سعادت حسن منٹو 11مئی 1912ء کو ضلع لودھیانہ کے ایک
قصبے سمبرالا میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق منٹو خاندان سے تھا،آپ کے والد
غلام حسن ایک سرکاری ادارے محکمہ انصاف میں منصف کی حیثیت سے ملازم تھے ۔
منٹو نے میٹرک کا امتحان گورنمنٹ ہائی سکول امرتسر سے پاس کیا ۔بعدازاں ایم
اے او کالج امرتسر میں داخل ہوگئے جہاں انہوں نے چند دوستوں کی رفاقت میں
کالج میگزین "ہلال"کا اجرا ء کیا اور اسلامک کلچر ایسوسی ایشن کی بنیاد
رکھی۔لیکن پے در پے ناکامیوں کی وجہ سے حصول تعلیم کا سلسلہ آگے نہ بڑھ سکا
۔ایک دن ان کی ملاقات باری علیگ سے ہوئی جنہوں نے ان کی ذات میں چھپے ہوئے
ادبی جوہر کو شناخت کیا اور منٹو کو یہ احساس دلایاکہ وہ ادبی دنیا میں
کامیابی کے جھنڈے گاڑ سکتا ہے ۔اس طرح منٹوکا رجحان ادب کی بڑھتا چلاگیا ۔
منٹو نے اپنے ادبی سفر کا آغاز وکٹر ہیوگو کی کتاب The Last day of a
condemned Prisonerکے ترجمے سے کیا۔منٹو کے اس ترجمے کو1933کو "سرگزشت
اسیر"کے نام شائع کیا گیا ۔اسی کتاب کو بعد ازاں "پھانسی" کا نام دے دیاگیا
۔اس ترجمہ شدہ کتاب کی پذیرائی کے بعد منٹو نے روسی افسانوں کے تراجم کا
سلسلہ شروع کیا ۔سب سے پہلے جس افسانے کا ترجمہ کیا گیا اس کا نام "جادوگر
" تھا ۔اس کے علاوہ ٹالسٹائی کے افسانے کاترجمہ "شیطان اور یثرب " ، افانیف
کی کہانی کا ترجمہ "سپاہی اور موت "، گورکی کے افسانے کا ترجمہ "چھبیس
مزدور اور ایک دوشیزہ "کے نام سے شائع ہوا۔باری علیگ کی رہنمائی اور رفاقت
کے سبب منٹو کے دوستوں (جن میں حسن عباس اور ابو سعید قریشی بھی شامل تھے )نے
بھی لکھنے کی طرف توجہ دی۔ چنانچہ ان تینوں نے مل کر آسکروائلڈ کے ڈرامے "ویرا"کا
اردو ترجمہ کیا جو 1934ء میں شائع ہوا۔انقلاب روس کے موضوع پر لکھے جانے
والے آسکروائلڈ کے اس ڈرامے کی اشاعت نے ایک ہنگامہ برپا کردیا۔برطانوی
سامراج کے محلات میں ہل چل مچ گئی جس سے منٹو کی ادبی اور عوامی حلقوں میں
مقبولیت میں اضافہ ہوتا چلا گیا ۔1936ء میں منٹو بمبئی چلے گئے اور "مصور"
رسالے میں ملازم ہوگئے۔ ساتھ ساتھ امپریل فلم کمپنی میں بھی کام کرتے رہے ۔بعدازاں
"سماج "میں چلے گئے۔یہاں ان کا رجحان فلمی کہانیاں لکھنے کی طرف ہوا۔یہاں
انہوں نے ایک فلم کی کہانی "کیچڑ" کے نام سے لکھی جسے "اپنی نگریا "کے نام
سے فلما کر پیش کیا گیا ۔یہ فلم کافی کامیاب رہی ۔1939ء میں منٹو کی شادی
ہوگئی ۔شادی کے بعد آپ نے مصور اور سماج کو چھوڑ کر "کارواں "میں ملازمت
اختیار کرلی ۔1941ء میں آل انڈیا ریڈیو دلی میں فیچر رائٹر اور ڈرامہ نویس
کی حیثیت سے ملازمت کا آغاز کیا ۔1942ء میں ان کا افسانہ" کالی شلوار" ادب
