وقت گزرتے دیر نہیں لگتی، سیکنڈ سے منٹ اور پھر گھنٹے
سے دن گزر جاتا ہے، 365 دن گزرنے پر سال پورا ہو جاتا ہے اور دنیا نئے سال
میں داخل ہو جاتی ہے، اسی طرح ہمارے دور کا سب سے لمبا سال اختتام پذیر ہو
گیا ہے، یوں تو اس سال میں بھی 12 مہینے تھے لیکن کرونا وائرس کے باعث اس
سال کا مارچ سے دسمبر تک کا ہر ایک مہینہ کئی سالوں پر محیط تھا، اس وباء
سے زیادہ اس کا خوف تھا جس نے ہر شعبہ زندگی اور طبقہ کو متاثر کیا، اس سال
کے سب سے شاندار لمحات وہ تھے جب پہلے لاک ڈا?ن کے دوران پاک وطن میں لوگوں
کو کم وسیلہ لوگوں کے گھروں تک راشن اور کھانا پہنچاتے دیکھا، لوگ اپنے
گھروں سے کھانا بنا کر اپنے قریبی ایسے گھروں اور مزدوروں کے ٹھکانوں پر
بلا ناغہ پہنچاتے پائے گئے، لاک ڈاؤن نے معاشرے کو سکھایا کہ انسان ہی
انسان کا علاج ہے۔ کاروبار کی ایک حد سے زیادہ مصروفیت انسانی زندگی کے اصل
مزے اور مقصد سے دوری کا باعث ہے۔
گزرے سال میں دنیا میں بہت سے سانحات، واقعات رونما ہوئے جو تاریخ کا حصہ
بنیں گے، لیکن گزرے سال میں کرونا وائرس جیسے موذی مرض نے دنیا بھر کے
ممالک کو اپنی لپیٹ میں لئے رکھا اور پاکستان سمیت پوری دنیا کے عوام اس
بیماری کو ساتھ لے کر نئے سال میں داخل ہوئے، یہ وائرس پچھلے سال میں
لاکھوں زندگیاں نگل گیا اور اس موذی مرض کے سائے اب بھی پاکستان سمیت دنیا
بھر پر منڈلا رہے ہیں، اس وائرس نے بڑی بڑی سپر پاور طاقتوں (ممالک) کے
عوام اور حکمرانوں کے گھٹنے لگوا دیئے اور آئے روز کرونا وائر سے متاثر
ہونے والوں کی تعداد میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے، جو عوام میں موت
کے سائے کا خوف بنا ہوا ہے، دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستانی حکومت بھی
اس موذی مرض سے نمٹنے کیلئے تحرک کر رہی ہے۔
یہاں اس (انفیکشن وائرل) مرض بابت بتانا ضروری ہے کہ اس سے متاثر ہونے والے
مریض کی کیفیت کچھ یوں ہوتی ہے کہ اسے پہلے تین دن سر، جسم میں درد مسلسل
قہ آنا، جسم کا لاغر رہنا، ناک کا بہنا، آنکھوں، پیشاب میں جلن، مسلسل
بخار، گلے میں خارش سمیت دیگر علامات ہوتی ہیں، دوسرے مرحلہ میں (چوتھے سے
آٹھویں دن تک) متذکرہ دیگر علامات کے ساتھ کھانے پینے کے باوجود منہ سے
ذائقہ کا نہ آنا، بغیر کوئی کام کیے تھکاوٹ محسوس کرنا، سینے (پسلی کا
پنجرا) میں درد، سینے میں جکڑن، جسم کے نچلے حصہ میں درد کا ہونا شامل ہیں،
کورونا وائرس سے ایک بار متاثر ہونے والے مریضوں کو دل کی تکلیف، جسمانی،
اعصابی کمزوری، قوت مدافعت میں کمی، سانس، بلڈ پریشر، شوگر، مردانہ کمزوری
جیسی تکالیف میں مبتلاء کر دیتا ہے، یہ خطرناک وائرس مریض کے جسم سے وٹامن
سی کی بڑی مقدار نچوڑ لیتا ہے، اس کا حملہ 14 روز تک رہتا ہے، مناسب اور
مستقل علاج سے مریض صحت یاب تو ہو جاتا ہے لیکن اس میں متذکرہ بالا
بیماریوں کی علامات رہتی ہیں۔
31 دسمبر 2020 تک دنیا بھر میں کرونا وائرس نے 8 کروڑ 20 لاکھ 22 ہزار 480
افراد کو متاثر کیا اور دنیا میں 17 لاکھ 91 ہزار 243 افراد کو یہ موذی مرض
نگل گیا، علاج معالجہ سے 4 کروڑ 64 لاکھ 17 ہزار 927 مریض صحت یاب ہوئے،
کورونا وائرس سے پاکستان میں 4 لاکھ 79 ہزار 715 خواتین و افراد متاثر
ہوئے، جن میں پنجاب کے1 لاکھ 37 ہزار 939، سندھ کے دو لاکھ 14 ہزار 445، کے
