نحوست اور نجاست

اِسلام ایک شجرسایہ دار جبکہ جمہوریت ایک آکاس بیل ہے۔مسلمانوں کی اجتماعی رفعت، عفت،عافیت اورفراز کارازنظام خلافت میں پہناں ہے۔پاکستان سمیت اِسلامی معاشروں کیلئے جمہوریت ایک نحوست اور نجاست سے زیادہ کچھ نہیں اوراس سے نجات کیلئے صادق جذبوں کے ساتھ "خلافت" کی طرف پلٹنا ہوگا ،جمہوریت کے مٹھی بھربچے جمورے یقینا" خلافت" کیخلاف ووٹ دیں گے کیونکہ اس جمہوریت میں ان کی جان ہے۔اس نظام جمہوریت کی کوکھ سے غدار،بدکردار،بدزبان ،بدعنوان،شعبدہ بازاورچورپیداہوئے کیونکہ جمہوریت ایک ایسا "شور"ہے جو " شعور"پرحاوی ہوگیا ۔آج ہم ناکام ہیں تواس کے پیچھے یہ جمہوری نظام ہے۔اس فرسودہ وبیہودہ نظام نے ہمیں ہماری بنیادوں سے کاٹ دیااور اسلامی اقدارکاخون چوس لیا ۔ یہ جمہوریت کسی اسلامی ریاست کو راس آئی نہ آئندہ ان کیلئے سودمندہو گی کیونکہ ہمارے ہاں اقتدارکی دوڑمیں شریک پارٹیوں کے اندر اخلاقی روایات کی علامات تک نہیں ہیں۔جمہوریت ایک" سراب" ہے جوجمہور کو"سیراب" نہیں کرسکتا۔موروثی اورمالیاتی سیاست کے بوجھ سے نظریاتی سیاست کی موت ہوگئی ہے،سرمایہ دار فطری طورپر"ڈیلر" ہوتے ہیں وہ زندگی بھر"لیڈر" نہیں بن سکتے جبکہ جمہوریت نے ملک وقوم کو"ڈیل" اور"ڈھیل "کے سواکچھ نہیں دیا۔اشرافیہ میں" نادہندہ" توبہت ہیں لیکن ان میں سے کوئی "نجات دہندہ" نہیں ہوسکتا۔"مال" نہیں "اعمال" میں کامیابی وکامرانی ہے،قومی سیاست میں سرگرم امیروں اورا ن کے اسیروں نے ریاست کو یرغمال بنالیا۔ملک اورمعاشرہ بچانے کیلئے سیاست میں ثروت کاکرداراورثروت مندوں کا اثرورسوخ محدودکرناہوگا ورنہ پاکستانیوں کوہوشربامہنگائی اوربے حیائی سے نجات نہیں ملے گی۔فوجی آمروں سے زیادہ سیاستدانوں اوران کے" چھندے" اور"چھچھورے "بچوں کے آمرانہ رویوں نے ریاست ،معیشت اورمعاشرت کونقصان پہنچایا ۔ مغرب برانڈجمہوریت نے" توحیدپرست "مسلمانوں کو"بت پرست "بنادیا۔ہندوستان میں پتھروں کے بت تراشے جاتے ہیں جبکہ پاکستان میں متعدد مٹی کے پتلے بت بنے بیٹھے ہیں ۔آج پاکستان میں کوئی عمران خان ،ایک حلقہ نواز شریف جبکہ ایک طبقہ ذوالفقارعلی بھٹوسمیت مرحومین کی پوجااور پرستش کرتا ہے ۔ جولوگ جمعتہ المبارک کے روزمساجدمیں امام کاخطاب اور خطبہ جمعہ سمیت اپنے شفیق ومہربان ماں باپ کی نصیحت سننا گوارہ نہیں کرتے وہ سیاسی اجتماعات میں شعبدہ بازوں کی طرف سے مسلسل کئی گھنٹوں تک جھوٹ ،غیبت،بہتان اور بکواسیات سنتے ہیں۔

