کسانوں کی بے مثال مزاحمت کا مرکز فی الحال دہلی کے شمالی
سرحد پر واقع ہریانہ ہے ۔ ہریانہ میں مہابھارت کا میدان کوروکشیتر بھی ہے ۔
مہابھارت بنیادی طور پر خاندانی وراثت و سیاست کی لڑائی تھی ۔ اس رزمیہ
حکایت کی جھلکیاں ہریانہ کی موجودہ سیاست میں آج بھی صاف دکھائی دیتی ہیں
۔ دشینت مہابھارت کا ایک بہت ہی اہم کردار ہے ۔ اس نے سادھو وشومترا کی
بیٹی شکنتلا اور آسمانی اپسرا مینکا سے شادی کی تھی۔ دشینت دراصل اس بھارت
کا باپ تھا جس کے نام سے ہندوستان کو موسوم کیا جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے
کوروکشیتر کی مہابھارت کا کھیل ہریانہ کی سیاست میں اب بھی جاری و ساری ہے۔
کسان تحریک اس سیاست پر اثر انداز ہونے لگی ہے۔ ویسے تو کسان تحریک کا پہلا
اثر اکالی دل کے بی جے پی کا ۳۵ سال پرانا ساتھ چھوڑنے سے سامنے آیا تھا
لیکن اب ہریانہ میں ابھے چوٹالا کے استعفیٰ نے دشینت پر دباو بڑھا دیا ہے
اور کسانی سیاست میں دوسرا بھونچال رونما ہوتا نظر آ رہا ہے۔
ہندوستان کی سیاست میں ایمرجنسی کے بعد قومی سطح پر چودھری چرن سنگھ نامی
کسان رہنما کا نام ابھر کر سامنے آیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جنتا پارٹی نے
چرن سنگھ کی لوک دل کے نشان ہل دھر کسان پر انتخاب لڑا تھا اور اندرا
گاندھی کو اقتدار سے بے دخل کر مرکز میں پہلی غیر کانگریسی حکومت قائم کی
تھی۔ اس حکومت کے وزیر اعظم بھی اتفاق سے گجرات کے رہنے والے مرارجی دیسائی
تھے ۔ وہ سنگھ کے اتنے بڑے دشمن تھے کہ بی جے پی والے سردار پٹیل کی تو دن
رات تعریف کرتے ہیں لیکن ان کا نام تک نہیں لیتے۔ قدرت کی ستم ظریفی یہ تھی
کہ دیسائی کی وزارت میں اٹل بہاری واجپائی وزیر خارجہ اور لال کرشن اڈوانی
وزیر مواصلات تھے۔ جنتا پارٹی کے ٹوٹنے پر مرارجی کی سرکار گر گئی اور
کانگریس کی حمایت سے چودھری چرن سنگھ وزیر اعظم بن گئے لیکن کانگریسی انہیں
اعتماد کا ووٹ ملنے تک بھی صبر نہیں کرسکے اور پیٹھ میں چھرا گھونپ کر رخصت
کردیا ۔ اس کے بعد انتخاب ہوئے اور اندرا گاندھی پھر سے اقتدار میں آگئیں
اس طرح کسان سیاست کا ایک باب بند ہوگیا۔
چودھری چرن سنگھ کی وراثت ان کے بیٹے اجیت سنگھ کے حصے میں آئی ۔ تیسرے
غیر کانگریسی وزیر اعظم وشوناتھ پرتاپ سنگھ کے وہ منظور نظر تھے ۔ وی پی
سنگھ انہیں اترپردیش کا وزیر اعلیٰ بنانا چاہتے تھے لیکن ملائم سنگھ ان کی
راہ روڑہ بن گئے اور چندر شیکھر کے ساتھ مل کر سرکار گرادی ۔ کانگریس نے
