مشرقِ وسطیٰ میں عرب حکمرانوں نے خطے میں امن و سلامتی کے
لئے ایک نئے دور کا آغاز کیا۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر
کی جانب سے قطر کے ساتھ تمام سفارتی تعلقات بحال کرلئے گئے ، قطر سے ان
ممالک نے 2017میں تعلقات ختم کردیئے تھے ۔امیر قطر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی
نے شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی جانب سے جی سی سی کانفرنس میں شرکت کے لئے دی
گئی دعوت کو قبول کرتے ہوئے جب جی سی سی سربراہ کانفرنس میں شرکت کے لئے
العلا پہنچے تو سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ان کا استقبال کیا۔
امیر قطر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی کی سعودی عرب آمد کے بعد مشرقِ وسطی میں
خوشی کی لہر دور گئی۔العلا قدیم مملکتوں کا سابق تجارتی دارالحکومت رہاہے ۔یہ
حجاز کی پہاڑیوں کے سائے میں ہے جو مغربی خطے کی لمبائی میں پھیلے ہوئے ہیں،
بتایا جاتا ہیکہ العلا ایک دور میں مصروف ترین شہر تھا جس کے اثرات جزیرہ
نمائے عرب اور اس سے بھی آگے تک پہنچے ہوئے تھے۔وادی العلا میں المرایا
کنسرٹ ہال میں یہ کانفرنس منعقد ہوئی جسمیں مہمانوں کے لئے پانچ سو نشستوں
کی گنجائش ہے ۔ العلا اس لئے بھی یاد رکھا جائے گا کہ سعودی عرب ، متحدہ
عرب امارات ، بحرین نے اپنے برادر ملک قطر کے ساتھ تعلقات بحال کرلئے ہیں
جس سے عالمِ عرب ہی نہیں بلکہ عالمِ اسلام و دنیا بھر کے لئے بہتر ثابت
ہونگے۔سعودی عرب نے قطر کے ساتھ واقع اپنی فضائی، برّی اور بحری سرحدیں
دوبارہ کھول دی ہیں ۔ کویت کے وزیر خارجہ احمد ناصر الصباح نے ٹیلی ویژن پر
نشر کئے گئے ایک بیان میں یہ بات بتائی اور انہوں نے کہاکہ یہ فیصلہ قطر کا
معاشی مقاطعہ ختم کرنے کیلئے امیر کویت شیخ نواف الاحمد الصباح کی پیش کردہ
تجویز کی روشنی میں کیا گیا ہے۔
سعودی ولیعہدشہزادہ محمد بن سلمان نے العلا میں جی سی سی سربراہ کانفرنس سے
خطاب کرتے ہوئے کہاکہ قطر کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے معاہدے میں
خلیجی، عرب اور مسلم اقوام کی سلامتی کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔ خلیج
تعاون کونسل کے 41ویں سربراہ اجلاس کی کامیابی پر شاہ سلمان بن عبدالعزیز
آل سعود نے سعودی کابینہ کے آن لائن اجلاس کے موقع پرجی سی سی کے رکن ممالک
کی قیادت ، وفود کے سربراہان اور اجلاس میں شریک شخصیات کا تہہ دل سے شکریہ
ادا کیا۔سعودی کابینہ نے واضح کیا کہ سعودی عرب جی سی سی تعاون کونسل کی
بقا اور سلامتی کے ساتھ خلیجی ممالک کے استحکام کیلئے کوشاں ہے۔ سعودی
کابینہ نے العلا میں سربراہ اجلاس کی کامیابی اور خطے کے امن و استحکام اور
عوام کی بہبود سے متعلق مشترکہ مفادات کو یقینی بنانے پر شاہ سلمان بن
عبدالعزیز اور ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کو مبارکباد پیش کی۔مشرقِ وسطی
کے عرب حکمرانوں نے 41ویں خلیجی سربراہ اجلاس میں شرکت کے بعد اپنے اپنے
خیالات کا اظہار کیا اس موقع پر امیر کویت شیخ نواف الاحمد الجابر الصباح
نے کہا کہ ’’العلا اعلامیہ خلیجی اور عرب اتحاد و اتفاق کے استحکام کا باعث
