آرٹیکل میں ہزارہ کے مقتولین پہ ریاستی ردعمل کو دو سال
قبل نیوزی لینڈ میں ہوئی قتل غارت کے ساتھ موازنہ کرکے تجزیہ کیا گیا ۔
براہ مہربانی اشاعت کی خصوصی اجازت فرمائیں
نیوزی لینڈ بر اعظم آسٹریلیا کا ایک خوبصورت ملک ہے ۔جس کی پاکستان میں
واحد شناخت نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم ہے۔ مارچ 2019 میں نیوزی لینڈ کی ایک
اور شناخت ہمارے سامنے تب آئی جب ایک آسٹریلوی شخص نے نیوزی لینڈ کے شہر
کرائسٹ چرچ میں واقعہ دو مساجد کوتب نشانہ بنایا جب لوگ نماز کے لیے اکٹھے
ہو رہے تھے ۔ قاتل نے نے اپنی واردات کی ویڈیو بھی بنائی اور اسے سوشل
میڈیا پہ براہ راست نشر بھی کیا۔ بر بریت کی اس واردات میں 51 لوگ اپنی جان
سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ہمارے لیے یہ ایک روٹین کا واقعہ تھا کیونکہ پچھلی دو
دہائیوں میں ایسے کئی واقعات سے ہم گزر چکے ہیں ۔ہم نے کبھی ان واقعات کو
بھی اتنی اہمیت نہیں دی اسی لیے ایسے واقعات رک بھی نہ سکے۔ لیکن نیوزی
لینڈ کے لیے یہ قیامت صغریٰ ثابت ہوا۔ مرنے والے اگرچہ سبھی مسلمان تھے
لیکن مرنے والوں کا دکھ نیوزی لینڈ کے گھر گھر میں محسوس کیا گیا ۔
نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جسینڈا آرڈن نے واقعہ کی اطلاع ملتے ہی متاثرہ
مسجد پہنچی۔ انہوں نے لواحقین سے باری باری گلے لگ کر تعزیت کی۔ جمعہ کی
نماز میں شرکت کی اور اپنے مختصر خطبے میں نبی کریم ﷺ کی حدیث مبارکہ پڑھی۔
سانحہ کرائسٹ چرچ کے شہداء کو خراج عقید پیش کرنے کیلئے نیوزی لینڈ کے
سرکاری ٹی وی اور ریڈیو پر پہلی مرتبہ براہ راست اذان اور خطبہ نشر کیا گیا
اور اس موقع پر وزیراعظم جسینڈا آرڈن سمیت ہر کوئی آبدیدہ نظر آیا ۔
پارلیمنٹ کے اجلاس کا آغا ز آذان اور تلاوت ِ قران پاک سے کیا ۔مسلمانوں کی
جمعہ کی نماز میں ایک سے زائد بار شرکت کی۔اسلحہ کے قوانین میں فوری تبدیلی
لائیں۔ انہوں نے کہا کہ ملزم اس واقعہ کے ذریعے شہر ت کا خواہاں ہے۔ لیکن
وہ اسے اس مقصد میں کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گی اس لیے وہ اس کا نام کبھی
اپنی زبان پہ نہیں لائیں گی۔اس طرح ملزم سے نفرت کا اظہار قومی سطح پہ
کیا۔اورنہ صرف انصاف کی یقین دہانی کروائی بلکہ ملزم کا ٹرائل جلد مکمل کر
کے سزا بھی دلوائی۔اِس بہادر خاتون نے دُنیا بھر کو یہ درس دیا کہ خون کو
خون سے نہیں دھویا جا سکتا۔ دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے انسانوں کو انسان
سمجھنا ہو گا۔ زخموں پر مرہم لگانا ہو گا۔ نسل ، رنگ اور مذہب کی تمیز ختم
کرنا ہو گی۔ آج نیوزی لینڈ ہی نہیں پورا یورپ اپنے آپ کو پہلے سے کہیں
زیادہ محفوظ و مامون سمجھ رہا ہے۔ اس سارے واقعہ میں نیوزی لینڈ کی وزیر
اعظم جسینڈا آرڈن ایک ریاستی سطح پہ ماں کے طور پہ سامنے آئیں ۔
اب پاکستان کی طرف آئیے ۔ ہزارہ کی شیعہ برادری کو عرصہ دراز سے ان کی
مسلکی شناخت کے باعث نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ اب تک 115 سے زائد حملوں میں
ہزار سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں۔کچھ دن پہلے کان کنوں پہ ہونے والے
حملے میں 11 افراد شہید ہوئے جن کی تدفین تاحال نہیں ہو سکی کیونکہ لواحقین
لاشیں سڑک پہ رکھ کر کوئٹہ میں دھرنا دیے ہوئے ہیں کہ وزیر اعظم بذات خود
تشریف لا کر انصاف کی یقین دہانی کروائیں۔لواحقین کی سادگی کی اس سے بڑھ کر
اور مثال کیا ہو سکتی ہے کہ وہ یہ جانتے بھی ہیں کہ وزیر اعظم یقین دہانی
