دوسری خبر چونکا دینے والی تھی، پہلی خبر کو معمول
کی کارروائی سمجھا جا سکتا ہے۔ پہلی خبر میں بتایا گیا تھا کہ یوٹیلیٹی
سٹورز نے عام استعمال کی کچھ اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے، چیزوں
کے نام، اضافہ شدہ قیمتیں اور جاری شدہ نوٹیفیکیشن کی اطلاع بھی ساتھ تھی۔
بڑھتی ہوئی مہنگائی کے بارے میں چند جملوں کا اضافہ ہر اخبار نے اپنی طرف
سے بھی کر دیا تھا۔ اخبار کے اُسی صفحہ پر ایک دوسری خبر دلچسپ اور اہم
تھی، وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے دو وزراء سے ملاقات کرتے ہوئے
کہا تھا کہ ’’ ․․․ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں مصنوعی اضافہ کرنے والے
نرمی کے مستحق نہیں ․․․ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی جاری رکھی جائے․․․
عوام کو ریلیف دینے کے لئے تمام اقدامات اٹھائیں گے․․․اور یہ کہ کسی کو
استحصال نہیں کرنے دوں گا․․․۔‘‘ دونوں خبروں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے،
کیونکہ پہلی اسلام آباد سے آئی ہے اور دوسری کا تعلق لاہور سے ہے۔
سردار عثمان بزدار پاکستان کی نصف کے قریب آبادی والے صوبے کے منتخب
وزیراعلیٰ ہیں، اُن کے بیان کا ایک ایک لفظ بہت اہمیت کا حامل ہے، پہلی بات
اشیاء کی قیمتوں میں مصنوعی اضافہ ہے، کہ مصنوعی اضافہ کرنے والے سختی کے
مستحق ہیں، لیکن یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اِن مستحقین کو ان کا حق کب ملے
گا؟ کون دے گا؟ کیا طریقہ اختیار کیا جائے گا؟ یا پھر وہ لوگ اس ’’حق‘‘ سے
محروم ہی رہ جائیں گے۔ تجربہ یہی بتاتا ہے کہ کسی بھی چیز کی قیمت میں
’’مصنوعی‘‘ اضافہ کرنے والوں کو کبھی کسی نے کچھ نہیں کہا، کیونکہ اُن کا
تعلق مقتدر حلقوں سے ہی ہوتا ہے۔ اس مصنوعی اضافے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ
قیمتوں میں کچھ اضافہ اصلی بھی ہوتا ہے۔ یعنی جو اضافہ حکومت کرے اور اس کا
نوٹیفیکیشن بھی جاری کرے، وہ اصلی ہوتا ہے، اور حکومتی اقدامات کو جواز بنا
کر جو اضافہ تاجر طبقہ خود کرلے وہ مصنوعی ہوتا ہے۔ حکومت کی طرف سے کئے
گئے اضافے کی ایک خصوصیت یہ بھی ہوتی ہے کہ اُس سے عوام پر کوئی اثر نہیں
پڑتا۔ (کیونکہ حکومتی ترجمانوں کا یہی کہنا ہے)۔ یوٹیلیٹی سٹور کی اشیاء کی
قیمتوں میں اضافہ چونکہ ’اصلی‘ ہے اس لئے حکومتی نرمی گرمی کا اس پر اطلاق
نہیں ہوتا۔
سردار کے فرمان وبیان سے یہ بھی انکشاف ہوا کہ ذخیرہ اندوزوں کے خلاف
کارروائی جاری ہے، کیونکہ اس کا علم کم از کم اِ س ناچیز کو تو بالکل نہیں۔
یہ تو دیکھنے میں آتا ہے کہ چینی، آٹا یا دیگر اشیاء کی آئے روز سخت قلت ہو