پی کے کے 58 ہزار 379، اسلام آباد کے 37 ہزار 702، بلوچستان کے 18 ہزار
148، گلگت بلتستان کے 4 ہزار 856 خواتین و افراد شامل ہیں، پاکستان کے 10
ہزار 105 افراد اس موذی مرض کا شکار ہو کر موت کے منہ میں جا چکے ہیں،
امریکہ میں1 کروڑ 97 لاکھ 40 ہزار 468، بھارت کے 1 کروڑ 2 لاکھ 66 ہزار
674، برازیل کے 76 لاکھ 19 ہزار 200، روس کے 31 لاکھ 18، فرانس کے 26 لاکھ
57 ہزار 624، برطانیہ کے 24 لاکھ 40 ہزار 202، اٹلی کے 20 لاکھ 83 ہزار
689، سپین کے 19 لاکھ 218، جرمنی کے 17 لاکھ 41 ہزار 153، کولمبیا کے 16
لاکھ 26 ہزار 461 افراد کورونا وائرس سے متاثر ہوئے اسی طرح اس موذی مرض نے
دنیا کے دیگر ممالک کے لوگوں کی بڑی تعداد کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے
اور دنیا بھر کے ممالک کے عوام اس موذی مرض سے جنگ لڑ رہے ہیں۔
مشاہدے میں آیا ہے کہ پاکستان میں اس مرض کے اپنے تئیں درجنوں نہیں سینکڑوں
علاج دریافت کر لئے گئے ہیں، راقم اس مرض کا شکار ہوا تو کسی رشتہ دار نے
کہا کہ لیموں کا قہوہ پیو، کسی نے لہسن کھانے کا مشورہ دیا تو کسی دوست نے
سنامکی کا قہوہ تجویز کیا تو کسی نے انناس، گریپس واٹر، سنگترہ سو جتنے منہ
اتنے نسخے مجھ تک پہلے ہی دن پہنچ گئے، اور میں سوچ میں پڑ گیا کہ میں
کونسا نسخہ استعمال کروں اور کونسا نہ کروں؟ اسی تذبذب میں 48 گھنٹے گزر
گئے، طبیعت بگڑنے لگی تو ڈی ایچ کیو ہسپتال سرگودھا کے آئسولیشن وارڈ
پہنچاکر فوکل پرسن ڈاکٹر سکندر حیات وڑائچ سے رجوع کیا، مگر رش کے باعث
وارڈ میں ایک ایک بیڈ پر دو دو مریض تھے، سوچا اب کہاں جا?ں تو ڈاکٹر موصوف
نے ادویات تجویز کیں جو گھر میں آئسولیٹ ہو کر استعمال کرتا رہا، 14 دن بڑی
اذیت اور کرب کے ساتھ گزرے، ٹیسٹ کروانے پر نیگیٹو تو آ گیا لیکن یہ وائرس
جسم پر اپنے بہت سے اثرات چھوڑ گیا ہے۔
اب کورونا وائرس کی خطرناک دوسری لہر جاری ہے اور شرح اموات تین فیصد سے
بڑھ کر 11 فیصد تک پہنچ چکی ہے، دوسری لہر نے پاکستان سمیت دنیا بھر میں
خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے، پاکستان میں جزوی لاک ڈاؤن جیسی صورتحال سے
کاروبار زندگی مفلوج اور تعلیمی نظام ٹھپ ہو چکا ہے، جبکہ وائرس سے متاثرہ
دنیا کے دیگر ممالک میں حالات اس سے بھی گھمبیر ہیں، اسپین نے ہنگامی
صورتحال کا اعلان کیا ہے جو مارچ تک بڑھ سکتا ہے، برطانیہ نے ایک ماہ،
فرانس نے دو ہفتوں، جرمنی نے 4 ہفتوں کیلئے لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا ہے،
اٹلی اور دیگر ممالک کی حکومتیں ہفتہ رواں میں اپنے اپنے حساب سے لاک ڈاؤن
کا اعلان کر دیں گی۔
اس طرح پاکستان سمیت دنیا بھر کی اقوام کورونا وائرس کے ساتھ 2021ء میں
داخل ہو چکی ہیں، دنیا کے طب پر تحقیق کرنے والے ادارے خطرے کا الارم بجا
رہے ہیں کہ دوسری لہر خطرناک ہے، تاریخ بتاتی ہے کہ اسی طرح کے ہسپانوی فلو
کے باعث1917 سے 1919 تک 2 سالوں میں کروڑوں افراد لقمہ اجل بن گئے تھے، اب
بھی حالات وہی عندیہ دے رہے ہیں، حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اب
حکومتی انتظامات کو بالائے طاق رکھ کر پوری قوم کو نا صرف خود بلکہ اپنے
دوست احباب اور رشتہ داروں کو بچانا ہے۔ ورنہ یہ وائرس ماضی کی تاریخ
دہرائے گا؟
|