بنے گا، انہو ں نے کہا کہ اعلامیہ تاریخی کامیابی اور پائیدار اتحاد و
یکجہتی کے معاہدے پر مشتمل ہے۔ العلا اعلامیہ کو انہوں نے خلیجی اور عرب
ملکوں کا کارنامہ قرار دیا اور کہا کہ سربراہ اجلاس کے تعمیری فیصلوں سے
خلیجی تعاون کونسل کا کارواں مستحکم ہوگا ، اجلاس کے فیصلوں سے خلیجی ممالک
اور ان کے عوام کے اہداف اور آرزوئیں پوری ہونگی۔متحدہ عرب امارات کے نائب
صدر شیخ محمد بن راشد نے العلا سربراہ اجلاس سے متعلق کہا کہ یہ خلیجی عوام
کے مفاد کیلئے اخوت اور تعاون کا جذبہ گہرا کیا ہے ، انہوں نے اس کیلئے شاہ
سلمان بن عبدالعزیز اور شہزادہ محمد بن سلمان کو خراج تحسین پیش کیا۔ شیخ
محمد بن راشد نے بانی امارات شیخ زاید کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے
پہلے خلیجی سربراہ اجلاس کی ضیافت 1981ء میں ابو ظہبی میں کی تھی ، انہوں
نے کہاکہ آج یہ کارواں مضبوط ہورہا ہے اور آپس میں بھائی چارگی کے رشتے
مضبوط ہورہے ہیں اور ہمارے عوام کے مفاد کی خاطر تعاون کا جذبہ نئی شکل میں
ابھر رہا ہے۔
بحرین کے فرمانروا شاہ حمد بن عیسی آل خلیفہ نے العلا سربراہ کانفرنس کو
کامیاب بنانے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے پر سعودی عرب کو خراجِ
تحسین پیشکیا ، انہوں نے کہا کہ سعودی عرب سے متعلق کہا کہ خلیجی جدوجہد کے
کارواں کو نئی جہت دینے میں سعودی عرب کا کردار قائدانہ ہے ،جسے وہ قدرو
منزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔انہوں نے شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور شہزادہ
محمد بن سلمان کو مبارکباد پیش کی اوراس ایقان کا اظہار کیا کہ انکی کاوشوں
کی بدولت مشترکہ خلیجی جدوجہد اور باہمی تعاون مضبوط ہوگا۔ ذرائع ابلاغ کے
مطابق مصر ی دفتر خارجہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ’مصر نے العلا اعلامیہ پر
اس جذبے سے دستخط کئے ہیں کہ مصر چار عرب ملکوں کے درمیان اتحاد و اتفاق کا
ہمیشہ خواہاں رہا ہے، مصر اور اس کے اتحادی خطے کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے
کیلئے مشترکہ عرب جدوجہد کے استحکام کیلئے کام کرتے رہنے کے عزم کا اظہار
کیا اور اپنے بیان میں مصر نے قطر کے ساتھ عرب ملکوں کی مصالحت کرانے والے
تمام فریقوں خصوصاً کویت کیلئے قدرو منزلت کا اظہار کیا۔
سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان نے جی سی سی سربراہ اجلاس کے اختتام کے
بعد اپنے مہمان امیر قطر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی کو کار کے لئے العلا کی
سیر کرائی۔ اس موقع پر انہو ں نے مدائن صالح لے گئے جس کے شمال مشرق میں
اسلب نامی پہاڑ واقع ہے ، سیاح جبل اسلب پر چڑھ کر مدائن صالح کے دلکش منظر
کا نظارہ کرتے ہیں اور کہا جاتا یہاں آنے والے خود کو پرسکون محسوس کرتے
ہیں۔ ان تمام مقامات کی شہزادہ محمد بن سلمان نے امیر قطر کو سیر کرائی ۔
اس سیاحت کے بعد دونوں ممالک کے عوام نے اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا اور
دونوں برادر ملکوں کے درمیان مصالحت کی روشن علامت قرار دیا۔
سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان اور جی سی سی کے سکریٹری جنرل ڈاکٹر
نائف الحجرو نے 41ویں خلیجی سربراہ اجلاس کے اختتام پر مشترکہ پریش کانفرنس
سے خطاب کیا۔ اس موقع پر شہزادہ فیصل بن فرحان نے بتایاکہ ان تمام ممالک نے
اپنے اختلافی مسائل کو حل کرتے ہوئے تعلقات بحال کرلئے ہیں انہوں نے کہا کہ
’’نیک نیتی کا تقاضا ہے کہ ہم بھروسہ کریں کہ معاہدہ تعلقات کے استحکام کے
سلسلے میں سنگ میل ثابت ہوگا‘‘شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہاکہ العلا اعلامیہ
نے خلیجی ممالک کے امن و امان کو خطرات پیدا کرنے والے فریقوں کی مزاحمت کا
عزم ظاہر کیا ہے۔متحدہ عرب امارات کے وزیر مملکت برائے امور خارجہ انور
قرقاش کے مطابق خلیج عرب کے ممالک قطر کے ساتھ تجارت اور سفری تعلقات ایک
ہفتے کے اندر بحال کرلیں ، اس دوران پروازوں، سمندری کارگو اور کاروبار سے
متعلق اقدامات طے کئے جائیں گے۔اب دیکھنا ہیکہ قطر پر عائد تمام پابندیوں
کے خاتمہ کے بعد ایران، اور ترکی کے ساتھ قطر کے تعلقات کس طرح رہتے ہیں۔
جبکہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین، مصر کی جانب سے قطر کے ساتھ
سفارتی تعلقات ختم کئے جانے کے بعد قطر کو ترکی اور ایران نے بھرپور ساتھ
دیا اور شاید قطر اپنی مصیبت کی اس گھڑی کو یاد رکھے گا۔ خیر مشرقِ وسطی
میں امن و سلامتی اور اتحاد واتفاق کیلئے ان ممالک کا اتحاد دشمنانِ اسلام
کیلئے مایوسی ہوگا اور دیکھنا ہے کہ مستقبل میں دشمنانِ اسلام پھر کیا نئی
بساط بچھاتے ہیں۰۰۰
افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات
افغانستان میں طالبان یا دیگر شدت پسند گروپوں یا افراد کی جانب سے حملے
جاری ہیں ۔ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ
پانچ جنوری سے قطر میں شروع ہوا ہے۔ گذشتہ کئی ماہ سے بات چیت کا سلسلہ
جاری رہنے کے باوجود افغانستان میں امن و سلامتی کی فضا بحال نہیں ہوئی۔
آئے دن کہیں نہ کہیں حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق بتایا
جاتا ہیکہ 5؍ جنوری سے شروع ہونے والی بات چیت میں افغان حکومت کے مذاکرات
کار ملک میں مستقل جنگ بندی اور 2001میں طالبان حکومت کی برطرفی کے بعد سے
قائم موجودہ نظام حکومت کو برقرار رکھنے پر زور دیں گے۔واضح رہے کہ امریکی
قیادت نے 9/11کے واقعہ کے بعد اتحادی افواج کے ساتھ ملکر افغانستان کی
طالبان حکومت کو ختم کرنے کیلئے جنگ کا آغاز کیا تھا اور آج اسی کا نتیجہ
ہے کہ طالبان حکومت تو ختم ہوگئی لیکن ملک میں امن و سلامتی کی فضا آج تک
قائم نہ ہوسکی۔ اب دیکھنا ہیکہ موجودہ مذاکرات سے کیا نتیجہ نکلتا ہے ملک
میں امن و سلامتی کیلئے جنگ بندی ناگزیر ہے اور اگر طالبان موجودہ حکومت کو
مانتے ہوئے ملک میں اس نظام کو بحال رکھنے کی تائید کرینگے تو ہوسکتا ہیکہ
ملک میں امن و سلامتی بحال ہوگی ورنہ مستقبل میں بھی حملوں کا سلسلہ جاری
رہیگا اور انسانیت کا قتل عام ہوتا رہے گا۰۰۰
تیل کی قیمتوں میں اضافہ
سعودی عرب نے تیل کی پیداوار کم کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ اوپیک ، روس اور