پی ٹی آئی،پی پی پی ، پی ایم ایل(این)اورجے یوآئی (ف)کے اندردوردورتک جمہوریت کانام ونشان نہیں ہے۔یہ لوگ منافقت کی بنیادوں پرمفاہمت کی عمارت تعمیر کرتے ہیں جو بار بار منہدم ہوجاتی ہے۔آئی جے آئی،ایم ایم اے اورپی ڈی ایم سمیت آج تک پاکستان میں جوبھی اتحاد بنے ان کاہدف" اقتدار" تھا،ہماری سیاسی ومذہبی قیادت کو" اقدار" سے کوئی سروکار نہیں۔پاکستان کاہرمسلم شہری اِسلام کیلئے جان چھڑکتا ہے لیکن مٹھی بھر پاکستانیوں کے سواکوئی مذہبی رہنماؤں اورپارٹیوں کوپسندنہیں کرتا۔اسلامی جمہوریہ پاکستان کا ووٹراسلامی پارٹیوں کومینڈیٹ دینے کیلئے تیار نہیں کیونکہ فضل الرحمن سے کرداروں نے اسلامی پارٹیوں کی ساکھ کوراکھ کاڈھیربنادیا ۔فضل الرحمن کی شخصی آمریت نے باوفااورباصفاسیاستدان حافظ حسین احمدسمیت اپنے کئی دیرینہ رہنماؤں کوجے یوآئی (ف)سے نکال باہرکیا۔صرف کپتان نہیں بلکہ نوازشریف ،آصف زرداری اورفضل الرحمن سمیت سبھی سیاسی پارٹیوں کے سربراہان کی دسترس میں کئی کئی زندہ " اے ٹی ایم " کارڈ ہوتے ہیں ۔نوازشریف بھی فطری طورپر منتقم مزاج اورانتہائی طوطاچشم ہے ،اس نے بھی مسلم لیگ (ن)کے کئی مخلص قائدین کاسیاسی مستقبل تاریک کردیا ، پاکستان میں جس وقت پرویزی آمریت کاسورج سوانیزے پرتھااس دوران اپنے تن من دھن سے مسلم لیگ (ن)کوسیراب کرنیوالے آج اس جماعت سے" آؤٹ" جبکہ پیراشوٹر"اِن "ہیں ۔اس کے باوجود بت پرستی کے سبب آج بھی مسلم لیگ (ن)کامحورومرکز شریف خاندان ہے جبکہ اعتزازاحسن،رضاربانی اوریوسف رضاگیلانی سمیت پیپلزپارٹی کے کئی بڑے لوگ ذوالفقارعلی بھٹو اوربینظیر بھٹو کے مزارات کاطواف کرتے ہیں۔اب نوجوان بلاول زرداری اپنے نانا کے ساتھ پیپلزپارٹی بنانے والے بزرگ سیاستدانوں کا قائد ہے ۔

نوازشریف اپنے خاندان سے باہرکسی پارٹی عہدیدارسے مشاورت اورکسی معاملے اورفیصلے بارے اختلاف برداشت نہیں کرتا۔ایک بارلاہور سے مسلم لیگ (ن) کے سابقہ ممبر قومی اسمبلی طارق بدرالدین بانڈے مرحوم نے اپنے ایک انٹرویومیں کہاتھا ،"بینظیر حکومت کوپانچ سال پورے کرنے چاہئیں"،اس پاداش میں مرحوم کواگلے انتخابات کیلئے پارٹی ٹکٹ سے محروم کردیا گیاتھا ۔مسلم لیگ (ن)کے زیادہ تر ارکان اسمبلی جواپنے ووٹرز کیلئے فرعون بنے ہوتے ہیں ، انہیں کئی بار نوازشریف کے روبرو ہاتھ باندھ کرکھڑے ہوئے دیکھاگیا ہے۔نوازشریف کا اقتدار سے محرومی اورتاحیات نااہلی کے بعد مسلم لیگ (ن) کی باگ ڈور مریم نواز کے ہاتھوں میں تھمادینا درحقیقت اپنی جماعت اورسیاست پرخود کش حملے کے مترادف ہے۔نوازشریف کے" درد" کی "دوا" جبکہ مسلم لیگ (ن) کے کسی بھی زخم کا مرہم خودپسند مریم کے پاس ہرگز نہیں ہے۔مسلم لیگ (ن) کے اندر اعلیٰ سطح کے سنجیدہ لوگ نوازشریف اورمریم نوازکے بیانیہ سے متفق اورمستعفی ہونے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ مسلم لیگ (ن)کے ممبرپنجاب اسمبلی اورشرقپور شریف کی ہردلعزیزروحانی شخصیت میاں جلیل شرقپوری نے نوازشریف کا "بیانیہ "باربار" اعلانیہ" طورپرمسترد کردیا،وہ کرداروں کی بجائے ریاستی اداروں کی مضبوطی کے حامی ہیں یقینا ان کی سیاست ایک عورت کی اطاعت کی متحمل نہیں ہوسکتی ۔قومی سیاست کیلئے روحانی اور نظریاتی شخصیت میاں جلیل شرقپوری کادم غنیمت ہے۔