کے باوجو د کسی کے لیے انصاف میں کبھی بھی معاون ثابت نہیں ہوئے ۔چاہیے وہ
ساہیوال کا واقعہ ہو جس میں چھوٹے بچوں کے سامنے ان کے والدین کو ریاستی
اہلکاروں نے قتل کر دیا ہو یا درجنوں کم سن بچوں کو ریپ کے بعد قتل کرنے کے
واقعات ہوں۔ پھر بھی اسی وزیر اعظم صاحب سے ہی مطالبہ کر رہے کہ وہ انصاف
دلوائیں۔
وزیر اعظم صاحب کی اس اندہوناک واقعہ کو لیکر سنجیدگی کا عالم ملاحظہ کریں
کہ انہوں شیخ رشید صاحب کے ہاتھ پیغام بھجوا دیا کہ اپنے پیاروں کی لاشوں
کو دفنا دیں وہ فرصت ملنے پہ وہ خود بھی تشریف لائیں گے۔ شیخ رشید صاحب کو
کس حد تک سنجیدہ لیا جاتا ہے یہ وضاحت کرنے کی ہر گز ضرورت نہیں ہے۔اسلام
آباد کے سرد موسم میں ارباب اختیار بھی انتہائی سرد مزاج واقعہ ہوئے۔
مقتولین کے ورثا کو ریاستی تسلی نہ مل سکی جس کے وہ حقیقی حقدار ہیں ۔سوشل
میڈیا پہ عوام ان کے دکھ میں برابر کی شریک ہے لیکن یہ ایسے واقعات کا کوئی
معقول حل نہیں ہے۔
نیوزی لینڈ کی طرز پہ وزیر اعظم صاحب کو اسلام آباد میں سینٹ کے انتخابات
کے بندوبست ، اور بیرون ملک سے آئے ڈرامہ آرٹسٹ سے ملنے کی بجائے کوئٹہ میں
نظر آنا چاہیے تھا۔ واقعہ کی تحقیقات کے لیے اعلیٰ سطحی ٹیمیں تشکیل دی
جاتیں۔ ملزمان کو گرفتار کر کے جب تک سمری ٹرائل میں انہیں مثالی اور سر
عام سزائیں نہ مل جاتیں تب تک وزیر اعظم سیکریٹریٹ کوئٹہ میں ہی کام کرتا
رہتا ۔ پھر مستقبل کے لیے ریاست اپنے تمام لامحدود وسائل بروکار لاتے ہوئے
ایسے تمام ذرائع جن سے ایسے ناسور جنم لیتے ہیں ان کا سد باب کرے۔ ہر
معاملے میں ہمسایہ ممالک کو ذمہ دار قرار دے کر اگلے سانحے کا انتظار کرنا
کوئی پالیسی نہیں ہے۔ افغانستان کی جنگ کے نقطہ نظر سے تیار کیا جانیوالا
ذہن تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ آرمی چیف سمیت کئی اعلی ٰ عہددران افغان وار
میں پاکستان کے کردار کو نا مناسب کہہ چکے ہیں لیکن ضرورت ان پالیسیوں کو
بھی تبدیل کرنے کی ہے۔
اگر ریاست کا قاتلوں سے کچھ لینا دینا نہیں ہے تو پھر اس مسلسل نسل کشی پہ
قاتلوں سے لاعلم ہونا اور اس پہ اس حد تک لاچارگی اور خاموشی انتہائی معنی
خیز ہے۔ اگر ریاست کے علم میں ہے کہ اس سارے بندوبست کے پیچھے کون ہے اور
پھر بھی وہ اس طاقتور گروہ کے سامنے بے بس ہے تو یہ پہلی صورت سے بھی خطر
ناک صورت حال ہے۔ ان دونوں صورتوں میں ریاست کے اخلاقی اور قانونی جواز کو
شدید دھجکا لگتا ہے۔ کیونکہ ریاست کا وجود اسی معاہدے پہ قائم ہوتا ہے کہ
وہ آزادانہ معاشی سرگرمیوں جس میں عام آدمی کا استحصال نہ ہو کو فروغ دے
اور عوام کی زندگیوں کو اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے جان کا تحفظ فراہم
کرے۔پھر اسی کے نتیجے میں ریاست عوام سے اطاعت اور فرمانبرداری کا مطالبہ
کرتی ہے۔
ریاست ماں ہوتی ہے۔جو اپنے شہریوں سے ان کے مذہب اور مسلک کا پوچھے بغیر
اسے اپنی دھرتی سے رزق دیتی ہے۔ جس کی تازہ مثال جسینڈا آرڈن کی قیادت سے
حاصل کی جا سکتی ہے۔ ایک عیسائی اکثریت ملک کی پارلیمنٹ نے مظلوم سے ہمدردی
اور یکجہتی کے لیے اپنے مذہب کو بیچ میں آنے کا موقعہ فراہم نہیں کیا ۔
بلکہ اس کی آواز بننے میں فخر محسوس کیا ہے۔ آپ ریاست مدینہ بنا نے کے
دعویدار ہیں ۔ اگر وہ آپ کے بس میں نہیں ہے تو براہ مہربانی کچھ دیر کے لیے
ہی سہی نیوزی لینڈ ہی بن جائیں ۔ نیوزی لینڈ کے ماڈل کو اپنا لیں اور کوئٹہ
کی یخ بستہ سردی میں زندہ لواحقین کو ان کے پیاروں کے ساتھ دفن کرنے کی
بجائے زندگی کی امید دیں۔ |