متنازع کسان بل پر ماہرین معاشیات کے درمیان اسی طرح کا
اختلاف ہےجیسے حکومت اور کسان رہنماوں کے درمیان ہےاس لیےآٹھویں بار گفت و
شنید ناکام ہوگئی۔ سوال یہ ہے کہ آخر کسان وزیر زراعت نریندر تومر کی یقین
دہانیوں پر اعتماد کیوں نہیں کرتے ؟ عام شہری یا کسان نہ تو اعدادو شمار کے
جھمیلے میں پڑتا ہے اور نہ نظریاتی و مباحث میں الجھتا ہے۔ وہ اپنی آنکھوں
کے سامنے رونما ہونے والے واقعات کو بسروچشم دیکھتا ہے۔ اس کی روشنی میں
اپنی رائے بناکر فیصلے کرتا ہے۔ پچھلے دنوں وقوع پذیر ہونے والے واقعات پر
ایک غائر نظر مذکورہ سوال کا جواب پانے کے لیے کافی ہے۔28 مئی کو 2020 وزیر
اعظم کے دفتر سے اعلان کیا گیا کہ گزشتہدو مہینے کے دوران پردھان منتری
کسان سمان ندھی اسکیم کے تحت 19 ہزارکروڑ روپے سے زیادہ کی رقم جاری کرکے
جملہ 9 کروڑ 67 لاکھ کسانوں کو فائدہپہونچایا گیا نیز پردھان منتری غریب
کلیان یوجنا‘PM-GKY کے تحت تقریباً تیرہ کروڑ 40 لاکھ لوگوں کو دالیں تقسیم
کی گئیں۔
زمینی حقیقت یہ تھی کہ اتر پردیش کے مظفر نگر میں 5 جون کو تھانہ بھورا
کلاں کے علاقے سیسولی قصبے میں رہنے والے کسان اومپال کی لاش درخت سے لٹکی
ہوئی ملی ۔ یہ سانحہ اگر مغربی بنگال یا تلنگانہ میں رونما ہوتا تو مرکزی
حکومت یہ کہتی کہ صوبائی سرکار نے اپنے کسانوں کو وزیر اعظم کی مدد سے
محروم رکھا لیکن یہ معاملہ یوگی کے اتر پردیش میں پیش آیا ۔ بی جے پی
رہنما بڑی ڈھٹائی کے ساتھ کسانوں کی خودکشی کے لیے خاندانی تنازعات کو موردِ
الزام ٹھہرا کر اپنا پلہ جھاڑتے ہیں لیکن اس معاملے میں سرکاری عہدیداروں
نے بتایا کہ کسان کورونا وائرس کی وبا کے درمیان نافذ کیے گئے لاک ڈاؤن کی
وجہ سے مبینہ طور پر اپنا گنا فروخت نہیں کرسکا اس لیے خودکشی کرلی ۔ اس
واقعہ سے ناراض کسانوں نے احتجاج کرکے مطالبہ کیا کہ شکر کارخانوں کے حکام
پر کاشتکاروں سے گنے کی خریداری میں کوتاہی پر مقدمہ درج کیا جائے۔ اپنے
مطالبات کی تکمیل تک اترپردیش کے کسانوں نے روڈ بند کرکے لاش کی آخری
رسومات کرنے سے انکار کردیا۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ مذکورہ احتجاج پنجاب
یا ہریانہ کے کسانوں کا نہیں تھا۔
مظفر نگر کے احتجاج کوحزب اختلاف کے بہکاوے میں آنے کا الزام نہیں دیا گیا
بلکہ مرکزی وزیر سنجیو بالیان اورمقامی ایم ایل اے امیش ملک نے وزیر اعلی ٰ
یوگی سے گفتگو کے بعد انتظامی عہدیداروں کے ذریعہ متاثرہ افراد کے لواحقین
کو 10 لاکھ روپے کی مالی امداد فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی۔ اومپال
کے اہل خانہاس کے بعدہی آخری رسومات پر راضی ہوئے۔ اس کے بعد اپنی عادت کے
مطابق مرکزی وزیر سنجیو بالیانو امیش ملک نے قلابازی کھاکر ڈی ایم کے بیان
کو مسترد کیا اور خودکشی کی وجہ گنا نہیں ہے بلکہ یہ زمینی تنازع بتا یا ۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر زمینی تنازع میں کوئی کسان خودکشی کرلے تو آخر مرکزی
