کورونا کی وباء دسمبر ۲۰۱۹ کے اندر چین میں پھوٹی ۔ اس
لیے توقع تو یہ تھی کہسن ۲۰۲۰ میں سیاسی شعبدہ بازی کے اندرکمی آئے گی
لیکن ایسا نہیں ہوا۔ وطن عزیز میں اس سال اتنے سارے سیاسی واقعات رونما
ہوئے کہ ان کا ایک مضمون میں احاطہ کرنا مشکل ہے۔ ہندوستان میں کورونا کے
پہلے مریض کی شناخت ۳۰ جنوری ۲۰۲۰ کو ہوگئی تھی لیکن وہ پورا مہینہ دہلی کے
انتخابی مہم کی نذر ہوا۔ وزیر اعظم سے لے کر وزیر داخلہ تک سبھی نے اس میں
بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور پھر بھی اطمینان نہیں ہوا تو اترپردیش سے یوگی کو
بلا کر نفرت و عناد پھیلانے کا کام کیا گیا۔ فروری کے پہلے ہفتے میں پولنگ
ہوئی اور بی جے پی شکست و ریخت کا سلسلہ پھر سے جاری ہوگیا ۔ ۲۰۱۹ کا خاتمہ
جھارکھنڈ کی کراری ہار پر ہوا تھا اور ۲۰۲۰ کی ابتداء دہلی کی شکست فاش سے
ہوگئی۔ اس ناکامی سے توجہ ہٹانے کے لیے کورونا سے بے نیاز وزیر اعظم اچانک
وزارتِ اقلیتی امور کے زیر اہتمام ہنر ہاٹ میں لٹی چوکھا کھانے اور کلہڑ
میں چائے پینے کے لیے پہنچ گئے ۔ بی جے پی نمستے ٹرمپ میں جٹ گئی اورمیڈیا
نے بھی اپنی ساری توجہ احمد آباد پرمرکوز کردی ۔
ٹرمپ کی واپسی کے بعد مارچ میں جبہولی کا تہوار آیا تو وزیر اعظم اس بابت
قدرے سنجیدہ ہوئے ۔ انہوں نے ایک ٹویٹ میں لکھا :’’دنیا بھرکے ماہرین نے
مشورہ دیا ہے کہ نوویل کورونا وائرس کے پیش نظر لوگوں کے اجتماع میں کمی کی
جائے اس لیے وہ ہولی ملن کے کسی بھی پروگرام میں شریک نہیںہوں گے‘‘۔ مودی
جی کو اپنی صحت کا تو خیال آیا لیکن وہ اپنی عوام کے لیے ذرہ برابر فکرمند
نہیں ہوئے اور نہ انہیں بھیڑ بھاڑ سے بچنے کا مشورہ دیا۔ اس دوران وزیر
داخلہ مدھیہ پردیش کی کمل ناتھ سرکار گرانے میں مصروف تھے ۔ انہیں اس بات
کی مطلق فکر نہیں تھی کورونا جیسی خطرناک وباء نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ
میں لے لیا اور وزیر داخلہ کی حیثیت سے اپنی عوام کا خیال رکھنا ان کی
اولین ذمہ داری ہے۔
اس وقت تک دنیا کے بہت سارے ممالک میں تالہ بندی ( لاک ڈاون ) لگا دیا گیا
تھا مگر شاہ جی چاہتے تھے اتنی محنت سے کانگریسیوں کو توڑ کر ساتھ ملایا ہے
تو شیوراج سنگھ چوہان کی پھر سے تاجپوشی کے بعد ہی کورونا سے نمٹا جائے ۔
آگے چل کر یہ بات ثابت ہوگئی کہ سیاسی بخار کے آگے کورونا کی کھانسی پر
کوئی دھیان نہیں دیتا۔ مشکل یہ تھی کہ کورونا کے سبب اگر مدھیہ پردیش کی
حکومت سازی ٹل جاتی تو بعید نہیں کہ ارکان اسمبلی کا پھر سے من پریورتن
ہوجاتا اور ساری محنت مٹی میں مل جاتی اس لیے ۲۳ مارچ کو حلف برداری ہوئی
اور ۲۴ کو مودی جی نے آکر بلا سوچے سمجھے یکلخت لاک ڈاون کا اعلان
فرمادیا۔ مدھیہ پردیش کی حکومت سازی کے دوران اگر لاک ڈاون سے ہونے والی
مشکلات کا اندازہ کرکے اس کو حل کرنے کی کوشش کی جاتی تو لاکھوں مزدوروں کو
سڑک پر نہ آنا پڑتا اور سیکڑوں کی جان راستے میں نہیں جاتی لیکن جن
حکمرانوں کا اوڑھنا بچھونا سیاست اور اقتدار کی جوڑ توڑ ہو ان کو بھلا عوام
کی فلاح بہبود کا خیال کیونکر آسکتا ہے؟
یہ تو اس آزمائشی سال کی ابتدا تھی جس میں دہلی کے اندر دل دہلادینے والے
فرقہ وارانہ فسادات ہوئے اور اس سال کا اختتام کشمیر کے اندر دلخراش فرضی
انکاونٹر سے ہوا۔ کشمیر کے سیاسی منظر نامہ پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات صاف
نظر آتی ہے کہ کشمیر کے سیاسی رہنماوں نے جب حراست سے نکلنے کے بعد ایک
