سکیورٹی اداروں کے خلاف سازش

پاکستان عالمی اور علاقائی طاقتوں کی سازشوں کا گڑھ بن چکا ہے ،گزشتہ دس سال سے وطن عزیز دہشت گردی کی آگ میں جل رہا ہے انسانی لاشیں گر رہی ہیں تو انسان زخمی اور اپاہج بھی ہو رہے ہیں ، عمارتوں ،کاروباری اداروں،بازاروں،سکولوں،مساجداور درباروں میں خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے ا ور اس دھرتی پاکستان پر پاکستانیوں کا ہی خون بہہ رہا ہے ،،موجودہ کی طرح سابق حکومت کے وزیر داخلہ بھی اسے اغیار کی سازش، دہشت گردوں کی کارستانی اور ملک دشمن عناصر کی کاروائی قرار دیتے رہے لیکن ہمیں بیانات دینے اور میڈیا میں آنے سے کیا امن و امان کی صورت حال درست ہو جائے گی؟

ایبٹ آباد، خروٹ آباد کوئٹہ ، کراچی،منڈی بہاؤ الدین، اسلام آباد اور پشاور میں گزشتہ چند دنوں جو کچھ ہوا وہ کسی بھی طور پر ہمیں ایک سکیورٹی ر سک اسٹیٹ قراد دینے کے لئے کافی ہے ،شاید یہی وجہ ہے کہ گزشتہ سال کی طرح اس دفعہ بھی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے بجٹ میں پولیس اور قانون نافذکرنے والے دیگر اداروں کے لئے رقم میں اضافہ کر دیا گیا ہے لیکن کیا عوام کے خون پسینے میں نچوڑے گئے ان کے ٹیکس سے قانون نافذ کرنے والے ادارے انکی خدمت کرپا ئیں گے یا اس بار بھی پولیس کے تنومند اور بہترین ذہن ہمارے حکمرانوں کی حفا ظت پرہی مامور رہیں گے انکے سکواڈ میں شامل گاڑیاں بلٹ پروف ، جدید اور فٹ ہوں گی انکے مشاہیر میں بھی دیگر اداروں کی نسبت زیادہ اضافہ کیا جائے گا اور یہ تفریق قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اند ر بھی خلیج پیدا کرنے کا سبب بنے گا اور اسی بات کے اغیار خوہش مند ہیں کہ اداروں کے اند تشکیک پسندی، انتہا پسندی اور علحیدگی کے رجحانات پیدا ہوں ۔

گزشتہ چند سالوں کی تاریخ پر اگر ہم نظر ڈالیں تو جعلی طالبان اور تخریب کاروں نے انہی اداروں کو نقصان پہنچایا جو پاکستان کے دفاع اور سلامتی پر مامور ہیں اور دہشت گردی کی جنگ میں 34 ہزار مارے جانے والے ناحق پاکستانیوں میں سے ان کی اکثریت ہے لیکن اس کے باوجود خروٹ آ باد میں ناحق تاجک اور چیچین باشندوں کو ایف سی اور پولیس اداروں نے جس بے دردی سے مارا یا کراچی میں بے نظیر بھٹو پارک میں میٹرک کے نوجوان اعجاز شاہ کو رینجر اہلکار نے گولیاں ماریں اس سے ملک بھر میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی کہ آخر ہمارے سکیورٹی پر مامور سکیورٹی اداروں میں ایسے درندہ صفت افراد کہاں سے آ گئے جو پورے ادارے کی حرمت پر انگلی اٹھانے کا سبب بنتے ہیں ۔

چیف جسٹس آف پاکستان افتخا ر محمد چوہدری نے اگرچہ رینجر فائرنگ کیس کا از خود نوٹس لیتے ہوئے آئی جی سندھ اور ڈی جی رینجر سندھ کو تین دن میں ہٹانے کو حکم دیا ہے جس پر مقررہ و قت گزر جانے کے باوجود عمل نہیں ہو سکا لیکن کیا یہ درست ہے کہ انتہائی پیشہ ور افراد جو ا داروں کے سربراہ بھی ہوتے ہیں انہیں کسی اور کے جرم میں نشانہ بنایا جا ئے اور اگر یہ روش چل پڑی تو پھر سکیورٹی اداروں کی سکیورٹی بذات خود ایک مسئلہ بن جائے گا اور بیرونی دنیا تو یہی چاہے گی کہ یہ عوامی اثا ثے آپس میں تقسیم ہوں کبھی آئی ایس آئی پر انگلی اٹھائی گئی اور کبھی خروٹ آباد کوئٹہ اور بے نظیر پارک کراچی کے واقعات بھی ایسے ہی ہیں جس سے ان اداروں کے متعلق عوام میں نفرت پیدا ہونا شروع ہو گئی ہے اور یہی دشمن ریاستیں چاہتی ہیں ۔

معاشرے میں تنزلی کا جو رجحان پایا جاتا ہے اس کے اثر سے پاکستان کے سلامتی کے ادارے ماضی میں کم و بیش محفوظ رہے لیکن اب جبکہ نیٹو ممالک کو افغانستان میں اپنی شکست کے بعدڈیڈ لائن قریب ‘آتی نظر آ رہی ہے تو وہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کی طرح پاکستان کو عالمی برادری میں بدنام کرکے یہ تاثر راسخ کرنا چاہتا ہے کہ پاکستا ن کے سکیورٹی ادارے اتنے اہل نہیں کہ وہ جوہری اثاثوں کی حفاظت کر سکیں وہ تو طالبان کے سامنے بے بس ہو چکے ہیں اور اپنی حفاظت کرنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے ہیں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے سکیورٹی اداروں کے درمیان رابطہ کاری کا موثر نظام ہونا چاہئیے تاکہ کمزور مقامات کو مضبوط کرکے غیروں کی ہر سازش کو ناکام بنایا جا سکے۔
Shehzad Iqbal
About the Author: Shehzad Iqbal Read More Articles by Shehzad Iqbal: 65 Articles with 43842 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.