وزیر کا اس بابت وزیر اعلیٰ سے بات کرکے 10 لاکھ روپے کی مالی امداد فراہم
کرنے کا جواز کہاں سے نکلتا ہے؟آئین ہند کے مطابق خودکشی جرم ہے، اگراس کی
وجہ سرکاری کوتاہی نہ ہو تو تو اس کاارتکاب کرنے پر ہرجانہ کیوں دیا گیا؟
یہ معاوضہ دہلی کی سرحد پر احتجاج کرتےہوئے خودکشی کرنے والے کسانوں کیوں
نہیں دیا گیا۔ جھوٹ اسی طرح کے تضاد سے پکڑا جاتا ہے۔ اس وقت بھارتیہ کسان
یونین کے سربراہ نریش ٹکیت نے کہا تھا کہ لاک ڈاون کے دوران مصنوعات کو
مناسب قیمتوں کی عدم فراہمی کے سبب کسانوں کو مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ
رہا ہے۔
اس واقعہ سے ظاہر ہے کہ پنجاب اور ہریانہ کے علاوہ دیگر صوبوں کے کسانوں
میں بھی متنازع بل کے پہلے سے بے چینی پائی جاتی تھی ۔ ماہِ ستمبر میں نئے
قوانین نے اس آگ پر تیل کا کام کیا اور آتش فشاں پھٹ پڑا۔ حکومت کو یہ
توقع تھی کہ کورونا کی وباء کے خوف سے کوئی احتجاج نہیں ہوگا اور بات آئی
گئی ہوجائے گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ کسان اپنی جان کو جوکھم میں ڈال کر
سڑکوں پر اتر آئے اور دہلی کا ناطقہ بند کردیا ۔ اس سےسرکار کے ہوش اڑ گئے
اوراس نے نہایت سنگین مسئلہ کو سنجیدگی سے حل کرنے کے بجائے مظاہرین کو
لباس سے پہچان کر اپنے چہیتے میڈیا کے ذریعہ خالصتانی قرار دے دیا۔ اس سے
بات نہیں بنی تو کرائے کے احتجاجی کہہ کر بہتان طرازی شروع کردی ۔ یہ سارے
حربے جب ناکام ہو گئے تودہلی کی سرحد پر بیٹھے کسانوں سے بات چیت کرنے کے
بجائے گجرات میں جاکر سکھ کسانوں سے گفت و شنید کی اور حزب اختلاف پر
کسانوں کو بھڑکانے اور گمراہ کرنے کا الزام عائد کردیا۔
گجرات میں مودی جی نے اعلان کیا کہ حکومت کسانوں کی فلاح و بہبود کےلیے
پرعزم ہے تاہم ان کے تمام خدشات کو دور کرنے کےلیے تیار ہے۔ خدشات دور
کرنےکے لیے کسان رہنماوں کے ساتھ بیٹھ کر بات چیت نہیں کرنے کے بجائے سج
دھج کے وزیر اعظم گرودوارہ رکاب گنج گئے اور ٹیلی ویژن کیمرے کے سامنے
ماتھا ٹیکا ۔ وزیر اعظم کو سمجھ لینا چاہیے کہ اب یہ نوٹنکی بہت گھس پٹ چکی
ہے اس لیے کوئی اس ڈرامہ بازی سے متاثر نہیں ہوتا۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ
ہے کہ گجرات کے اندر سوریہ اودے یوجنا کے تحت کسانوں کو فائدہ پہنچانے کے
لیے وزیر اعظم نے ۲۲ اکتوبر کومہیسا گر ضلع کا بھی انتخاب کیا اور وہیں
بلونت سنگھ نامی کسان نے پنچایت کے دفتر میں خودکشی کرلی ۔ گجرات کا
زعفرانی بلونت سنگھ بھی اگر وزیر اعظم پر اعتماد نہیں کرےتوکانگریس کے
ذریعہ کسان کے کندھے پر بندوقرکھ کر چلانے کا الزام کیا معنیٰ رکھتا ہے؟
بلونت سنگھ کی وصیتکا یہ جملہ کہ ’میری روح بی جے پی کے ساتھ ہے لیکن چونکہ
میں غریب ہوں اس لیے کوئی میری مدد نہیں کرتا‘ وزیر اعظم کے سارے کھوکھلے
دعووں کی پول کھول دیتا ہے۔
|