یوم جمہوریہ کی کسان پریڈ کے خلاف بڑی امیدوں سے امیت شاہ
نے عدالت عظمیٰ کے دروازے پر دستک دی لیکن اسے یہ کہہ کر دھتکار دیا گیا
نظم و نسق کا معاملہ انتظامیہ کا ہے عدلیہ کا نہیں ۔ اس کے باوجود نہ جانے
کیوں ۲۰ جنوری کی اگلی تاریخ رکھ دی گئی۔ عدالت عظمیٰ کا یہ رویہ اس کو شک
و شبہ کے دائرے میں لے جاتا ہے۔ اس سے قبل سپریم کورٹ نے بڑے طمطراق سے
کسانوں کا مسئلہ سمجھنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی لیکن عدم اعتماد کے سبب
کسانوں نے اسے مسترد کردیا ۔ کیوں کہ جن چار لوگوں کے نام اس میں شامل
کیےگئے ان کو دیکھ کر یہ سمجھنا مشکل ہے کہ حکومت اور عدالت کی یہ جوڑی خود
بیوقوف ہے یا عوام کو بیوقوف سمجھتی ہے؟ ایسا لگتا ہے کہ دونوں ہی باتیں
درست ہیں ۔ فی الحال نہ صرف کسان بلکہعوام بھی سرکار اور عدالت کا منشاء
سمجھ چکے ہیں اس لیے ان کے جھانسے میں نہیں آتے ۔
عدالت کے اس متنازع فیصلے کے بعد جب معروف کسان رہنما راکیش ٹکیت سے پوچھا
گیا کہ آخر وہ یہ مظاہرہ کب تک جاری رکھیں گے؟ تو اس کے جواب میں ٹکیت نے
نہایت دلچسپ جواب دیا انہوں نے کہا کہ ’’جب حکومت 5 سال چل سکتی ہے تو
تحریک کیوں نہیں چل سکتی؟ جب تک حکومت نئے زرعی قوانین کو واپس نہیں لے گی
تب تک ہمارا مظاہرہ جاری رہے گا۔‘‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم سپریم کورٹ
کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں لیکن کمیٹی سے خوش نہیں ہیں۔سوال یہ ہے کہ
آخر کسان سپریم کورٹ کی کمیٹی سے کیوں ناراض ہیں ؟ اس کے اندر دو ماہرین
زراعت اشوک گلاٹی اور پرمود جوشی ہیں جبکہ دو کسان رہنما انل گھنوٹ اور
بھوپندر سنگھ مان ہیں۔ بدقسمتی سے یہ چاروں زرعی قانون کے حامی ہیں۔
انڈین کونسل فور ریسرچ آن انٹرنیشنل اکونومک ریلیشن میں پروفیسر کی خدمات
انجام دینے والےاشوک گلاٹی کو وزیر اعظم مودی نے 2015 میں پدم شری کے اعزاز
سے نوازہ ۔ اس کے بعد وزیر اعظم کے ذریعہ بنائی گئی زراعتی ٹاسک فورس کے
رکن اور زرعی بازار سدھار کی خاطر بنائے گئے ماہرین پینل صدر نشین بنائے
گئے ۔ ان احسانات کے بدلے وہ ہر ہفتہ مضمون لکھ کر سرکار کی صفائی پیش کرتے
رہتے ہیں۔ ماہِ ستمبر کے اندر ہی وہ ان قوانین کو کسانوں کے لیے فائدہ مند
بتا چکے ہیں۔ انہوں نے سرکار کو مشورہ دیا تھا کہ حزب اختلاف کسانوں بھٹکا
رہا ہے مگر حکومت کو اپنا کام جاری رکھنا چاہیے۔ اب گلاٹی صاحب تو گلاٹی
کھاکر کسانوں کی بات نہیں مان سکتے اس لیے ان سے گفت و شنید چہ معنی دارد؟
ڈاکٹر پرمود جوشی بھی سرکاری ملازم ہیں پہلے نیشنل سینٹر فور ایگریکلچرل
اکونومکس اینڈ پالیسی ریسرچ کے ڈائرکٹر رہ چکے ہیں فی الحال ساوتھ ایشیا
فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ہیں اور کئی اعزازت سے نوازے جاچکے
ہیں۔ وہ 2017 سےکانٹریکٹ فارمنگ کے لیے راہ ہموار کررہے ہیں اور اسے کسانوں
کے لیے فائدے مند بتا رہے ہیں ۔ ان کے خیال میں اس سے کاشتکاری کی لاگت میں
کمی آتی ہے۔ اب اتنے بڑے ماہر کی عقل میں کسانوں کا معمول مطالبہ کیسے
آسکتاہے۔ ان دونوں ماہرین کے علاوہ مہاراشٹر میں کسانوں کی ایک بڑی تنظیم
شیتکری سنگھٹن کے صدر انل گھنوٹ بھی اس کمیٹی میں شامل کیے گئے ہیں۔ معروف
کسان رہنما شرد جوشی کی قیادت میں کسانوں نے پہلی بار پیاز کی قیمتوں کو
لےکر پونے اور ناسک کی سڑک کو اسی طرح بند کیا تھا جیسے فی الحال دہلی سے
باہر جانے والی سڑک بند کی گئی ہے۔ دوسال قبل حکومت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے
گھنوٹ ایچ ٹی بی ٹی بیجوں کا استعمال کرواچکے ہیں لیکن اب ان کا سُر بدلا
ہوا ہے۔ ان کے خیال میں نئے زرعی قانین سے دیہاتوں میں کولڈ اٹوریج وغیرہ
