ہماری ایک پڑھی لکھی خوبصورت اور شہر کے ایک مہنگے اور
پوش علاقے میں رہائش پذیر فرسٹ کزن کی شادی اس کے باپ اور چچا نے زبردستی
اپنے ایک بھانجے سے کر دی تھی ۔ لڑکے میں ایک جسمانی نقص تو تھا ہی مگر
مالی حیثیت بھی اچھی نہ تھی وہ ایک معمولی سا دوکاندار تھا اور اس کا گھر
بھی قریب ہی واقع ایک کچی آبادی کی تنگ و تاریک گلی میں تھا ۔ کسی طرح بھی
میل جوڑ نہیں بنتا تھا مگر گھر کا لڑکا کہہ کر خود اپنی لڑکی کو تجربے کی
بھٹی میں جھونک دیا گیا ۔ اس طرح کے بےجوڑ رشتے میں کہیں تو لڑکا اپنے
سسرال والوں کا احسانمند ہوتا ہے کہ انہوں نے مجھے اس قابل سمجھا ۔ میری
بےمائیگی کے باوجود اپنے جگر کا ٹکڑا میرے حوالے کیا اور کہیں وہ بےوجہ کے
احساس کمتری کا شکار ہو جاتا ہے ۔ اور یہ لڑکا بھی اپنے ماموں کا احسانمند
ہونے کی بجائے احساس کمتری کا شکار ہو گیا اور بیوی کو اپنی بدسلوکی اور
ذہنی تشدد کا نشانہ بنانے لگا ۔ اور پھر اسے مزید بدتر بنانے اور بیوی سے
بدظن کرنے میں اس کی ماں بہنوں نے بھی کوئی کسر اٹھا نہ رکھی حتیٰ کہ لڑکی
کے ساتھ مار پیٹ تک کرنے لگیں ۔ جبکہ انہی حالات میں ایک بیٹا بھی ہو چکا
تھا مگر صورتحال میں بہتری نہ آئی ۔
لڑکی کی طرف سے کورٹ میں خلع کا کیس دائر کر دیا گیا ۔ اور کمرہء عدالت
میں بیٹھے جج نے یہ تاریخی الفاظ ادا کیے ۔ بیٹا! آج کل تو کوئی کنواریوں
کو نہیں پوچھتا وہ گھروں میں بیٹھی رشتوں کے انتظار میں بوڑھی ہو رہی ہیں ۔
ایسے میں تم ایک بچے کے ساتھ کہاں جاؤ گی اور کیا کرو گی؟ لڑکی نے بھی یہ
کہہ کر تاریخ رقم کر دی کہ جج صاحب! اگر آپ نے مجھے زبردستی اس شخص کے ساتھ
بھیجا تو میں خود کشی کر لوں گی ۔ سنا تھا کہ یہ سن کر جج پر سکتہ طاری ہو
گیا تھا ۔ پھر مصالحت کی ہر کوشش ناکام ہو گئی لڑکا معافی تلافی پر آمادہ
تھا مگر لڑکی نے صلح کی بجائے موت کو ترجیح دینے کے عزم کا اظہار کیا ۔ خیر
خلع کے بعد لڑکی کا ایک بہت اچھے خوشحال گھرانے کے پڑھے لکھے برسر روزگار
کنوارے لڑکے کا رشتہ آ گیا اور اسی بناء پر دھوم دھام سے شادی بھی ہوئی بچے
بھی ہو گئے ۔ اور وہ سابقہ شوہر آج تک جوتیاں چٹخاتا خجل خوار پھر رہا ہے
اس کا گھر خراب کرنے والی فسادی بہنیں اپنی اپنی دنیا میں مست مگن ہیں اور
اپنے اس پٹھو بھائی کو منہ بھی نہیں لگاتیں ۔
بالکل اسی طرح ہمارے ایک اور رشتہ داروں میں اپنے گھرانے کے اکلوتے چشم و
چراغ کی ایک بہت اچھے خاندان کی اعلا تعلیمیافتہ سلجھی ہوئی لڑکی سے شادی
ہوئی ۔ اور دونوں کو ہنستا بستا دیکھ کر حسد و بغض میں مبتلا ماں بہنوں نے
اپنی سازشوں اور شر انگیزیوں سے ان کا جینا حرام کر دیا یہاں تک کہ طلاق
کرا دی ۔ اس لڑکی کی بھی سال بھر کے اندر دوسری جگہ شادی ہو گئی ۔ اور یہ
موصوف بھی برسہا برس بیت جانے کے بعد بھی اب تک لنڈورے گھوم رہے ہیں کوئی
اپنا پرایا انہیں گھاس ڈالنے کو تیار نہیں ۔ اب کیا بتائیں ابو کے ایک
