یہ کیا، میرے ملک کا دستور ہوگیا

15اگست اور 26جنوری ہندوستان کی تاریخ کے دو اہم دن ہیں۔ 15اگست یوم آزادی اور 26جنوری یوم جمہوریہ کے حوالے سے ہر سال ملک بھر میں بڑے تزک و احتشام سے منائے جاتے ہیں۔تمام ہندوستانیوں کے لئے یہ دودن پاسداری و تجدید عہد کے دن ہیں۔26جنوری 1950کو ہندوستان کا آئین (جو دنیا بھر میں اپنی انفرادیت اور کثرت میں وحدت کی وجہ سے احترام ووقار کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ )نافذہوا ۔آئین ہند کا مسودہ دستور ساز اسمبلی نے تیار کیا۔ دستور ساز اسمبلی کے ارکان کو صوبائی اسمبلیوں کے منتخب ارکان نے منتخب کیاتھا۔ ابتداً ارکان کی تعداد 389 تھی لیکن تقسیم ہند کے بعد ان کی تعداد 299ہو گئی۔9دسمبر 1946سے24جنوری1946 تک یہ دستور سازاسمبلی قائم رہی۔آئین کی تدوین میں تین سال لگے اور اس عرصے میں 165 ایام پر محیط 11 اجلاس منعقد ہوئے۔165دنوں پر محیط 11اجلاس میں آزاد بھارت کے نئے دستور کی ہر شق پرسنجیدگی سے غوروفکر اور بحث و مباحثہ کے بعد بالآخر اسے 26نومبر1949کو قبول کرلیاگیا۔ دستور سازاسمبلی کے آخری مختصر اجلاس مورخہ 24جنوری 1950کو تمام ارکان دستور ساز اسمبلی نے سوائے مولانا حسرت موہانی کے سبھی نے اس پر اپنے دستخط ثبت کئے۔ 26جنوری 1950کو آئین ہند ملک پر نافذ ہوگیا۔ دستور ساز اسمبلی کے اہم ارکان میں ڈاکٹر بھیم راؤ امیڈکر،سنجے فاکے،پنڈت جواہر لعل نہرو،چکرورتی راج گوپال چاری،ڈاکٹر راجندرپرساد،ولبھ بھائی پٹیل،کنہیالال مانک لال منشی،گنیش واسودیوماوالانکار،مولانا ابوالکلام آزاد،شیاما پرساد مکھرجی،نینی رنجن گھوش اور بلونت رائے مہتا شامل تھے۔دستور ساز اسمبلی کے 30نمائندے درج فہرست طبقات و قبائل کی نمائندگی کررہے تھے۔اینگلوانڈین کی فرینک انتھونی،پارسی طبقے کی پی ایچ مودی،کرسچن اسمبلی کے نائب صدر ہریندرکمار مکرجی غیر اینگلوانڈین عیسائیوں ،اری بہادر گورنگ گورکھا قبیلے کی نمائندگی کررہے تھے ۔الاڈی کرشنا سوامی ایئر،بنینگال نرسنگ راؤ،کے ایم منشی اور گنیش ماولنکر جیسے جج بھی دستور ساز اسمبلی کے رکن تھے۔بلبل ہند سروجنی نائیڈو،ہرشا مہتا،درگابائی دیش مکھ،امرت کور اور وجیالکشمی پنڈت خواتین اراکین میں شامل تھیں۔دستور ساز اسمبلی کے پہلے صدر صرف دودن کے لئے سچدانندا سنہامنتخب ہوئے تھے اور بعد میں ڈاکٹر راجندپرساد اس کے صدر مقرر ہوئے ۔

