بجٹ اجلاس میں ارنب اور اروناچل

کسانوں کی تحریک اور یوم جمہوریہ کے موقع پر ہنگامہ توقع کے خلاف نہیں ہے۔ دومہینے سے کڑاکے کی سردی میں احتجاج کرنے والےمظاہرین کو اگر حکومت نظر انداز کرے تو ان کے صبر کا پیمانہ کبھی نہ کبھی چھلکے گا سو یوم جمہوریہ کو چھلکا اور اس کے سرکار کا رویہ ذمہ دار ہے۔ اس کو ان کالے قوانین کو واپس لینے کے لیے دو ماہ کا وقفہ ملا مگر اس نے اسے گنوا دیا۔ اب حزب اختلاف بجٹ اجلاس میں سرکار کو اس مسئلہ پر گھیرے گی مگر اس کے پاس حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کے لیے ارنب گوسوامی کا معاملہ بھی ہے ۔ ممبئی پولیس نے ارنب گوسوامی اور بھارتی براڈ کاسٹ آرڈینس ریسرچ کونسل (بارک) کے سابق سربراہ پارتھو داس گپتا کے درمیان واٹس ایپ پر ہونے والی بات چیت کے512 صفحات پر مشتمل دستاویز عدالت میں پیش کردیئے ہیں۔ اس سے کانگریس اور شیوسینا کے تو بلےّ بلےّ ہوگئے ہیں ۔

اس ترسیل میں نہ صرف ٹیلی ویژن کی ریٹنگ میں فریب کاری اور بدعنوانی بلکہ قومی سلامتی سے متعلق بھی سنگین معاملات کا انکشاف ہوتا ہے۔یہ گفت و شنید گواہ ہے کہ ارنب گوسوامی کے پی ایم او، وزارتِ اطلاعات و نشریات اور قومی سلامتی کے مشیر سے قریبی مراسم ہیں۔ اس گفتگو سے اشارہ ملتا ہے کہ پلوامہ حملہ اور بالاکوٹ کارروائی پہلے سے طے تھی اور ارنب کو اس کی اطلاع مل گئی تھی۔ یہ بات اگر عدالت میں ثابت ہوجائے تو عجیب و غریب صورتحال بنے گی ۔ اس طرح ایک طرف توارنب گوسوامی کے صحافی نہیں بلکہ سرکاری دلال ہونے پر مہر لگ جائے گی ۔ دوسری جانب کسان رہنما علی الاعلان حکومت کو سرمایہ داروں کی دلال قرار دے رہے ہیں ۔ وہ الزام بھی اگر درست نکل آئے تب تو اس میں کوئی شک شبہ نہیں رہے گا کہ وطن عزیز دلالوں کے دلدل میں پھنس چکا ہے۔

حکومتِ ہند نے پلوامہ حملے کے لیے پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرا کر 26 فروری کو بالاکوٹ پر سرجیکل سٹرائیک کر دیا تھا ۔ اس حملے سے تین روز قبل ارنب نے پارتھو داس کو لکھا کہ کچھ بڑا ہونے والا ہے۔اس انکشاف پر گپتا سوال کرتا ہے کہ کیا داؤد ابراہیم کے خلاف کارروائی ہو گی تو ارنب جواب دیتا ہے نہیں پاکستان کے خلاف ایسی کارروائی ہو گی کہ ملک کے عوام جوش میں آجائیں گے۔ اس انکشاف سے پاکستان کو بھی تنقید کا موقع مل گیا ۔ وزیرِ اعظم عمران خان نےاپنے ایک ٹوئیٹ میں لکھا کہ نریندر مودی نے بالاکوٹ واقعہ کو انتخابات میں کامیابی کے لیے استعمال کیا اور اب اس حوالے سے ہندوستانی صحافی کے انکشاف کے بعد مودی حکومت اور بھارتی میڈیا کے درمیان گٹھ جوڑ بے نقاب ہو گیا ہے۔ارنب گوسوامی اور پارتھو داس گپتا کے بیچ کی یہ مراسلت پلوامہ حملے اور بالاکوٹ کارروائی کے درمیانی وقفہ یعنی 14 فروری 2019 کی ہے ۔ اسے پڑھ کر محسوس نہیں ہوتا کہ پلوامہ کے اندر مارے جانے والے 44 سیکیورٹی اہلکاروں کی موت پر ان دونوں دیش بھکتوں کو ذرہ برابر افسوس ہے۔ اس کے برعکس وہ پر مسرت دکھائی دیتے ہیں۔ ارنب کی خیرخواہی نے حکومت وقت کےلیے ’ نادان کی دوستی جی کا جنجال‘ بن گئی ہے۔