نہایت ہی کھڑوس اور نک چڑھے کزن کی شادی پتہ نہیں کیسے ایک بہت اچھی
خوبصورت اعلیٰ نسب لڑکی سے ہو گئی ۔ ان موصوف نے بھی اپنی اوقات سے بڑھ کر
عطا ہونے پر خدا کا شکر گذار ہونے کی بجائے اپنی جہالت اور نفسیاتی پن سے
بیوی کی زندگی اجیرن کر دی بالآخر اسے چار بچوں سمیت چلتا کر دیا ۔ جب ہم
نے یہ سنا تو بہت دھچکا لگا اور بےاختیار دل نے کہا یا اللہ! کس بےغیرت
خاندان میں پیدا فرما دیا ۔
دو اور جوڑے ہیں چاروں جنے ہمارے فرسٹ کزن ہیں اور کئی برسوں سے گھریلو
ناچاقیوں اور اختلافات کی بناء پر ایکدوسرے سے الگ تھلگ لا تعلقی کی زندگی
گذار رہے ہیں ۔ لڑکیوں کو بچوں سمیت ان کے بھائی پال رہے ہیں اور لڑکوں کی
کمائی ان کی بیاہتا بہنیں کھا رہی ہیں بجائے صلح صفائی کرانے کے ۔ وہ بھلا
کیوں چاہیں گی کہ بھائی کا گھر بسے اور ان کا لنگر خانہ بند ہو ۔ دور دور
تک بہتری کے کوئی آثار نظر نہیں آتے ۔ اور ایک نام نہاد بندھن پر لعنت
بھیجنے میں کوئی بھی فریق پہل کرنے کو تیار نہیں ۔ مرد اگر پڑھے لکھے اور
کماؤ ہونے کے باوجود عقل سے پیدل ہوں اور اپنی ماں بہنوں کے ہاتھوں کٹھ
پتلی بنے ہوئے ہوں ان کے اشاروں پر ناچتے ہوں تو ان کے گھر بس کے بھی نہیں
بستے ۔ ان کی بیویاں ایسے ہی ان کی زندگی ہی میں بیوگی کا مزہ چکھتی ہیں
اور بچے یتیمی کا ۔ کہنے کو تو اور بھی بہت کچھ ہے اپنوں کے علاوہ غیروں
پرایوں میں سے بھی بیشمار مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں مگر ابھی کے لیے
اتنا کافی ہے ۔ ہماری اس تحریر میں پڑھنے والوں کے لیے کچھ پیغام ہے اگر
سمجھیں تو ۔ ایک تو یہ کہ رشتہ طے اور شادی ہمیشہ اپنے جیسوں برابر والوں
میں کریں طبقاتی تفریق بہت سے مسائل کو جنم دینے کا سبب بن جاتی ہے ۔ دوسرا
یہ کہ والدین کی اگر ماضی میں جن رشتہ داروں یا کسی بہن بھائی سے ناچاقی
اور نااتفاقی رہ چکی ہے تو ان کے ہاں ہرگز شادی نہ کریں ۔ اور اگر تو آپ کی
بیوی ایک معقول سلجھی ہوئی نیک خاتون ہے مگر آپ کی ماں اس کی کارکردگی سے
مطمئین نہیں ہے تو معاملات کو مینیج کرنے اور ماحول کو بہتر بنانے کی پوری
پوری کوشش ہمیشہ جاری رکھیں مگر اپنی شادی شدہ بہنوں کو اپنے گھر کے
معاملات میں مداخلت کرنے اور اپنی بیوی پر حکومت کرنے کی ہرگز اجازت نہ دیں
۔ آپ کی منکوحہ ان کی رعایا نہیں ہے اسے عزت اور تحفظ دیں ۔ اگر استطاعت ہو
اور آپ کی جیب اجازت دیتی ہو تو علیحدہ رہائش کا بند و بست کریں اپنی جنت
پکی کرنے کے چکر میں بیوی بچوں کو جوائنٹ کے جہنم کا ایندھن نہ بنائیں ۔
بہت ہی ہولناک صورتحال ہوتی ہے کہ پردیس میں اپنا خون پسینہ ایک کر کے اپنے
پورے گھرانے کا خرچ چلانے والے تک خود اپنے بیوی بچوں کو ان کی زندگی جینے
نہیں دے سکتے ۔ وہ صرف قربانیاں دینا جانتے ہیں رشتوں اور ذمہ داریوں کے
درمیان توازن رکھنا نہیں ۔ بس اتنا جان لیں کہ جہاں خدا کا خوف نہیں ہوتا
وہاں انصاف بھی نہیں ہوتا ۔ |