دستور ہند کی رو سے ہندوستان ایک سیکولر جمہوریہ ہے جس کا خواب ہمارے رہنماؤں نے دیکھا تھا۔ کئی سیاسی بدعنوانیوں کے باوجود آج بھی ہمارا ملک ایک مضبوط انتخابی جمہوریت کی صورت باقی ہے۔ملک کا آئین شہریوں کو آزادی کی ضمانت فراہم کرتا ہے جس میں آزادی اظہار اور مذہب کی آزادی بھی شامل ہے۔دستور ہند کی اساس اگرچیکہ جمہوریت اور سیکولرازم ہیں لیکن آزادی کے بعد سے ہی سیکولر نظریات ہندو فرقہ پرستوں کی تنقیدوں کے نشانے پر رہے ہیں ۔ تقسیم ہند سے قبل جاری گاندھی اور گوڈسے کا فکری نظریاتی تصادم آج بھی جاری ہے۔ ہندوستان میں مذہب کا استعمال روحانی تسکین و تزکیہ نفس کے بجائے مذہبی منافرت ،تعصب ا ور فرقہ پرستی جیسے انسانیت سوز جذبات کے فروغ کے لئے کیا جاتا ہے۔ہندوستان میں کئی مذاہب ،نسلیں ، تہذیبیں اور زبانیں پائی جاتی ہیں ۔ تنوع میں اتحاد ہندوستان کا طرہ امتیاز ہے۔ملک میں مسلمانوں یا کسی اقلیتی مذہب سے نفرت نئی بات نہیں ہے ۔صدیوں قبل بدھ مت اور جین مت بھی نفرت اور تعصب کے اس الاؤ میں جھلس چکے ہیں۔ہندو ؤں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت کے بیج جو تحریک آزادی کو سبوتاج کرنے کے لئے انگریزی سامراج نے ڈالے تھے وہ آزادی کے بعد بڑی تیزی سے خود روجنگلی پودوں کی شکل گلشن ہند کی خوب صورتی کو بگڑ رہے ہیں۔1947میں ہندواکثریتی ہندوستان اور مسلم اکثریت پاکستان(بشمول موجودہ بنگلہ دیش) کی صورت مادرہند تقسیم ہوگئی۔تقسیم کے نتیجے میں مہلک فسادات اور بھیانک فرقہ وارانہ تشدد بھڑک اٹھے۔جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر مسلمانوں نے پاکستان اور ہندوؤں اورسکھوں نے ہندوستان ہجرت کی۔ایک ملک سے دوسرے ملک ہجرت کرنے والے مہاجرین کے گھروں کو زمین بوس کیا گیا۔حیوانیت کا ننگا ناچ ہوا۔ سڑکوں پر نعشیں پھینکی گئیں ۔صدیوں سے امن وآشتی اور محبت سے ایک ساتھ رہنے والے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے۔ ابتداً اس کی وجہ انگریز کی ڈی وائڈ اینڈ رول کی پالیسی تھی اور بعد میں اسی پالیسی کے تحت منصۂ شہود پر آئیں فاشسٹ تنظیموں نے ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف صف آرا کیا۔مسلم دشمنی پر مبنی ہندوقوم پرست تحریک کے ردعمل میں ملک کی تقسیم (پاکستان) کا مطالبہ کیا گیا جس کی ملک کے تقریباًمسلمانوں نے شدومد سے تنقید کی ۔تقیم ہند کے بعد بھی نفرت کے جلتے الاؤ میں مسلمانوں نے خود کو جھونک دیا لیکن کبھی وطن عزیز سے ہجرت گوارا نہیں کی۔تقسیم کے بعد تقریباً35ملین(تین کروڑ پچاس لاکھ) مسلمان ہندوستان میں ہی قیام پذیر رہے۔

دستور ہند کی نمایاں خصوصیات
بھارت کا دستور 395دفعات(Articles)ا،22بواب(Chapters)،12ضمیوں (Schedules)،اور 02تتموں (Appendix)پر مشتمل ہے۔ دستور میں واضح طور پر سماجی ،معاشی اور سیاسی انصاف کا تذکرہ کیا گیا ہے۔دستور کے دیباچے سے ہی دستور کی نمایا ں خصوصیات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔’’ہم ،بھارت کے عوام،بھارت کو ایک مقتدرسماج وادی سیکولرعوامی جمہوریہ بنانے کے لئے،اور اس کے تما م شہریوں کو ،سماجی،معاشی اور سیاسی انصاف،خیال و اظہار،عقیدہ،مذہب اور عبادت کی آزادی،بہ اعتبار حیثیت اور موقع مساوات ،حاصل کرانے کے لئے اور ان سب کے مابین فرد کی عظمت اور قوم کے اتحاد اور سالمیت کو یقینی بنانے والی اخوت کو فروغ دینے کے لئے ،متانت وسنجیدگی کا عزم کرتے ہوئے اپنی آئین ساز اسمبلی میں آج مورخہ 26نومبر1949کو ذریعہ ہذا اس آئین کو اختیار کرتے ہیں،وضع کرتے ہیں اور اپنے اوپر نافذ کرتے ہیں۔‘‘

