اس وقت پوری دنیا کورونا وائرس سے نبرد آزما ہے اوراس
وائرس کی دوسری لہر نے شدیدپریشانی اور مشکلات میں مبتلا کردیا ہے ۔وائرس
اپنی جسامت میں بہت ہی چھوٹا ہے حتیٰ کہ کہ یہ آنکھ سے نظر نہ آنے والے
بیکٹیریا اور خلیہ سے بھی چھوٹا ہوتاہے۔جب سورہ بقرہ میں قرآن حکیم کی یہ
آیت ’’ یقینا اﷲ اس سے نہیں شرماتا کہ بیان کرے کوئی مثال مچھر کی یا اْس
چیز کی جو اس سے بڑھ کر ہے‘‘ تو منکرین نے یہ اعتراض اٹھایا کہ یہ کیسی وحی
ہے جس میں مچھر جیسی حقیر چیز کا ذکر ہے۔ جن لوگوں نے یہ اعتراض کیا وہ
یقیناً حقائق سے بے خبر تھے۔ مچھرتو کروڑوں خلیوں پر مشتمل ہوتا ہے اور اس
لے ذریعہ ملیریا اور ڈینگی بخار پھیلتے پیں جن پر دنیا کے طبی ادارے تحقیق
میں مصروف ہیں لیکن کورونا وائرس تو ایک عام خلیہ سے بھی چھوٹا ہوتا ہے اور
کھربوں کورونا وائرس بھی ایک مچھر سے کم حجم رکھتے ہیں آج کے اہل علم اور
سائنس دان ان حقائق کو سمجھتے ہیں۔ اسی طرح قرآن حکیم نے شہد کی مکھی کی جو
مثال دی اس پر دنیا کے محققین نے وہ حقائق سامنے لائے ہیں کہ انسان کے لئے
باعث حیرت ہے۔ قرآن واقعی غوروفکر کرنے والوں کے لئے قدرت کی نشانیاں رکھتا
ہے۔
کورونا وائرس اس کے اندر وراثتی مادہ ہوتا ہے جس سے یہ اپنی نشوونما اور
تعدا د میں اضافہ کرتا ہے لیکن اسی صورت میں، جب یہ کسی بھی جاندار کے جسم
میں اس کے خلیوں میں چلا جائے۔ جب تک یہ کسی جاندار کے جسم میں نہیں ہوتا
تو یہ نے جان مادے کی طرح رہتا ہے۔ جب کوئی بھی وائرس خلیہ یا سیل کے اندر
چلا جاتا ہے تو کوئی دوا اس پر اثر نہیں کرتی اور نہ اس کو ختم کرسکتی ہے
البتہ اینٹی وائرل ادویات کسی حد تک اس کی نشوونما اور اثرات کم کرسکتی ہیں
۔ وائرس کی بہت سی اقسام ہیں اور یہ اپنے اندر موجود وراثتی مادہ آر این اے
یا ڈی این کو تبدیل کرتے رہتے ہیں اور یہ قدرتی عمل ہے جنہیں سانئسی زبان
میں میوٹیشن کہتے ہیں۔یہی وجہ ہے برطانیہ اور دیکر کچھ ممالک میں کورونا
وائرس کی نئی اقسام سامنے آئی ہیں۔ کائنات میں تبدلیوں کا عمل ہمیشہ سے
جاری رہتا ہے اور نت نئی چیزیں بنتی رہتی ہیں اس طرف قرآن حکیم کی سورہ نحل
کی آیت 8 میں ہے کہ اﷲ کائنات میں ایسی چیزیں پیدا کرتا رہتا ہے جن کا
تمہیں علم نہیں۔ اسی حقیقت کو سورہ فاطر کی پہلی آیت میں یوں کہا کہ اﷲ
کائنات کی تخلیق میں اضافہ کرتا ہے اور نئی چیزیں معرض وجود میں آتی ہیں۔
کورونا وائرس سے بچنے کا سنہری اصول سماجی فاصلہ رکھنا ہے۔ حقیقت میں یہ
اصول رسول اکرمؐ نے دیا ہے کہ جب بھی جذام کے مریض کو دیکھو تو اس سے دور
بھاگو اور اگر کہیں سامنے آجائے تو ایک نیزے تقریبا ایک میٹر کا فاصلہ رکھو۔
آپ نے قرنطینہ کا اصول بھی بتایا کہ جہاں طاعون پھیلا ہو وہاں سے نہ نکلو
اور دوسرے لوگ اس بستی میں نہ جائیں جہاں یہ مرض پھیلا ہو۔ اس قدر روشن
تعلیمات کے باوجود ہم ٹونے ٹوکٹوں اور وظیفوں کے چکر میں پڑے ہیں۔
ابتدا میں جب کورونا وائرس کا پھیلاؤ شروع ہوا تو اس وقت لوگوں میں خوف اور
احتیاط زیادہ تھی لیک جوں جوں وقت گذرتا گیا یہ احتیاط کم ہوتی گئی یہی وجہ