جاتی ہے، قیمتیں بڑھ جاتی ہیں، اور حکومتی بیانات آنے لگتے ہیں، مگر یہ
دیکھنے میں کہیں نہیں آیا کہ فلاں ذخیرہ اندوز کو گردن سے پکڑ لیا گیا ہے،
یا فلاں ذخیرہ اندوز کو چوک میں اُلٹا لٹکا دیا گیا ہے، یا کسی ذخیرہ اندوز
کی چھپائی ہو ئی چیز کو عوام کے سامنے سستے داموں پیش کر دیا گیا ہے۔ اگر
یہ ’’کارروائی‘‘ صرف بیانات کی حد تک ہی جاری رکھنی ہے، تو یہ کام واقعی ہو
بھی رہا ہے اور دکھائی بھی دے رہا ہے۔ اور موصوف کی یہ بات کہ عوام کو
ریلیف دینے کے لئے تمام اقدامات اٹھائیں گے، بھی دلچسپی سے خالی نہیں۔ نہ
جانے یہ اقدامات کب اٹھائے جائیں گے؟ اور اگر اِن اقدامات کی حقیقت بھی
بیانات تک ہی ہے تو یقینا یہ بھی اٹھائے جارہے ہیں۔ قوم مطمئن رہے۔ بیان کا
آخری حصہ اس لئے زیادہ اہم ہے کہ اس میں آپ نے اپنے لئے صیغہ واحد استعمال
کیا ہے، جیسا کہ بہت طاقتور حکمران یا لوگ کیا کرتے ہیں، (مثلاً شہباز شریف
اور عمران خان )۔ فرمایا’’ کسی کو استحصال نہیں کرنے دوں گا‘‘۔ اگر آپ کی
اجازت کے بغیر ہی کوئی ظالم اِس مظلوم قوم کا استحصال کرتا رہے تو اُس کے
بارے میں آپ نے کوئی حکم جاری نہیں کیا۔
پھر اخبار نے خبر لگائی کہ ’’جنوری میں دوسری مرتبہ پٹرولیم کی قیمتوں میں
اضافہ ، پٹرول 3.20روپے لیٹر مہنگا۔ اوگرانے پٹرول تیرہ روپے اور ڈیزل
گیارہ روپے لیٹر مہنگا کرنے کی سفارش کی تھی،(وہ تو اپنے حکمرانوں کی رحم
دلی ہے کہ صر ف سوا تین روپے اضافہ کیا)۔ اگلے ہی روز یہ خبر بھی شائع ہوئی
کہ بجلی قیمت میں دو روپے فی یونٹ اضافہ کی سمری تیار۔ اور یہ بھی کہ ’’آئی
ایم ایف قرض پروگرام: بجلی صارفین پر تین سو ارب کا بوجھ ڈالنے کا فیصلہ‘‘۔
الفاظ کے گورکھ دھندے میں عام آدمی الجھ کر رہ جاتا ہے، کچھ سمجھ نہیں آتا،
مگر یہاں بھلا ہو سندھ کے گورنر کا ، اُن کا بیان پڑھ کر کچھ امید بندھی،
بلکہ مہنگائی کے بادل چھٹتے نظر آئے، جیسے کہرے والی سردی اور گہرے بادل
غائب ہو جائیں اور اچانک دھوپ نکل آئے، زبان سے کچھ نہیں فرمایا، بلکہ ٹویٹ
فرمایا۔ اگرچہ اپنی کم مائیگی کی وجہ سے ناچیز کے پلے تو کچھ نہیں پڑا،
مدعا کچھ یوں تھا، مہنگائی 12.6سے کم ہو کر 7.9پر آگئی، ایف بی آر ٹیکس
469سے بڑھ کر 508تک پہنچ گئے۔ افراطِ زر میں آٹھ فیصد کمی ہوئی، ٹیکس وصولی
میں پانچ فیصد اضافہ ہوا، ترسیلاتِ زر میں 24.8فیصد اضافہ ہوا․․․ وغیرہ
وغیرہ۔ چھوٹے بڑے حکمرانوں کے بیانات اور ٹیوٹیات وغیرہ سے تو یہی معلوم
ہوتا ہے، کہ ذخیرہ اندوز اور منافع خور دم توڑ چکے ہیں، عوام کو بھر پور
ریلیف مل رہا ہے اور یہ کہ مہنگائی اپنی موت آپ مر چکی ہے۔ اگر یہ سب کچھ
عوام کو دکھائی نہیں دیتا تو اِس میں حکمرانوں کا کیا قصور؟
|