حق مساوات) آئین کی دفعہ (14,15 ،تقریر،اظہار، اجتماع،جلوس ،جلسے،ملک کے کسی بھی حصہ میں بود و باش،ملک بھر میں آزادانہ نقل و حرکت،پیشہ،کاروبار و دہندہ اختیار کرنے کی آزادی (آئین کی دفعہ 19تا22) ، آزادانہ طور پر مذہب پر عمل،عبادت ،مذہبی عقیدے کی تبلیغ ،تشہیر اور اپنے عقیدہ و اصولوں پر چلنے کی آزادی (آئین کی دفعہ 25)،ثقافتی و تعلیمی حقوق(آئین کی دفعہ 29,30)،حق جائیداد اوردستوری چارہ جوئی کا حق وغیرہ آئین ہند کا وصف خاص ہے۔

آئین ہند میں مذہب کا عنصر اور ہندو قوم پرستی کا فروغ
مجاہدین آزادی نے ایک ایسے ہندوستان کی وکالت کی تھی جہاں ہر ایک کو مذہب و اظہار کی آزادی حاصل ہو انھیں عدل و انصاف ملے۔اپنے مذہب اور عقائد پر چلنے اور ان کی ترویج کی آزادی حاصل ہو۔لیکن تمام امتیازات سے پاک ایک سیکولر ریاست کا تصور کرنے والے گاندھی کو ایک ہندو قوم پرست نے قتل کرڈالا۔ پنڈت نہرو ملک کو فرقہ وارانہ نفرت سے پاک کرنے،پرامن معاشرے کی تشکیل،تقسیم اور تقسیم کے بعد پیدا ہونے والے حالات سے محفوظ ر رکھنے ، ایسی کسی بھی تحریک و نظریات کو پھر سے سر اٹھانے سے باز رکھنے اور ملک کی سالمیت تحفظ و بقا کے لئے سیکولرازم کو نہایت ضروری تصور کرتے تھے۔وہ سیکولرازم کے ذریعے قوم کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے والوں کا سدباب چاہتے تھے۔بڑھتی مذہبی منافرت کے سدباب کے لئے 1976میں لفظ سیکولر کو دستور میں شامل کیا گیا۔ملک کا ستر سالہ آئین مساوات پر مبنی اصولوں پر عمل پیرا ہے۔ ہندوقوم پرستی کے نظریہ ساز وی ڈی ساورکر نے اپنی کتاب ہندوتوا: ہندو کون ہے؟ (Hindutva:Who is Hindu)میں 1920 میں پہلی بار ہندو قوم پرستی کا اظہار کیا ۔ ہندو قوم پرستوں کا خیال ہے کہ ہندوؤں کا اسی مقدس سرزمین سے تعلق ہے اسی لئے وہ ’’مادر ہند کے حقیقی بیٹے" ہیں ۔ جبکہ عیسائی اور مسلمانوں کا تعلق مادر ہند کی مقدس سرزمین سے نہیں ہے کیونکہ وہ بیرونی حمہ آور وں کی اولاد ہیں۔جب کہ ان نظریات کا تاریخی حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہے۔حقیقت میں مسلمان اور عیسائی زیادہ تر ان ہندوؤں کی اولاد ہیں جنہوں نے اسلام مذہب قبول کیا۔ایسے گمراہ کن مفروضات کا مقصد مذہبی منافرت کا فروغ اور ملک کو انتشار کی راہوں پر ڈالنا ہے۔ان ہتھکنڈوں کوہندومہاسبھا اور راشٹریہ سیوئم سنگھ(آرایس ایس) کے قیام سے ہی تحریک آزادی کو متاثر کرنے کے لئے استعمال کیا گیا۔ایمرجنسی کے بعد 1980 میں بی جے پی کے قیام کے بعد ہندوستان کے سیکولر ماڈل پر ہندوقوم پرستوں نے دباؤ ڈالنا شروع کردیا۔اندراگاندھی نے 1977میں انتخابی شکست کا سامنا کرنے کے بعد اپنی جماعت کانگریس کو واپس اقتدار میں لانے کے لئے مذہبی استحصالی سیاست کا استعمال کیا۔ا ندراگاندھی کا ان کے اپنے سکھ محافظ دستوں کے ہاتھو ں قتل کے بعد اقتدار پر فائز ہونے والے ان کے فرزند راجیوگاندھی نے بھی ہندواکثریت کو رجھانے کی سیاست اختیار کی۔’کنچن چندرا ‘اپنے آرٹیکل مورخہ 11ستمبر2019 ’’فارن افیئر ‘‘میں رقم طراز ہیں۔’’کئی دہائیوں سے کانگریس کی سیکولر نظریات پسندی(جعلی ہی سہی)نے بی جے پی کی ہندو انتہا پسندی کے نظریے کوزرخیز زمین فراہم کردی۔(Congress sustained move toward Hindu Majoritarianism over several decades created fertile ground for the more extreme ideology of te BJP.Kanchan Chandra)