ہے کہ دوسری لہر نے دنیا کو زیادہ متاثر کیا ہے۔ یہ انسانی رویہ اور طرز
عمل سوئٹزرلینڈ کی ماہر نفسیات ، کوبلر راس کی تحقیق اور نظریہ کے مطابق ہے
کہ جب کوئی پریشانی کافی عرصہ رہتی ہے تو لوگ اسے قبول کرلتے ہیں کہ اس نے
اب تو یہ مسئلہ رہے گا ،س لئے لوگوں خوف اور احتیاط کم ہوجاتی ہے۔ سویڈن
میں کچھ ایسا ہوا ہے۔ سویڈن نے پوری دنیا سے مختلف پالیسی اختیار کی۔ نہ
لاک ڈاون اور نہ ماسک پہننے پر پابندی بلکہ لوگوں سے سماجی فاصلہ رکھنے اور
احتیاط برکتے کا کہا گیا۔ یہ حکمت عملی کامیاب نہیں ہوسکی اور سویڈن کے
اپنے ہمسایہ ممالک ناروے، ڈنمارک، فن لینڈ اور آئیس لینڈ کے مقابلے میں
کورونا وائرس سے اموات کی شرح بہت زیادہ ہے۔
ہم تمام تر احتیاطی تدابیر کے باوجود کورونا وائرس کا شکار ہوگئے اور اﷲ کا
شکر ہے کہ اس سے صحت مند ہونے کے بعد یہ سطور لکھنے کے قابل ہوئے ہیں۔ جب
سے کورونا وائرس حملہ آور ہوا تو حکومت کی جانب سے دی گئی احتیاطی تدابیر
پر عمل پیرا رہے۔ سماجی ملاقاتیں ، غیر ضروری سفر اور دیگر سرگرمیاں معطل
رہیں۔کام اور ضرویات زندگی کی خریداری کے علاوہ اورکوئی سرگرمی نہیں تھی
لیکن پھر بھی کورونا وائرس کا شکار ہوگئے۔ ابتداء میں گلے میں معمولی سی
خراش محسوس ہوئی اور پھر سانس کی نالی میں کسی چیز کی موجودگی کا احساس
ہوا۔ اس کے بعد دو روز تک تھکن کے علاوہ کوئی اور علامت محسوس نہ ہوئی۔ دو
روز کے بعد سردی سے ہلکا بخار شروع ہوا تو کورونا کا ٹیسٹ کروایا جو مثبت
آیا۔ اسی دروان اہلیہ اور بیٹے میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوگئی۔مزید دو دن
گزرنے کے بعد سردی کے ساتھ بخار اور شدید سر درد کا دور شروع ہوا اور پھر
پانچ روز بہت ہی مشکل میں گزرے۔ بہت سے کورونا کے مریضوں کے برعکس جسم میں
شدید درد، سونگھنے اور ذائقہ کی حس متاثر نہ ہوئی البتہ کھانسی خوب رہی۔ اس
دوران صرف پیرا سیٹا مول استعمال کی اور مالٹے کا جوس اور خوب پانی پینے کا
عمل جاری رکھا۔ ایک ہفتہ شدت برقرار رہنے کے بعد افاقہ ہونا شروع ہوگیا۔اﷲ
کے فضل و کرم سے بخار، سر درد اور سردی ختم ہوگئی لیکن کھانسی کا دور جاری
رہا۔ تمام علامات ختم ہوجانے کے بعد بھی ایک ہفتہ کے بعد طبیعت کی مکمل
بحال ہوسکی۔ قارئین سے یہی گذارش کرنا ہے کہ کورونا وائرس کو بہت سنجیدگی
سے لیں اور بہت زیادہ احتیاط کریں۔ صرف انتہائی ضرورت کے تحت کسی سے ملیں
اور اس میں بھی تمام تر احتیاطیں ملحوظ خاطر رکھیں۔ جان ہے تو جہان ہے۔
زندگی ہے تو سب کچھ ہوگا۔ اپنا اور اپنے اہل خانہ کا خیال رکھیں اور اگر
خدانخواستہ کسی کو رونا وائرس کا حملہ ہوجائے تو فورہ طور پر قرطینہ
ہوجائیں تاکہ دوسرے محفوظ رہیں۔اگر سانس لینے میں دشواری محسوس ہو تو فوری
طور پر ہسپتال سے رابطہ کرکے طبی امداد لیں۔ اﷲ تعالیٰ پوری انسانیت کو اس
موذی مرض سے محفوظ رکھے۔ مجھے ان تمام احباب کا بھی شکریہ ادا کرنا ہے
جنہوں کے بیماری کے دوران خبر گیری۔ قارئین کو نئے سال کی مبارک باد دیتے
ہوئے دعاہے کہ اگلا سال انسانیت کے لئے امن و سکون کا سال ہو اور کورونا
وائرس جیسے موذی دشمن سے نجات مل جائے۔
|