دیگر ممالک کے درمیان تیل کے پیداواری کوٹے سے متعلق غیر معمولی معاہدے پر
اتفاق ہوگیا جس کے تحت سعودی عرب نے یومیہ 10لاکھ بیرل تیل کی پیداوار کم
کرنے کا اعلان کیا ہے جو دوماہ تک جاری رہے گی۔ سعودی عرب کی جانب سے تیل
کی پیداوار کم کرنے کا اعلان ہوتے ہی قیمتوں میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا ہے۔
امریکی خام تیل کی قیمت میں پانچ فیصد اضافہ بتایا جارہا ہے جس کے باعث فی
بیرل 50ڈالر ہوگیا ۔ دیگر ممالک کی جانب سے سعودی عرب کے اقدام کا خیر مقدم
کیا جارہا ہے جس سے تیل کی مارکیٹ کو استحکام حاصل ہوگا ۔سعودی وزیر
توانائی شہزادہ عبدالعزیز بن سلمان نے صحافت کو بتایاکہ یہ اقدام معیشت کو
سہارا دینے کیلئے کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب نے خیر سگالی کے
تحت تیل کی پیداوار میں کمی لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق
بتایا جارہا ہیکہ سعودی عرب کے تیل کی پیداوار کم کرنے کے اعلان کے بعد تیل
کی قیمتوں میں تیزی دیکھنے میں آرہی ہے جو کہ گذشتہ سال فبروری کے بعد سے
اب تک نہیں دیکھی گئی ۔
یمن کی جنگ سے انسانیت شرمشار
یمن خانہ جنگی کا آغاز مارچ2015میں شروع ہوا تھا تاحال یہ جنگ ابھی بھی
جاری ہے البتہ اس میں شدت کچھ کم دکھائی دیتی ہے۔ یمن کے صدر عبد ربہ منصور
ہادی کے خلاف حوثیوں نے بغاوت کرتے ہوئے یمن کے دارالحکومت صنعا پر قبضہ
کرلیا تھا ۔صدر یمن منصور ہادی نے سعودی عرب سے مدد مانگی تھی ۔ جس کے بعد
سعودی عرب کی قیادت میں حوثی بغاوت کو کچلنے کیلئے یمن کے کئی علاقوں پر
سعودی اتحادی افواج نے حملے کئے ان حملوں میں کئی بے قصور عام شہری بشمول
معصوم بچے خواتین وغیرہ بھی ہلاک ہوگئے۔ بعض اوقات ایسے موقعوں پر اور ایسی
جگہ سعودی اتحادیوں نے حملے کئے جسے سن کر روح کانپ اٹھتی ہے۔ کبھی کسی کی
آخری رسومات کے موقع پرتو کبھی شادی بیاہ کے موقع پر۰۰۰ خیر آج بھی یمن میں
اشیاء خوردونوش کی کمی ہے۔ یمن پہلے ہی سے معاشی طور پر پسماندہ ملک ہے اور
جب حوثی بغاوت کے بعد تو اس کا مزید بُرا حال ہوچکا ہے۔ یمن میں آج بھی لوگ
بُری حالت میں زندگی گزارہے ہیں ۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق یمن کے ایک ایسے
سات سالہ بچہ فید سمیم کی تصویر سامنے آئی ہے جس کا وزن صرف سات کلو گرام
ہے اور اس کا جسم ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ ہے۔اس تصویر نے انسانیت ہلاکر رکھ
دیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق اس بچے کے خاندان نے 105میل کا سفر طے کرکے یمن
کے دارالحکومت صنعاء کے السبین ہاسپتل میں بچے کو شریک کرایا ہے۔ جہاں اس
کا علاج جاری ہے۔ ہاسپتل کے ڈاکٹر راریگہ محمد کا کہنا ہیکہ ’’جب سمیم کو
ہاسپتل لایا گیا تو وہ مرنے کے قریب تھا تاہم اﷲ کا شکر ہے کہ اسکی جان بچ
گئی اور اب اس کی حالت دن بہ دن بہتر ہوتی جارہی ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ
شدید غذائی قلت کیوجہ سے وہ مفلوج ہوچکا تھا۔‘‘ یہ تو ایک بچہ کی تصویر
سامنے آئی ہے نہیں معلوم ایسے کتنے بچے اور افراد ہونگے جو ایسی خطرناک
حالت سے دوچار ہونگے۔
***
|