چنیوٹ سے مسلم لیگ (ن) کے منتخب ممبرقومی اسمبلی قیصر احمدشیخ کی ایک ویڈیو ان دنوں قومی اورسوشل میڈیا پرزیرگردش اورزیر بحث ہے جس میں انہوں نے اپنے حلقہ انتخاب میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے استعفیٰ دینے سے صاف انکار کر دیاہے۔قیصر احمدشیخ کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ (ن) اورپیپلزپارٹی کے متعدد ارکان قومی وصوبائی اسمبلی ملک میں تصادم کی سیاست کرنے اور مستعفی ہونے کے حق میں نہیں ہیں کیونکہ انہوں نے معاشرے میں اپنے سیاسی اثرورسوخ کیلئے کروڑوں روپے صرف کئے ہیں اورانہیں دوبارہ اپنی کامیابی کاسوفیصدایقان بھی نہیں ہے۔جس سیاست میں ضمیر اور پارٹی ٹکٹ بکتا ہووہاں ووٹ کوعزت دوکانعرہ ایک" ڈھونگ "جبکہ نعرہ لگانیوالے کردار قومی سیاست کے" رانگ نمبر" ہیں۔پی پی پی کے دوٹوک انکار کے بعد مسلم لیگ (ن)کے ارکان پارلیمنٹ بھی لندن میں بیٹھے کسی فرد واحد کی" انا" کیلئے اپنی سیاست "فنا "یاسیاسی ناؤنابودنہیں کرسکتے۔نوازشریف کاطرزسیاست" کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے" کاغماز ہے،اس کی انتہاپسندی ریاست کاکچھ نہیں بگاڑسکتی لیکن اس کی قیمت مسلم لیگ (ن) کوٹوٹ پھوٹ کی صورت میں اداکرناپڑے گی۔قیصر احمدشیخ کا کسی دباؤ ،دھونس اورڈکٹیشن یانوازشریف کی انا کیلئے مستعفی ہونے سے انکارنوازشریف کیلئے مکافات عمل ہے۔قیصر احمدشیخ کسی دورمیں مسلم لیگ (ن) کا سیاسی ورکر نہیں رہا ،وہ ایک سرمایہ دار ہے اوریقینا اس نے مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ کیلئے دونوں بار بھاری پارٹی فنڈدیاہوگالہٰذاء جس سیٹ کی بھاری قیمت اداکی گئی ہووہ یوں مفت میں واپس نہیں کی جاسکتی ۔ابھی تو چنیوٹ سے ممبر قومی اسمبلی قیصر احمدشیخ کی ویڈیومنظرعام پرآئی ہے لیکن آنیوالے دنوں میں مسلم لیگ (ن) کے متعددمعتدل منتخب ارکان اپنی شدت پسند پارٹی قیادت کیخلاف علم بغاوت بلندکرسکتے ہیں کیونکہ ان میں سے کسی کے لندن میں محلات نہیں ہیں جہاں وہ باقی زندگی آسودگی کے ساتھ بسر کرسکیں ۔مسلم لیگ (ن) کامنتخب ایوانوں سے مستعفی ہونے کابیانیہ حکومت اوراسٹیبلشمنٹ کومرعوب کرنے میں ناکام رہا ۔مہذب ملک اپنے مقدراورمستقبل کے فیصلے میدانوں نہیں ایوانوں میں کرتے ہیں تاہم فضل الرحمن اورمریم نوازسے کرداروں کواداروں کے ساتھ تصادم سوٹ کرتا ہے کیونکہ ان دونوں کیلئے منتخب ایوانوں کے دروازے بند ہیں ۔ پیپلزپارٹی نے اپناراستہ متعین کرلیا ،مسلم لیگ (ن) کے اجتماعی استعفوں سے متحدہ اپوزیشن کی سیاسی پوزیشن مزید کمزور اوربدترہوجائے گی۔


 

Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 140 Articles with 90603 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.