بھارتیہ جنتا پارٹی جو RSSکی ذیلی سیاسی تنظیم ہے نے اس صورت حال کا بخوبی استعمال کیا۔بی جے پی نے1998کے انتخابات میں اقتدار پر قبضہ کیا اور اپنے اتحادیوں کے ذریعہ کانگریس کے 2004میں اقتدار سنبھالنے تک اپنی بنیادی مقاصد کے حصول میں کامیاب رہی۔ان بنیادی مقاصد میں ایک متنازعہ مسلم اکثریتی ریاست جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ،ایودھیا میں رام مندر کی تعمیراور یکساں سول کوڈ و و غیرہ پر اپنے ہم نواؤں کی تلاش تیز کردی۔2014میں بی جے پی لوک سبھامیں سب سے بڑی پارٹی کے طور ابھر کر آئی اور نریندر مودی وزیراعظم بن گئے۔2019کے عام انتخابات میں بی جے پی اپنی فرقہ وارنہ تقسیم پر مبنی سیاست سے پھر ایک مرتبہ برسراقتدار آگئی۔یہ حکومت اپنی معیاد 2024تک مکمل کرے گی کیونکہ اس مرتبہ اس کو واضح اکثریت حاصل ہے۔مودی حکومت سے واضح اشارے مل چکے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے مسائل کے حلل میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی اور شاید اقلیتوں نے ان سے توقع بھی چھوڑ دی ہے۔سرکاری طور پر اس قسم کے اشاارات سے مسلم دشمنی کے جذبات میں واضح اضافہ ہوا ہے۔

مسلمانوں کے ساتھ امتیاز ی سلوک و استحصال
مسلمانوں کو روزگار،تعلیم،رہائش سمیت کئی زمروں میں امتیازی سلوک کا سامناکرنا پڑرہا ہے۔سیاسی طاقت او ردولت صحت ،روزگار اور بنیادی خدمات تک رسائی میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔بڑے افسوس کی بات ہے کہ آئینی تحفظات کے باوجود مسلمانوں کو امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور اکثر حصول انصاف کے لئے مسلمان سخت جد وجہد کررہے ہیں۔’’کامن کاز ‘‘نامی ایک غیر سرکاری تنظیم نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ سروے میں 50%پولیس والوں نے مسلم مخالف تعصب کا اظہار کیا جس کی وجہ سے مسلمانوں کے خلاف جاری جرائم روکنے میں ان کی مداخلت کے امکانات موہوم رہے ہیں۔تجزیہ کاروں نے مسلمانوں پر حملہ کرنے والوں میں بڑی پیمانے پر بربریت کو نوٹ کیا۔چند برسوں میں عدالتوں اور سرکاری اداروں نے بعض اوقات سزاؤں کو بھی کالعدم قرار دیا یا ان معاملات کو واپس لے لیا جن میں ہندوؤں پر مسلمانوں کے خلاف تشدد میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا تھا۔اقتدار سے محروم کانگریس حکومت نے 2006میں ہندوستانی مسلمانوں کی مختلف جہات اور زمروں میں پسماندگی کاسروے کرتے ہوئے سچر کمیٹی رپورٹ کو منظر عام پر لایا۔اس رپورٹ نے پیشرو حکومتوں پر ہندوقوم پرستوں کی جانب سے مسلم خوشامد پسندی کے الزامات کی قلعی کھول کر رکھ دی اور ملک کے طول و عرض میں مسلمانوں کے ساتھ رواں عدم مساوات و امتیازی برتاؤ کی نشاندہی کی۔افسوس صد افسوس کے آج تک اس کی سفارشات پر عمل درآمد میں سبھی حکومتیں ناکام رہی ہیں۔

