ڈونلڈ ٹرمپ: کہانی ختم ہوئی اور ایسے ختم ہوئی

نسل پرستی کا علاج قوم پرستی نہیں بلکہ خدا پرستی ہے

امریکہ کے سابق صدر براک اوبامہ نے اپنی کتاب میں لکھا کہ :’’تشدد ہندوستانی سماج کاحصہ بن چکا ہے‘‘۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ مذکورہ جملہ فی الحال ان کے اپنے ملک امریکہ پرصد فیصد منطبق ہورہا ہے۔ اپنی کتاب میں اوباما یہ بھی لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ نے ان سے کہا تھا”جناب صدر! غیر یقینی کے اس ماحول میں مذہبی اور ذات برادری کے اتحاد کی اپیل عوام کو بہکا سکتی ہے۔ ایسے میں سیاست دانوں کے لیے اس صورتِ حال کا استحصال زیادہ مشکل نہیں ہوتا۔ خواہ وہ بھارت میں ہو یا کہیں اور ہو“۔براک اوباما نے سمجھا کہ یہ ’کہیں اور‘ پاکستان ہے لیکن حالیہ واقعات نے ثابت کردیا کہ اس سے مراد امریکہ بھی ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ بے مثال مہارت کے ساتھ امریکہ میں نسلی امتیاز کی آگ بھڑکا کر اس کا استحصال کررہے ہیں ۔ محبت اور سیاست میں فرق یہ ہے پہلے میں لوگ مل جل کر زندگی گزارنے کا عزم کرتے ہیں اور دوسرے میں پہلے والےکو رخصت ہونا پڑتا ہے۔ نومنتخبہ صدر جو بائیڈن کی تاجپوشی کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کی رخصتی لازم ہے لیکن جاتے جاتے انہوں بیچ چوراہے پر جمہوری نظام کے دیوستبداد کو بے نقاب کرنے کا جو کارنامہ انجام دیا ہے اس کے لیے تاریخ انسانی میں ان کا نام محفوظ رہے گا۔ ٹرمپ نے اپنے عمل سے علامہ اقبال کے اس شعر کی تفسیر بیان کردی ہے؎
ہے وہی سازِ کُہن مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری
دیو استبداد جمہوری قبا میں پاے کوب
تُو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری

امریکی حکومت اپنی نیلم پری کی اس نقاب کشائی سے حواس باختہ ہے۔ صدر ٹرمپ اب بھی اس انتخابی نتیجے کو مسروقہ مانتے ہیں اور حلف برداری میں شریک ہونے کا ارادہ نہیں رکھتے لیکن قانون کے مطابق انتقالِ اقتدار پر راضی ہیں اس کے باوجود ان کو ذلیل ورسوا کرکے رخصت کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پیلوسی نے آئین کی 25 ویں ترمیم کے تحت صدر ٹرمپ کو عہدہ صدارت کے لیے نااہل قرار دینے کا مطالبہ کیا ہے۔پیلوسی نے ٹرمپ کے دست راست نائب صدر مائیک پینس کو دھمکی دی ہے کہ اگر وہ پر راضی نہیں ہوتے تو ان کا مواخذہ کیا جائے گا۔ٹرمپ کے لیے مواخذہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یوکرین کے صدر سے اپنے مد مقابل جو بائیڈن کے خلاف ’سیاسی گند‘ تلاش کرنے کی درخواست پر صدر ٹرمپ دسمبر 2019 میں مواخذے کا سامنا کر چکے ہیںمگر ریپبلکن کی اکثریتی سینیٹ نے انہیں مواخذے کے نتائج سے بچالیا تھا۔ ٹرمپ کو روندنے کی جو تیاری چل رہی ہے اس کو دیکھ کر سلمان فارس کا یہ شعر یاد آتا ہے؎
پھر اس کے بعد زمانے نے مجھ کو روند دیا
میں گر پڑا تھا کسی اور کو اٹھاتے ہوئے

فارس توخیر کسی اور اٹھا تے ہوئے گرپڑے تھے مگر ٹرمپ کو اپنے سوا کوئی نظر ہی نہیں آتا اس لیے وہ اپنے آپ کو دوبارہ کرسیٔ صدارت پر فائز کرتے ہوئے گر پڑے ۔ عوام نے انہیں روند دیا ہے لیکن وہ اس حقیقت سے منہ چرا کر الیکشن کی چوری کا الزام لگا رہے ہیں ۔ ٹرمپ جیسے نرگسیت کا شکار لوگ حقیقی نہیں خیالی دنیا میں جیتے ہیں۔ ٹرمپ سے خوفزدہ امریکی انتظامیہ جو بائیڈن کی حلف برداری سے قبل نہ صرف کیپیٹل ہل بلکہ سپریم کورٹ کی عمارت تک کو سات فٹ سے اونچی جالی سے گھیر رہی ہے ۔ ڈیموکریٹ اسپیکر پیلوسی کا یہ بیان کہ ’جیسے جیسے دن گزرتے جارہے ہیں صدر ٹرمپ کے ذریعے ہماری جمہوریت پر جاری حملوں کی شدت بڑھتی جارہی ہے اور اسی لیے فوری طور پر کارروائی کی ضرورت ہے۔‘ یعنی انہیں اس عہدے سے ہٹا دینا چاہیے درست تو ہے لیکن کیا پہلی بار ہوا ہے ؟ امریکہ نے دنیا کے کس حصے میں عوام کے ذریعہ منتخبہ حکومت کا تختہ نہیں الٹا اور اس کے لیے کیا نہیں کیا؟ کبھی سازش کی گئی ؟ کبھی دھماکے کروائے گئے تو کبھی ڈھٹائی کے ساتھ فوج کشی کردی گئی ۔ پیلوسی بتائیں کہ ایسا کرنے والے صدور کا مواخذہ کیا گیا یا تعریف و توصیف کی گئی ؟ کیا یہی مساوات ہے کہ دنیا بھر میں جو کرنا جائز ہو وہ خود اپنے ملک میں ناجائز ہوجائے؟ کیا دیگر ممالک کی عوام کو یہ نظام جمہوری انسان نہیں سمجھتا ؟ ٹرمپ پر کارروائی کرنے سے زیادہ اہم یہ ہے کہ امریکی نظام جمہوریت اپنی اس منافقت اور دوہرے پیمان کا محاسبہ کرے ۔