ارنب گوسوامی کے مبینہ واٹس ایپ چیٹس کے معاملے میں کانگریس کے رہنما سلمان خورشید نے نامہ نگاروں کوبتایا کہ ان کی پارٹی اس مسئلہ کوایوانِ پارلیمان میں اٹھائے گی کیونکہیہحساس معاملہ قومی سلامتی سے متعلق ہے ۔اس کی تفصیل بتاتے ہوئے سلمان خورشید نے کہا کہ ، "ہم حقائق کو سامنے سامنے لانے کاپرزور مطالبہ نہیں کرتے ہیں ۔ ہم عوام اور میڈیا کی عکاسی کرنا چاہتے ہیں۔ ان معاملات کو ایوانِ پارلیمان میں اس لیے اٹھایا جائے گا تاکہ ہم دیکھیںحکومت اس پر کس قسم کے اقدامات کرتی ہے''۔سلمان خورشید سے قبل کانگریس کے سینئر رہنما اور سابق مرکزی وزراء اے کے انٹونی ، غلام نبی آزاد اورسشیل کمار شندے نے بھی پریس کانفرنس میں بالاکوٹ فضائی حملے سے متعلق معلومات کے افشا ہونے پر تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ سلمان خورشید نے سرکار کے ذریعہ عدلیہ پر اثر انداز ہونے کی کوششوںپر تنقید کی اور عدالتی نظام کے تئیں شدید تشویش کا اظہار کیا۔

کانگریس کا الزام ہے کہ بی جے پی نے انتخاب جیتنے کے لیے بالاکوٹ میں فضائی کارروائی کی جس کا ارنب گوسوامی کو پیشگی علم تھا۔ منیش تیواری نے اپنے ایک ٹوئیٹ میں لکھا کہ " میڈیا کی اطلاعات اگر درست ہیں تو بالاکوٹ میں فوجی کارروائی اور 2019 کے انتخابات سے براہِ راست تعلق ہے اور انتخابی فائدے کے لیے قومی سلامتی سے سمجھوتہ کیا گیا ہے۔ پی چدمبرم نے سوال کیا کہ اگر ایک صحافی کو بالاکوٹ کارروائی کا تین روز قبل علم ہو گیا تھا تو اس کی کیا ضمانت ہے کہ اس نے دوسروں کو اس کی اطلاع نہ دی ہو؟ رکن پارلیمان ششی تھرور نے بھی اس معاملے پر کئی سوالات اٹھانے کے بعد پورے معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔کانگریس کے علاوہ شرد پوار کی راشٹروادی کانگریس پارٹی اور بائیں بازو نے بھی اس سنگین معاملےمیں پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی سے آزادانہ تحقیقات کروانے کے حق میں آواز بلند کی ۔این سی پی نے تو اس پر صرف تشویش کا اظہار کیا لیکن کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے اس قومی سلامتی کے معاملہ پر کارپوریٹ کی ملکیت والے میڈیا، آر ایس ایس، بی جے پی اور حکومت کے درمیان گٹھ جوڑ کی بے نقابی قرار دیا ۔

بجٹ سیشن سے قبل ارونا چل پر دیش سے آنے والی سنسنی خیز خبر بھی حکومت کے لیے ایک بڑا دردِ سر بن سکتی ہے ۔ مشرقی لداخ میںلائن آف کنٹرول کو گزشتہ سال کے وسط میں پار کرنے کے بعد اب چین نے اروناچل پردیش میں ہندوستان کی سرحد کے اندر ساڑھے چار کلومیٹرگھس کر ایک گاؤں بسا لینے کی اطلاعات نے ایک نیا ہنگامہ کھڑا کردیا ہے۔ سیٹیلائٹ تصویروں کے ذریعے ملنے والی معلومات کے مطابق تقریباً ڈھائی مہینے پہلے نومبر 2020 میں پڑوسی ملک چین نے حرکت کرڈالی اور اس پر عوام کے علاوہ حزب اختلاف نے بھی شدید تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ کانگریس اسے ہندوستان کے وقار پر ضرب قرار د ے کر حکومت کو سخت کارروائی کرنے کا مطالبہ کررہی ہے۔ راہل گاندھی نے اس واقعہ سے متعلق ایک خبر ٹوئیٹ کرکے وزیر اعظم کا مشہور مکالمہ اور ترانہ ’ ملک جھکنے نہیں دوں گا‘ کی یاد دلائی ہے ۔ اسی طرح پارٹی کے ترجمان رندیپ سنگھ سرجے والا نے بھی اس خبر کو پوسٹ کر کے وزیراعظم نریندر مودی سے سوال کیا ہے کہ مودی جی کا 56 انچ والاسینہ کہاں ہے ؟