بنانے سے دولت آئے گی اور اگر یہ قوانین واپس لیے گئے تو کسانوں کے لیے
کھلے بازار کا راستہ بند ہوجائےگا۔ وہ کسانوں کی تحریک کو سیاسی اور حزب
اختلاف کا بہکاوامانتے ہیں۔
اس کمیٹی میں پنجاب کے کسان رہنما اور اکھل بھارتیہ کسان سمنوے (تال میل)
سمیتی کے صدر بھوپندر سنگھ مان کو بھی شامل کیا گیا تھا۔ انہوں نے 14 دسمبر
کو وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر کو خط لکھ کچھ اعتراضات تو کیے لیکن ساتھ
ہی یہ بھی لکھا کہ ہندوستانی زراعتی نظام کی نجات کے لیے وزیر اعظم نریندر
مودی کی قیادت میں جو تین قوانین منظور کیے گئے ہیں وہ ان کے حق میں سرکار
کی حمایت کے لیے آگے آئے ہیں۔ اس خط سے حکومت کویہ خوش فہمی ہوگئی کہ مان
کی مدد سے وہ پنجاب کے کسانوں کو منانے میں کامیاب ہوجائے گی لیکن خود مان
ہی نہیں مانے اور انہوں نے سپریم کورٹ کی تشکیل شدہ کمیٹی سے اپنے آپ کو
الگ کرلیا ۔ اس طرح سرکاری ٹریکٹر کا ایک پہیہ پہلے ہی مرحلے میں پنچر
ہوگیا ۔ اب یہ کیسے آگے بڑھے گا یا کھیت ہی میں پڑا پڑا سڑ جائے گا یہ تو
وقت ہی بتائے گا؟
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں بیچارگی کے عالم میں یہ بھی کہا کہ آپ ہم پر
اعتماد کریں یا نہ کریں لیکن ہم اپنی ذمہ داری نبھائیں گے۔ یہاں ایک سوال
یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ عدالت عظمیٰ کو یہ کہنے کی ضرورت کیوں پیش
آئی؟ حقیقت یہ ہے حکومت کے ساتھ سانٹھ گانٹھ کرکے عدالت نے اپنا اعتبار
کھودیا ہے۔ کل تک مسلمان یہ کہتے تھے کہ ہمیں عدلیہ پر مکمل اعتماد ہے اس
لیے ان کے پاس بابری مسجد کے حق میں شواہد موجود تھے۔ عدالت نے ان کو تسلیم
کیا اور کہا کہ بابری مسجد کسی مندر کو توڑ کر نہیں بنائی گئی تھی۔ اس میں
مورتیاں رکھناقانون کی خلاف ورزی تھا اور بابری مسجد کو شہید کرنا سنگین
جرم تھا لیکن اس کے باوجود آستھا کی بنیاد پر مسجد کی زمین مجرمین کے
حوالے کردی گئی ۔ ایسے میں عدلیہ کا اعتبار کیسے باقی رہ سکتا ہے؟ اب اگر
کسان یہ کہتے ہیں کہ ان کی آستھا ہے کہ یہ قوانین نقصان دہ ہیں تو عدالت
کو اپنی روایت کا پاس و لحاظ کرتے ہوئے اس کو بلا چوں چرا مان لینا چاہیے ۔
عدالت نے اس متنازع فیصلے کے بعد دو مرتبہ اپنے وقار کو نقصان پہنچایا۔ لاک
ڈاون کے بعد مہاجر مزدوروں کی بابت سرکار نے کہا کوئی بھی سڑک پر موجود
نہیں ہے ۔ عدالت نے آنکھیں موند کر سرکاری کذب گوئی کی تائید کردی جبکہ
ساری دنیا اس کی تردید کر رہی تھی ایسے میں عدلیہ کے اوپر سے اعتماڈ اٹھے
گا نہیں تو کیا بحال ہوگا؟ شاہین باغ کے بارے میں کہہ دیا کہ انتظامیہ
کوعدالتی فیصلے کا انتظار کیے بغیر ازخود مظاہرین کو ہٹا دینا چاہیے لیکن
کسانوں سے سرکار ڈر گئی اور ایسا نہیں کہہ سکی اس لیے گبرّ کا مکالمہ اس پر
صادق آگیا کہ ’جو ڈر گیا وہ مرگیا‘۔ ویسے عدالت تو دور کسانوں کی اس تحریک
نے تو اپنے آپ کو شکتی مان سمجھنے والے امیت شاہ کو بھی ڈرا دیا ہے۔یہی
وجہ ہے کہ وزیر داخلہ نے ہریانہ کی بی جے پی سرکار کومشورہ دیا ہے کہ وہ
زرعی قوانین کی حمایت میں تقریبات کے انعقاد سے اجتناب کرے۔ اس ہدایت کی
تصدیق ہریانہ کے وزیر تعلیم کنور پال گوجر نے کی اور کہا کہ وزیر داخلہ نے
اگلی اطلاع تک تقریبات کو روکنے کا فرمان جاری کردیا ہے۔ اب اگر بلاّ ڈر
جائے تو رنگا کے بارے میں کیا کہا جاسکتا ہے؟ کیونکہ دونوں ایک جان دوقالب
ہیں۔ کسانوں کے حوالے سے تو فی الحال مرکزی حکومت غالب کے اس شعر کو وظیفہ
بنائے ہوئےہے کہ ؎
یارب نہ وہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات
دے اوردل ان کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور
|