اس میں شک نہیں کہ سیا ستداں نت نئے مسائل پیدا کرتے ہیں لیکن ان کا زیادہ تر وقت موجودہ مسائل کے استحصال میں صرف ہوتا ہے۔ عام طور پر حکمرانوں سے یہ توقع ہوتی ہے کہ وہ مسائل کو حل کریں گے لیکن جمہوری سیاستداں انتخاب میں کامیابی کی خاطر ملک کے اندر ان مسائل کو تلاش کرتے ہیں جن کو اپنے حق میں استعمال کرکے وہ انتخاب جیت سکیں ۔ ٹرمپ نے بھی یہی کیا ۔ انہوں نے نسل پرستی کے عفریت کو ختم کرنے کے بجائے اس کا استحصال کرکے انتخاب جیتنے کی کامیاب کوشش کی ۔ یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ وہ خود نسل پرست ہیں ۔ انہوں نے ایک اخباری نامہ نگار کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ اعتراف کیا تھا کہ :’ میں نسل پرست نہیں ہوں۔ میں آپ کے انٹرویو کیے گئے تمام لوگوں میں سب سے کم نسل پرست ہوں‘۔ اس جملے پہلے انکار کے بعد پھر اعتراف ہے کہ نسل پرست تو ہوں مگر کم۔ اب یہ فیصلہ وہ خود تو نہیں کرسکتے کہ ان کی نسل پرستی دوسروں سے کم ہے یا زیادہ ہے؟ لیکن وہ امریکہ میں نسل پرستی کے موجد نہیں ہیں ۔ یہ تو صدیوں سے چلی آرہی ہے بلکہ جمہوریت کے سائے تلے پھل پھول رہی ہے۔

ٹرمپ کے سابق وکیل مائیکل کوہن کے مطابق امریکی صدر کا رویہ غنڈوں والا ہے اور وہ 'تمام سیاہ فام افراد کے بارے میں بری رائے رکھتے ہیں، چاہے وہ موسیقی و ثقافت سے تعلق رکھتے ہوں یا سیاست سے۔نسلی تفریق کی بابت وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے ۔جنوبی افریقہ کے صدر نیلسن منڈیلا کو وہ کوئی لیڈر نہیں مانتے۔کوہن کے مطابق ایک مرتبہ ٹرمپ نے کہا تھا: 'مجھے کسی سیاہ فام کے زیرِ انتظام کوئی ایسا ملک بتاؤ جو غلاظت کا ڈھیر نہ ہو۔ وہ تمام مکمل طور پر ٹوائلٹس ہیں۔ افریقی سیاہ فام تو دور خود اپنے پیشرو صدر براک اوبامہ کے لیے بھی ان کے دل میں 'نفرت اور ہتک' کے جذبات تھے۔ اس کے ثبوت میں کوہن اپنی کتاب کے اندرٹرمپ کے ایک ویڈیو کا حوالہ دیتے ہیں جس میں اوبامہ کے ایک ہم شکل کو ملازم کی حیثیت سے مقرر کرنے کے بعد ذلیل کرکے برطرف کر دیاجاتا ہے۔ یہ ویڈیو ذرائع ابلاغ میں چل چکا ہے۔ ان الزامات کے باوجود یہ نہیں کہا جاسکتا کہ امریکی معاشرے میں نسل پرستی کا وجود صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دین ہے لیکن نے اس برائی کا اپنے سیاسی مفاد کے لیے بھرپور استعمال کیا ۔ سب سے بڑی قیمت چکائی اور وہ وہ امریکہ کی تاریخ میں مواخذے کی 2 کارروائیوں کا سامنا کرنے والے پہلے صدر بن گئے۔

امریکی ایوان نمائندگان نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کی کارروائی کی منظوری دے دی ۔ اس تحریک کی حمایت میں 232 ووٹ جبکہ مخالفت میں 197 ووٹ ڈالے گئے۔یہ کارروائی ان کے خلاف حکومت پر حملہ کرنے کے لیے اکسانے کے سبب ہوئی۔اس موقع پر ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے 10 افراد نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا جبکہ دیگر 4 ری پبلکن اراکین اس عمل سے دور رہے۔مواخذے کی کارروائی کی منظوری کے بعد سزا سنانے کے لیے قرارداد سینیٹ کو ارسال کردی گئی۔ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کی کارروائی پر امریکی شوبز شخصیات کی جانب سے دلچسپ ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے۔امریکی ماڈل کرسی تیگن نے کہا کہ میں نہیں جانتی تھی کہ آپ 2 مرتبہ مواخذے کا سامنا کریں گے، میرے خیال میں یہ مرنے جیسا ہے۔خیر ڈونلڈ ٹرمپ کی کہانی جس دلچسپ اختتام کو پہنچی اس پر سلمان فارس کی اسی غزل کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
کہانی ختم ہوئی اور ایسی ختم ہوئی
کہ لوگ رونے لگے تالیاں بجاتے ہوئے

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1220985 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.