علی جناح رحمہ اللہ اپنے دفتر میں کام کر
رہے تھے کہ مسلم لیگ کا ایک وفد ان کے دیرینہ ساتھی وزیراعظم جناب لیاقت
علی خان کی قیادت میں ملنے کے لئے حاضر ہوا۔
اس وفد میں شہید ملت اور مولانا عثمانی کے علاوہ کچھ غیر مسلم بھی شامل
تھے۔
قائد نے وفد کی طرف دیکھا اور پوچھا "کیا کام ہے؟"۔ شہیدملّت لیاقت علی خان
نے ڈرتے ڈرتے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے عرض کی
" ہمیں نہیں لگتا کہ پاکستان زیادہ دیر تک قائم رہ سکے گا ، ہندوستان نے
اتنے مسئلے پیدا کردیے ہیں کہ " پاکستان " کا قائم رہنا مشکل لگتا ہے۔
قائد نے مولانا عثمانی رحمت اللہ علیہ کو مخاطب کرتے ہوے پوچھا
" مولانا کیا آپ کو بھی ایسا لگتاہے ؟ "
مولانا عثمانی نے جواب دیا
" جی ہاں مجھے بھی ایسا لگتا ہے "
قائد اعظم محمّد علی جناح رحمت اللہ علیہ نے کرسی کے ساتھ ٹیک لگائی اور
فرمایا:
" پاکستان الله نے بنایا ہے اور الله تعالیٰ خود اس کی حفاظت فرمائے گا "۔
یہ تھا اس بوڑھے قائد کا عزم و یقین جس کی زندگی بس چند دن باقی رہ گئی تھی
مگر اس کا حوصلہ اب بھی پہاڑوں سے بلند اور عظیم تھا۔
25 دسمبر ہزاروں لاکھوں لوگوں کا یوم پیدائش ہوگا مگر اس کی خاص وجہ شہرت
دو عظیم ترین شخصیات کی ولادت کی وجہ سے ہے جن میں سے پہلی شخصیت مذہبی ہیں
اور دوسری سیاسی ۔ جناب عیسی علیہ سلام اللہ کے جلیل القدر نبی ہیں جن کی
بے مثال سخصیت کا اثر آج دوہزار سال گزرنے کے بعد بھی قائم ہے ۔ قائداعظم
رحمہ اللہ سیاسی رہنماء تھے مگر انہوں نے مذہب کی بناء پہ ایک علیحدہ ریاست
قائم کی، تاہم ان دو عظیم ترین اور پر اثر شخصیات میں ایک اور مماثلت یہ ہے
کہ دونوں سے بے پناہ محبت کے باوجود لوگوں نے ان کی اصل تعلیمات کو یکسر
فراموش کردیا ۔
آج کی دنیا کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ قول و فعل میں تضاد بہت ذیادہ پیدا ہوگیا
ہے جو کہا جاتا ہے وہ کیا نہیں جاتا ، اور جو ہوجاتا ہے اس پہ سوچنے کی
ضرورت نہیں سمجھی جاتی کہ ایسا کیوں ہوا ہے اور اگر ہوا ہے تو کیا یہ مناسب
تھا؟۔
قائد کا یوم ولادت ہمیشہ ہمارے اندر ایک نئی روح پھونکنے کا کام کرتا ہے
البتہ یہ اور بات ہے کہ ہماری ازلی سستی پہ بہت جلد دسمبر کی ٹھنڈ حاوی
ہوجاتی ہے اور ہم پھر سارے عہدوپیمان بھول کر خواب خرگوش میں کھوجاتے ہیں ۔
پچھلے کچھ ہفتوں سے میں کوئی کالم نہیں لکھ سکاتھا اس کی وجہ روزگار کی
مصروفیات کے ساتھ کچھ یکسوئی اور مطالعے کا کم ہونا بھی تھا لیکن آج میرے
قائد کے یوم ولادت نے بے اختیار مجھے ان کی زندگی کے بے شمار سنہری واقعات
و فرمودات یاد دلا دئے ہیں ۔ وہ ایسے شاندار اور بااصول انسان تھے کہ انہیں
پچھلی صدی کا سب سے بڑا انسان کہا جائے تو کچھ غلط نا ہوگا بلاشبہ وہ میرے
آئیڈیل ہیں، دور حاضر میں مجھے ان جیسا کوئی لیڈر نظر نہیں آتا ۔
قائد اعظم کو 1945 میں پتا چل چکا تھا کہ انہیں آخری سٹیج کی ٹی بی ہے لیکن
انہوں نے ایک آزاد اسلامی ملک کے حصول کے لئے اس بیماری کو راز رکھا۔ وہ
راز جس کو پچھلی صدی کا سب سے بڑا پولیٹیکل سیکرٹ کہا جاتا ہے۔ اس لئےکہ
اگر یہ پتا چل جاتا کہ قائد اعظم رحمت اللہ علیہ ایسی بیماری میں مبتلا ہیں
جو کسی بھی وقت ان کی جان لے سکتی ہے تو شاید وائسرائے اور گاندھی اس
معاملے کو مزید طول دینا چاہتے اور پاکستان کبھی نہ بن پاتا کیونکہ
مسلمانوں کے پاس قائد سی سوجھ بوجھ اور دور رس نگاہیں رکھنے والا ایسا
دوسرا کوئی لیڈر موجود نہیں تھا اور نا آج ہے ۔
22نومبر 1939 ء کو متحدہ ہندوستان کی قانون ساز اسمبلی میں انہوں نے خطاب
کرتے ہوئے فرمایا:
"میں تم دونوں قوموں(یعنی انگریزوں اور ہندوؤں) کو یہ بتائے دیتا ہوں کہ تم
دونوں مل کر بھی ہماری روحوں کو برباد نہیں کر سکتے ، تم ہماری اسلامی
ثقافت کو کبھی تباہ نہیں کر سکتے، جو ہمیں ورثے میں ملی ہے۔ہمارا یہ جذبہ
زندہ تھا ، زندہ ہے اور زندہ رہے گا"۔
آج پاکستان چوہتر سال کا ہوگیا ہے یہاں سب کچھ ہے ، کچھ نہیں ہے تو قائد کے
وضع کردہ اصولوں پہ مبنی حکومت نہیں ہے ، ہم نے کرپشن، سفارش ، اقرباء
پروری اور ملکی وسائل کو لوٹنے میں ریکارڈ بنائے ہیں ۔ ہماری اسلامی ثقافت
برباد ہورہی ہے ، ہمارے حکمران نااہل بھی ہیں اور بد دیانت بھی اور رہی
رعایا تو ہم میں سے ہر شخص خود جانتا ہے کہ ہم کیسے ہیں؟ ۔ ایسے حالات میں
ہمارا جذبہ حب الوطنی کیسے زندہ ہو اور کیسے زندہ رہےگا ؟ ۔
|