لطیف میں شائع ہوا۔اس افسانے کی اشاعت کے بعد پرنٹر، پبلشراور ایڈیٹر کے
خلا ف تعزیرات ہند کی دوفعہ 292 کے تحت مقدمہ درج ہوا۔1944ء میں ان کی کتاب
"دھواں" کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوا۔ اسے بھی فحش قرار دے کر منٹو پر مقدمہ
درج ہوگیابلکہ ان کی گرفتاری عمل میں آئی ۔لیکن یکم جون 1946ء کو منٹو کو
اس مقدمہ سے بری کردیا گیا۔قیام پاکستان کے بعد آپ لاہورتشریف لے آئے اور
یہاں لکشمی مینشن مال روڈ میں مقیم ہوئے ۔یہا ں آکر فیض احمد فیض اور چراغ
حسن حسرت کی ادارت میں شائع ہونے والے اخبار امروز میں لکھنے کا آغاز
کیا۔منٹونے ایک افسانہ "کھول دو"کے عنوان سے لکھ کر احمد ندیم قاسمی کے
سپرد کردیا جو نقوش کے اگست 1948ء کے شمارے میں شائع ہوا تو ایک ہنگامہ
برپا ہوگیا۔چنانچہ حکومت نے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت نقوش رسالہ چھ ماہ کے
لیے بند کردیا ۔بعد ازاں منٹو کا افسانہ "ٹھنڈا گوشت" عارف عبدالمتین کے
رسالے جاوید کے مارچ 1949ء ایڈیشن میں شائع ہوا جس پر ایک بار پھر مقدمہ
درج ہوا۔منٹو سمیت پرنٹر، پبلشر اور ایڈیٹر کو تین ماہ قید بامشقت اور
جرمانے کی سزا سنائی گئی ۔1950ء میں منٹو نے ہفت روزہ "نگارش "کی ادارت
سنبھالی ۔لیکن منٹو کے آخری پانچ سال عدالتوں اور مقدمات کا سامنا کرتے ہی
گزرے ۔جس سے انکی ذہنی حالت بدستور بگڑنے لگی ۔ان کی صحت میں کچھ بہتری
پیدا ہوئی تھی کہ کراچی کے رسالے "پیام مشرق"نے منٹو کی اجازت کے بغیر ان
کا افسانہ "اوپر نیچے اور درمیان "شائع کردیا ۔افسانے کی اشاعت پر کراچی سے
منٹو کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیئے گئے ۔عدالت میں پیش ہوکر منٹو نے اقبال
جرم کرلیا جس پر انہیں پچاس روپے جرمانہ کیاگیا ۔لاہور واپسی پر ان پر
یرقان کا حملہ ہوا ۔یہاں دوماہ گزارنے کے بعد سعادت حسن منٹو 18جنوری 1955ء
کواپنے خالق حقیقی سے جا ملے ۔تدفین میانی صاحب قبرستان میں ہوئی ۔منٹو نے
اردو ادب کی مختلف نثری اصناف ،افسانہ ،ڈرامہ ، مضمون اور خاکہ نگاری میں
بھی طبع آزمائی کی ۔افسانے مجموعوں میں آتش پارے ،منٹو کے افسانے ، دھواں،
لذت سنگ ، چغد شامل ہیں ،ریڈیو ڈراموں میں آؤ ، منٹو کے ڈرامے ، جنازے ،
کروٹ اور تین عورتیں شامل ہیں ۔تراجم میں روسی افسانے ، گورکی کے افسانے ،
سرگزشت اسیر،ویرا شامل ہیں ۔مجموعہ مضامین میں تلخ، ترش، شیریں ، اوپر،نیچے
اور درمیان شامل ہیں ۔خاکوں کے مجموعوں میں گنجے فرشتے اور لاؤد سپیکر شامل
ہیں ۔عام طور پر کہا جاتا ہے سعادت حسن مرگیا لیکن منٹو اپنے افسانوں میں
آج بھی زندہ ہے۔
|