چندر شیکھر کے ساتھ بھی وہی کیا جو چرن سنگھ کے ساتھ کیا تھا ۔ وہ بہت جلد
چندر شیکھر کو اقتدار سے بے دخل کرکے پھر سے حکومت پر قابض ہوگئی۔ وی پی
سنگھ کے زمانے میں دیوی لال نام کا بہت بڑا کسان رہنما ہندوستان کی سیاست
میں نمودار ہوا۔ چودھری دیوی لال ہندوستان کے نائب وزیر اعظم کے عہدے پر
فائز ہوئے ۔ دیوی لال کی سیاسی وراثت ان کے عاق شدہ بیٹے اوم پر کاش چوٹالا
کے حصے میں آئی۔ اوم پرکاش چوٹالا کو تین مرتبہ وزیر اعلیٰ بننے کا موقع
ملا ۔ پہلی بار 1989 میں وہ وزیر اعلیٰ بنے تو ۶ ماہ تک حکومت کی اس کے بعد
1990 میں صرف ۶ دنوں تک حکومت کرسکے اور تیسری مرتبہ 1999 میں وزیر اعلیٰ
بن کر ۶ سالوں تک اقتدار سنبھالا۔ اس دوران ان پر ویاپم جیسی بدعنوانی کا
الزام لگا اور 2013 میں انہیں اور ان کے بڑے بیٹے اجے چوٹالا کو دس سال کی
سزا سنا دی گئی ۔ وہ دونوں اب بھی جیل کی چکی پیس رہے ہیں ۔
اوم پرکاش چوٹالا کے جیل چلے جانے کے بعد پارٹی کی وراثت چھوٹے بیٹے ابھے
چوٹالا کے حصے میں آگئی ویسے بھی باپ کا جھکاو بڑے کے بجائے چھوٹے کی جانب
زیادہ تھا یہ بالکل اسی طرح کی صورتحال ہے جیسی بہار میں لالو یادو پرساد
یادو کی ہے ۔ وہ بدعنوانی کی سزا کاٹ رہے ہیں اور ان کاجھکاو بھی چھوٹے
بیٹے تیجسوی یادو کی جانب زیادہ ہے۔ خیر جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے اکثر
وراثت کی لڑائی میں چچا بھتیجا آمنے سامنے ہوجاتے ہیں اسی طرح ہریانہ میں
بھی ہوا۔ بڑے بھائی اجے چوٹالا کے بیٹے دشینت چوٹالا نے اپنے چچا ابھے
چوٹالا سے بغاوت کرکے نئی پارٹی بنالی اور اس کا نام جن نایک جنتا پارٹی
رکھ دیا۔ ڈیڑھ سال قبل ہونے والے انتخاب میں چچا کی آئی این ایل ڈی کا صرف
ایک امیدوار کامیاب ہوا یعنی وہ خود جبکہ نوزائیدہ جے جے پی کے ۱۰
امیدوارجیت گئے ۔ بی جے پی چونکہ ۲۵ فیصد ووٹ گنوا کر ۴۰ ارکان پر پہنچ گئی
تھی اور اسے حکومت سازی کے لیے ۶ ارکان کی ضرورت تھی ۔اس کمی کو دشینت نے
پورا کردیا اور نائب وزیر اعلیٰ بن گئے لیکن بی جے پی بری صحبت نے ان کا یہ
حال کردیا ہے کہ رائے دہندگان ان کو اپنے حلقہ انتخاب میں گھسنے نہیں دے
رہے ہیں ۔
حلف برداری سے قبل دشینت کے والد اجے چوٹالا کو بی جے پی نے پیرول پر رہا
کردیا تھا اس لیے اب ان کے سامنے یہ دھرم سنکٹ ہے کہ ایک طرف اقتدارکی کرسی
اور دوسری جانب والد کی رہائی ہے ۔ وہ اگر کسانوں میں اپنی سیاسی ساکھ
بچانے کے لیے منوہر لال کھٹر کی سرکار گرادیتے ہیں تو بعید نہیں کہ بی جے