مودی حکومت کے مسلم دشمن اقدامات
دسمبر 2019میں ہندوستان کی پارلیمنٹ نے شہریت ترمیمی قانون (CAA)منظور کیا اور وزیر اعظم نے اس پر دستخط ثبت کردیئے ۔اس قانون کی رؤ سے ہندو،سکھ،بدھ،جین،پارسی ، افغانستان ،بنگلہ دیش اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کو سرعت سے شہریت حاصل کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ماہرین قانون کی نظر میں یہ قانون امتیازی سلوک پر مبنی ہے کیونکہ اس سے مسلمانوں کو خارج نہیں کیا جاسکتا۔اس کے علاوہ بالکل پہلی مرتبہ مذہبی بنیاد پرشہریت دینے کی بات کی گئی ہے۔حکومت کے مطابق یہ قانون ان تین مسلم اکثریتی ممالک میں ظلم و ستم کا سامنا کرنے والے کمزور مذہبی اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے بنایا گیا ہے۔اس کے علاوہ بی جے پی حکومت نے 2019کے اپنے انتخابی منشور میں قومی شہریت رجسٹر(NRC)کو مکمل کرنے کا وعدہ کیا ہے۔سیاست دانوں اور دانشوروں کی نظر میں اس سے بہت سارے مسلمان بے وطن بھی ہوسکتے ہیں۔اپنے ہندو ہم وطنوں کی طرح مسلمانوں کے پاس بھی اپنی شہریت ثابت کرنے کے لئے درکار دستاویزات نہیں ہیں۔ ہندوؤں کو اس سے استشنیٰ دیا گیا جب کہ مسلمانوں کو اس تکلیف دہ اور ہولناک عمل کی نذر کیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ مودی حکومت نے ملک کی واحد مسلم اکثریتی ریاست جموں کشمیر کو مختلف ریاستوں میں تقسیم کرتے ہوئے اس کی خصوصی آئینی خودمختاری کو بھی اگست 2019میں سلب کردیا۔کئی مہینوں تک اس خطے میں انٹرنیٹ اور موبائل اور فون سروس کو معطل کردگیا۔ہزاروں افراد کو نظر بند کیا گیایا انھیں نظربند رکھا گیاان میں قومی سطح کی اہم سیاسی شخصیات اور ان کے حامی کارکنان بھی شامل ہیں۔براؤن یونیورسٹی کے ہندوستانی بین مذہبی تنازعات کے ماہر’ اشتوس ورشنے ‘کے مطابق’’جب تک ہندوقوم پرست اقتدار میں ہیں جب تک ان حالات میں تبدیلی اور مسلمانوں کی حیثیت میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوسکتی۔(The longer Hindu Nationalist are in power, the greater the change will be to Muslims's Status and the harder it will be to reverse such changes.Ashutosh Varshney)

مسلمانوں پر تشدد کے مظاہرے:
1992 میں ، ہندو عسکریت پسندوں نے بابری مسجد کو منہدم کردیا۔ رپورٹس کے محتاط اندازوں کے مطابق تین ہزار افراد ، جن میں زیادہ تر مسلمان تھے ، فسادات کے نتیجے میں ہلاک ہو گئے یہ تقسیم(partition ) کے بعد سے اب تک کی سب سے مہلک مذہبی جھڑپ سمجھی گئی ہے۔ 2020 میں ، مودی حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد مسجد کے مقام پر ایک ہندو مندر کی بنیاد رکھی۔2002میں ایودھیا سے گجرات آنے والے ہندو مسافرین کی ریل میں آگ لگنے کے بعد ،ملک بھر میں مسلمانوں کے خلاف جھڑپیں شروع ہوگئیں۔جس میں درجنوں افراد ہلاک ہوگئے۔ مسلمانوں پر آگ لگانے کا الزا م لگایا گیا جو بعد میں بے بنیاد ثابت ہوا۔ گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا،مسلم خواتین کی عصمت در ی کی گئی،مسلمانوں کے کاروبار اور عبادت گاہوں کو تباہ کردیا گیا۔اپوزیشن پارٹی کے سیاستدانوں،انسانی حقوق کی تنظیموں ، انسانی حقوق کی تنظیموں ، اور امریکی قانون سازوں نے اس وقت کے گجرات کے وزیر اعلیٰ مودی اور بی جے پی حکومت پر تنقید کی کہ وہ تشدد کو روکنے میں ناکام رہے اور تشدد کو روکنے کے لئے انھوں نے خاطر خواہ اقدامات بھی نہیں کئے اس پر مستزاد یہ کہ فرقہ وارانہ تشدد کی پشت پناہی کی ۔حکومت ہند کی انکوائری میں ٹرین میں آگ کا لگنا محض ایک حادثہ تھا لیکن متضاد اطلاعات کے مطابق مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کے لئے ٹرین کی بوگی کو آگ لگائی گئی تھی۔