مشترکہ محاذ بناکر دفع ۳۷۰ کی بحالی تک انتخابی عمل سے دور رہنے کا فیصلہ
کیا تو اس میں بی جے پی کو اپنی سیاست چمکانے کا ایک نادر موقع دکھائی دیا۔
بی جے پی نے جموں کشمیر کے اندر اس امید میں ضلعی ترقی کونسل کے انتخابات
کا اعلان کیا کہ گپکار الائنس اس کا بائیکاٹ کرے گا ۔ اسبائیکاٹ کے باوجود
وہ انتخاب کروا کر اپنی کامیابی کا ڈھول پیٹے گی۔ بی جے پی کی انتخابی
کامیابی کو دفع ۳۷۰ کے خلاف ریفرنڈم قرار دے کر اپنی پیٹھ تھپتھپانے کا
موقع ملے گا۔ اس توقع کے خلاف گپکار نے انتخاب میں حصہ لینے کا اعلان کرکے
اس کے منصوبے کو خاک ملا دیا۔ بی جے پی کو امید تھی کہ کشمیر کی نشستیں
گپکار اور کانگریس میں تقسیم ہوجائیں گی اور وہ پورے جموں میں زعفرانی پرچم
لہرا کر اپنی فتح کا ڈنکا بجائے گی ۔ ایسا بھی نہیں ہوا۔ گپکار نے ۱۱۲
نشستیں حاصل کیں اور بی جے پی ۷۴ پر سمٹ گئی۔ اس نے جہاں کشمیر نے تین کمل
کھلائے تو نیشنل کانفرنس نے جموں میں ۳۶ ہل چلائے۔ اس انتخاب کا سب سے اہم
پیغام یہ ہے کہ جموں کی تمام نشستیں جیتنے والی بی جے پی اب ۱۰ میں سے ۴
ضلع گنواچکی ہے۔ اس کا اقتدار محض ۶ ضلعوں تک محدود ہوگیا ۔ ان انتخابی
نتائج کا سیاسی پیغام یہی ہے کہ کشمیر تو دور جموں میں بھی عوام کی بڑی
تعداد نے دفع ۳۷۰ کے خاتمے کا ٖفیصلہ نامنظور کردیا ہے ۔
کشمیر میں تین کمل کھلا کر اپنی مقبولیت کا دعویٰ کرنے والی بی جے پی نے
سال کے آخر میں وادی کے تین گلاب جیسے بے قصورنو جوانوں کا انکاونٹر کروا
کر اپنا کریہہ چہرہ دکھا دیا ۔ ان نوجوانوں کو فوج نے دہشت گرد قرار دیا
لیکن ان کے اہل خانہ اس کی تردید کرتے ہیں ۔ ان کے مطابق سرینگر سےبارہ
مولا جانے والی سڑک پر دہشتگردی نام پر ہلاک شدگان اعجاز،اطہراورزبیرجنگجو
نہیں تھے۔ پلوامہ میں رہائش پذیر24 سالہ اعجاز غنی کالج کا طالبعلم
تھا۔اطہر وانی تو گیارہویں جماعت پڑھتا تھا اور شوپیان کےزبیر لون کی عمر
صرف ۲۲ سال تھی۔جموں کشمیر پولیس کے پاس ان تینوں کے جنگجو ہونے کا کوئی
ریکارڈ موجود نہیں تھا اور نہ وہ سیکوریٹی فورسز کی لسٹ میں تھے۔ پولس
کمشنر دلباغ سنگھ کا کہنا ہے کہ یہ ضروری نہیں ہے ۔ یہ عجیب دعویٰ ہے کہ
پولس کی فہرست میں کسی دہشت گرد کا نام تک موجود نہ ہوپھر بھی اس کا
انکاونٹر کردیا جائے ۔ ان نوجوانوں کی اگر مشتبہ سرگرمیوں ملوث تھے تو ان
کو ہلاک کرنے کے بجائے گرفتارکرکے اصلاح کرنا چاہیے تھا ۔
مرکز کی بی جے پی حکومت اگر اس طرح کی قتل و غارتگری پر لگام لگانے کے
بجائے ان کی سرپرستی کرے گی تو قیامت تک کشمیریوں کا اعتماد حاصل نہیں
کرسکےگی اور دنیا کا کوئی انصاف پسند اس کے بلند بانگ دعووں پر بھروسہ نہیں
کرےگا۔اس سیاسی اٹھا پٹخ سے قطع نظر سال ۲۰۲۰ نے یہ سبق بھی سکھایا کہ
اکثریت حاصل کرکے کوئی جماعت ایوان پارلیمان میں من چاہا قانون تو منظور
کروا سکتی ہے لیکن عوام کا دل نہیں جیت سکتی ۔ یہی وجہ ہے کہ حیدرآباد
جانے والے وزیر داخلہ اور بہار جانے والے وزیر اعظم پچھلے ڈیڑھ سال کے اندر
وادی میں قدم نہیں رکھ سکے۔انتخابی مہم کے لیے انہیں مختار عباس نقوی اور
شاہنواز حسین جیسے ٹٹ پونجئے رہنماوں پر انحصار کرنا پڑا ۔ دہلی کی سرحد پر
بیٹھے کسانوں نے بھی انتخاب جیت کر اقتدار پر براجمان ہونے والوں کو بتا
دیا کہ اب سیاستدانوں کی من مانی برداشت نہیں کی جائے گی۔ اگر وہ ایسا کریں
گے توعوام ان کےخلاف میدان میں آجائیں گے اور سرکار کوان کے سامنے گھٹنے
ٹیکنے پڑنے پر مجبور ہونا پڑے گا جیسا کے کسانوں کے آگے جھکنا پڑ رہا ہے۔
|