پارلیمنٹ ملک پاکستان کا سب سے اہم اور جمہوری سمجھا جانے
والا ادارہ ہے ،پارلیمنٹ کے ارکان کو عوام اپنی نمائیندگی کے لیے منتخب
کرتی ہے تاکہ ریاستی اداروں کے سامنے عوام کے مسائل اور مشکلات کو اُجاگر
کیا جا سکے ۔ پارلیمنٹ کا فرض عین عوام کے حقوق کی جنگ لڑنا ہے لیکن گزشتہ
چند برس سےیہ ادارہ عوام کے حقوق کی جنگ لڑنے کی بجاۓ عوام کو تفریح فراہم
کرنے میں سب سے اول نمبر پر ہے اور تفریح بھی وہ جو شائد کوئ مہذب شہری
دیکھنا پسند نہ کرے۔ پارلیمنٹ کا کوئ اجلاس خواہ وہ ایوانِ بالا (سینٹ) کا
ہو یا ایوانِ زیریں (قومی اسمبلی) کا تفریح، ایکشن، فن، دُکھ، اور مزاح سے
بھرپور ہوتا ہے ۔ اس کے اندر ایسی ایسی زبان استعمال کی جاتی ہے جو شاید ہی
کوئ عزت دار انسان سننا گوارہ نہی کرتا ہو گا۔ اگر یہ کہا جاۓ کے پالیمنٹ
ایک سٹیج ڈرامہ ہے تو یہ ایک حقیقت ہے مگر یہ سٹیج ڈرامہ کچھ مختلف
ہے،حقیقی سٹیج شو میں صرف ایک سٹیج ہوتا ہے جس پر اداکار اپنی پرفارمس
دکھاتے ہیں مگر پارلیمنٹ ایک ایسا سٹیج شو ہے جو دو سٹیج پر دکھایا جاتا ہے
جس میں ایک سٹیج پر حکومتی اداکار اور دوسرے پر خزبِ اختلاف کے اداکار
موجود ہوتے ہیں اور سپیکر صاحب پروڈیوسر کے ساتھ ساتھ تماشائ ہونے کا لطف
بھی اُٹھاتے ہیں،یہ سٹیج شو پانچ سال تک چلتا ہے اور پانچ سال بعد اس میں
ایک تبدیلی رونما ہوتی ہے ، وہ تبدیلی اداکاروں کی جگہ کا تبدیل ہونا ہے
مطلب یہ کے خزب اختلاف حکومتی اداکاری کی نشست سنبھالتی ہے اور حکومت خزب
اختلاف کی نشست! یہ ہمارے لیے ایک لمخہ فکریہ ہے کے ہم کس منزل کی طرف
گامزن ہے ذدہ غور کیجیے کے جو الفاظ اور زبان ان مقدس ایوانوں میں استعمال
کی جاتی ہے شاید وہ زبان ہیرہ منڈی کے قباحئہ خانوں میں بھی نہی استعمال
ہوتی ۔ایک دوسرے پر ایسے ایسے الزامات لگاۓ جاتے ہیں کے ایک غیرت مند اور
عزت دار انسان تو ایسے الزامات سننے کے بعد شاید کسی کے سامنے آنا بھی
گوارہ نہ کرے مگر حقیقت تو یہ ہے کے پاکستانی سیاستدانوں کا غیرت سے تو دور
دور تک کوئ تعلق ہی نہی ہے ظاہری سی بات ہے جس ملک کے سیاستدان سیاسی
میٹنگز بھی ہیرہ منڈی کے کوٹھوں پر کرتے ہوں وہ ہیرہ منڈی کی زبان ہی بولے
گے ۔ مگر سب ایک جیسے نہی کچھ گنے چنے نظریاتی اور باعزت سیاست دان بھی ہیں
مگر آٹے میں نمک کے برابر ۔ ایسے باکردار او غیرت مند سیاستدان آج بھی اپنی
عزت اور شرم و خیا کا علم بلند کیے ہوۓ ہیں۔ مگر ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ
ہم ان سیاست دانوں کو بطور عوام سیاست دان ہی نہی مانتے کیونکہ ہم بھی اُس
کو تسلیم کرتے ہیں جو مداری کرنا خوب جانتا ہو، جو لسانی تیر اندازی کا
ماہر |