مظفر نگر فسادات ، 2013. مظفر نگر شہر کے قریب قصبوں میں ، ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین ہونے والی جھڑپوں میں ساٹھ سے زیادہ افراد ہلاک ہوگئے تھے ۔ یہ فسادات اس وقت رونما ہوئے جب مسلم مردوں کے ساتھ جھگڑے میں دو ہندو افراد کی ہلاکت واقع ہوئی تھی۔محتاط اندازے کے مطابق پچاس ہزار افراد ، جن میں زیادہ تر مسلمان تھے ، تشدد کی وجہ سے اپنے گھر بار چھوڑ کر فرار ہونے پرمجبور ہو گئے۔ بہت سے لوگ کئی مہینوں تک امدادی کیمپوں میں مقیم رہے اور کچھ افراد تو بعد میں بھی خوف کی وجہ سے اپنے گھروں کو واپس نہیں گئے۔

مسلم مخالف ہجومی تشدد
حالیہ عرصے میں بڑے پیمانے پر مسلمانوں پر ہجومی تشدد(Mob lynching)کے واقعات سامنے آئے۔حملوں کے بڑھ جانے کی وجہ سے سپریم کورٹ نے متنبہ کیا کہ اس قسم کے حملے ایک ’’نیا معمول‘‘ بن رہے ہیں۔مسلم مخالف تشدد میں گائے تحفظ کے رضا کار دستے سب سے آگے ہیں۔ہیومن رائٹس واچ کی 2019کی رپورٹ کے مطابق نام نہاد گائے تحفظ گروہوں نے کم از کم چالیس افراد جن میں زیادہ تر مسلمان شامل ہیں کو موت گھاٹ اتاردیا۔’’لوجہاد‘‘ کے نام پر بھی مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنائے جانے کا سلسلہ رکنے کا نا م نہیں لے رہا ہے۔2020،مارچ میں نئی دہلی میں شہریت ترمیمی بل کے خلاف پرامن احتجاج کرنے والے مسلمانوں کو فرقہ پرستوں نے شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔دارالحکومت کے ان مسلم کش فسادات میں پچاس افراد جن میں بیشتر مسلمان تھے ہلاک ہوگئے۔اس تشدد کو بھڑکانے میں بی جے پی کے چند سیاست دانوں کے نام بھی منظر عام پر آئے۔پولیس نے مسلمانوں پر حملہ آور ہندوؤں کے ہجوم کو روکنے کوشش نہیں کی۔ ہیومن رائٹس تنظیموں کے مطابق بی جے پی حکومت نے حالیہ تشدد کو نظرانداز کردیا۔بی جے پی قائدین کی مذہبی منافرت والی تقاریر اور ویڈیوزنے مسلمانوں کے خلاف تشدد پر سماج دشمن عناصر کواکسایا۔کوروناوائرس وباء کے پھوٹ پڑنے پر مسلم تاجرین ،ٹھیلہ بنڈی پر پھل ،سبزی بیچنے والے اور دیگر کاروبار کرنے والے مسلمانوں کا بائیکاٹ کرنے کی فرقہ پرستوں نے آئن اپیل کی ۔ حد تو یہ ہے کہ مذہبی منافرت کو فروغ دینے والوں نے وائرس کے پھیلاؤ کے لئے بھی مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرایا۔