حکومت کا رویہ لداخ کی مانند پھر سے انکار کا ہے مگر اس بار وزیر اعظم کے بجائے شعبہ دفاع کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل ایچ پانڈے کو آگے کیا گیا ہے۔ انہوں اس دعویٰ کو بے بنیاد کہہ کر خارج کرتے ہوئے کہا کہ تعمیر شدہ ژیوکنگ گاؤں1959 سے چین کے قبضہ میں ہے ۔ چین کے زیرانتظامیہ علاقہ پاکستانی مقبوضہ کشمیرکی طرح ہندوستان کے قبضے میں نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اروناچل پردیش میں بھارتی سرحد کے تقریبا ساڑھے چار کلومیٹر بالائی سبنسری ضلع میںایک چینی گاؤں کے سیٹلائٹ تصاویر بھی اب سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی ہیں۔ ان میں چوڑی سڑکیں اور سیکڑوں کثیر المنزلہ عمارتیںنظر آتی ہیں جن میں چینی باشندے آباد ہیں اوران پر چینیپرچم لہرا رہا ہے۔ یہ خبر بھی گردش کررہی ہے کہ چینی صدر اس طرح کے600 گاؤں بنانا چاہتے ہیں ۔ اس پر بھی دفاعی ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ 1995 سے اروناچل پردیش کے اس علاقے پر چینقابض ہے۔ کچھ سال پہلے چینی فوج نےیہاں ایک فوجی چوکی قائم کی جو سطح سمندر سے تقریبا 2700 میٹر کی اونچائی پر واقع ہے۔ سوال یہ ہے کہ اسے روکنے کے لیے سرجیکل اسٹرائیک کیوں نہیں کیا گیا؟ جو سنگھ چین کے معاملے میں پنڈت نہرو سے معاونت پر فخر جتاتا ہے وہ مودی جی کی مدد کے لیے آگے کیوں نہیں آیا؟

اس معاملے میں راہل گاندھی نے حکومت پر خوب تنقید کی اور اس کچھ نہ کچھ جواب بی جے پی والوں نے دیا مگر ان کے پاس شیوسینا کے ترجمان سامنا کے ذریعہ کھڑے کیے گئے سوالات کا کوئی جواب نہیں ہے۔ سامناکے مطابق اروناچل پردیش میں آباد’’ شوگر گاؤں‘‘ میں چین نے بھارتی سرحد کے اندرایک گاؤں بسا لیا ہے۔سامنا سوال کرتا ہے کہ یہکارروائی کئی مہینوںمیں مکمل ہوئی اور اسدوران ہمارے پردھان سیوک کیاکر رہے تھے'؟اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ اس سے قبل لداخ میں کئی کلومیٹر تک بھارتی علاقوں میں گھس کر چین نے ہزاروں مربع کلومیٹر اراضی پر قبضہ کرلیا تھا مگر حکومت کے کان پر جوں نہیں رینگی ۔اخبارمزید لکھتا ہےکہ' بدقسمتی سے جب لداخ کی وادی گلوان میں چینی گھس گئے توہمارے وزیر اعظم نریندر مودی نے دعوی کیا کہ چینی فوجی ہماری سرحد میں داخل نہیں ہوئے ۔ چینی حکومت چونکہوادی گلوان میں پہلے ہی دخل اندازی سے انکار کرتی رہی تھی۔ بدنامی کے خوف سے ہماری حکومت کا ابتدائی کردار بھیوہی تھا جس نے چین کو موقع دیا اور وادی میں گلوان میں انہوں نے خود کو مضبوط کرلیا۔ ظاہر شیوسینا اور کانگریس بجٹ سیشن میں اسے اٹھائیں گے اور اس بار معیشت کے مقابلے سیاست غالب رہے گی ۔ ایسے میں حکومت کے لیے اپنا دفاع کرنا بے حد مشکل ہوجائےگا بعید نہیں کہ اس سے بچنے کے لیے وزیر داخلہ آرام کی غرض سے میدانتا اسپتال میں داخل ہوجائیں ۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450494 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.