پی انہیں بھی ان کے باپ اور دادا کے پاس تہاڑ جیل میں پہنچا دے ۔ موجودہ
سیاست میں بدعنوانی کون نہیں کرتا ؟ اسی کے لیے تو سیاست کی جاتی ہے لیکن
فرق صرف یہی ہے کہ کسی کو سزا ملتی ہے کوئی چھوٹ جاتا ہے۔ خیر دشینت فی
الحال بہت پریشان ہیں ۔ انہوں نے پہلے وزیر داخلہ امیت شاہ سے ملاقات کی اس
پر اطمینان نہیں ہوا تو دوسرے دن وزیر اعظم کے دولت کدے پر پہنچ گئے اور اس
کے بعد خاموشی اختیار کرلی ۔ دسمبر کے مہینے میں ابھے کے بیٹوں کرن اور
ارجن کی شادی میں شریک ہونے کے لیے اوم پرکاش چوٹالا پیرول پر باہر آئے تو
انہیں کورونا ہوگیا ۔ اس کے بعد ان کو گوروگرام کےمیدانتا اسپتال میں داخل
کیا گیا جہاں امیت شاہ کا علاج ہوا تھا ۔ اب یہ حالت ہے کہ دادا جسمانی اور
پوتا سیاسی کورونا سے جوجھ رہا ہے۔ باپ جیل میں ہے اور چاچا نے مشروط
استعفیٰ دے رکھا ہے۔ ہریانہ میں فی الحال بی جے پی اپنا اقتدار بچانے کے
لیے ہاتھ پاوں مار رہی ہےاور عوام بڑی دلچسپی کے ساتھ کل یگ کی اس مہابھارت
سے محظوظ ہورہےہیں ۔
کل یگ کی مہابھارت کے ذکرمیں دھرت راشٹر کا ذکر نہ آئے یہ ناممکن ہے۔ وزیر
اعظم نریندر مودی نے فی الحال جس طرح کسان تحریک سے آنکھیں موند رکھی ہیں
اسے دیکھ کر بے ساختہ دھرت راشٹر کا خیال آتا ہے۔ دھرت راشٹر کے ۱۰۰ بیٹے
اور ایک بیٹی تھی جبکہ اس کے بھائی پانڈو کے صرف ۵ بیٹے تھے۔ اقتدار کی باگ
ڈور دھرت راشٹر اور اس کے بڑے بیٹے دریودھن کے ہاتھ میں تھی ۔ آج بھی یہی
حال ہے بی جے پی حزب اختلاف کے مقابلے بہت زیادہ طاقتور ہونےکے ساتھ اقتدار
پر فائز بھی ہے۔ کورو نے پانڈو کو دھوکہ دے کر اقتدار سے بے دخل کردیا تھا
یہی کام بی جے پی نے فریب دہی سے انتخاب جیت کر کیا ہے۔ دریودھن کے خلاف
پانڈو کی مدد کے لیے جیسےشری کرشن میدان میں اترے وہی کام کسان کررہے ہیں ۔
میدانِ جنگ سجا ہوا ہے، جنگ جاری ہے۔ دھرت راشٹر تو بیچارہپیدائشی نابینا
تھا مگر پردھان سیوک نے تو زبردستی یہ مجبوری اوڑھ رکھی ہے۔ مہابھارت کی
ایک خاص بات یہ ہے کہ دھرت راشٹر کی بیوی گندھاری نے اپنے خاوند کی پیروی
میں آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی تھی ۔ یہی حال بی جے پی کے سارے وزراء کی ہے
کہ انہیں بھی اتنی بڑی تحریک نظر نہیں آتی۔ ویسے دھرت راشٹر کے انجام پر
یہ شعر صادق آتا ہے اور اس میں پردھان سیوک کے لیے سامانِ عبرت ہے؎
ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
|