ملک کا سیکولرازم بچانے کی کوشش
یہ ایک حقیقت ہے کہ بی جے پی کو ووٹ دینے والے تمام افراد مسلم مخالف نہیں ہیں۔کئی افراد بشمول ہندو ،مسلم سیاستدانوں،قانونی ماہرین،اسکالرز اور طلبہ ملک کے سیکولرازم کی بقاء کے لئے جد وجہد کررہے ہیں۔شہریت ترمیمی بل پر کئی ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ نے عمل درآمد سے انکار کردیا۔قانون کو آئین کے روح کے خلاف تصور کرتے ہوئے قریب دوہزار ماہرین تعلیم اور پیشہ وار افراد نے اپنا دستخط شدہ بیان وزیراعظم کو روانہ کیا۔ماہرین قانون نے اس قانون کو غیر قانونی وغیر دستوری قرار دینے کی عدالت عظمیٰ سے اپیل کی۔متعدد غیر ملکی حکومتوں اوربین الاقوامی اداروں نے کشمیر ی عوام کی حالت زار اور شہریت ترمیمی بل کی مذمت کرتے ہوئے اس مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک قرار دیا۔اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیوگٹیرس نے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے اسے لوگوں کو بے گھر کرنے والا اقدام اورمسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک قراردیا۔متعدد مسلم اکثریتی اقوا م اور مسلم ،عرب کارکنوں نے ہندوستان میں اسلامو فوبیا کے بڑھتے ہوئے رجحان کے خلاف تشویش کا اظہار کیا۔اسلامی ممالک کی تنظیم(اوآئی سی) نے ہندوستان کو اسلاموفوبیا کی بڑھتی لہر روکنے کے لئے ہنگامی اقدامات کا مشورہ دیا۔ ایک آزاد سرکاری ایجنسی ،امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے 2020کی اپنی ایک رپورٹ میں مذہبی آزادی کے حوالے سے ہندوستان کو کم بہت کم درجہ دیا اور ہندوستان کو مذہبی آزادی کے تعلق سے’’ خاص تشویشناک ملک‘‘ کا درجہ دیا۔

ہندوستان کا دستور اپنی تمام تر خوبیوں اور خامیوں کے باوجود دنیا کا بہترین دستور مانا جاتا ہے۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جس قدر آئین ہند کی پامالی کی گئی ہے شایدہی دنیا کے کسی ملک کے دستور کی اس قدر پامالی و بے حرمتی ہوئی ہو۔دستور کی روح کو سمجھنے اور اسے نافذ کرنے کے بجائے اس کے الفاظ و معانی مطالب و نتائج سے کھلواڑ کیا جانا کوئی نئی بات نہیں ہے۔سیاستدان اور بالخصوص مسلم سیاستدانوں نے آئین کی طاقت و اہمیت سے عوام کو واقف ہی نہیں کروایا۔دستور کے نفاذ کے بارے میں عوام بھی تساہل و بے پروائی کا شکار ہیں۔ ایک خاص مذہب کے عقائد کو ملکی سلامتی و استحکام کے نام پر اور فاشزم کو سیکولرازم کے سانچے میں ڈھالا جارہا ہے۔ مسلمانوں کی مذہبی و دستوری آزادی پر قدغن لگائی جارہی ہے۔کوئی حکومت اس وقت تک جمہوری نہیں کہلائی جاسکتی جب تک وہ ملک کے عوام سے انصاف ،مساوات،اخوت،اور آزادی کے تقاضوں کو پورانہیں کرتی۔تمام ابنائے وطن کو خواہ وہ کسی بھی مذہب کے ماننے والے ہوں حتیٰ کہ وہ دہریے ہی کیوں نہ ہوں، کسی خدا اور مذہب پر ایمان کیوں نہ رکھتے ہوں انہیں بھی دستور کی رؤ سے مساویانہ حقوق حاصل ہیں۔ ہمیں اپنی زبان، مذہب اپنے عقائد پر چلنے اس کی پرامن تشہیرو تبلیغ کی آزادی دستور نے دی ہے اس پر مختلف قوانین کے ذریعے شکنجہ کسنا ہندوستانی دستوری کی بے حرمتی کے مترادف ہوگا۔ہمارا آئین انسانی حقوق کا یقینا محافظ و علمبردار ہے۔دستور ہند کو اس کی روح کے مطابق نافذ کرتے ہوئے ملک کو امن و آشتی اور عدل و انصاف کا گہوارہ بنایا جاسکتا ہے ۔دستور کے منصفانہ نفاذ کے لئے تمام ہندوستانیوں خاص کر مسلمانوں کو میدان عمل میں اترنے کی ضرورت ہے۔فرقہ وارنہ ظلم واستبداد ہمیں اپنے مادر وطن سے محبت کرنے سے روک نہیں سکتا ۔یہ وطن ہمارا ہے ۔اس وطن میں رہنے والے شہری ہمارے بھائی بہن ہیں۔ان کا احترام ہمارا اولین فریضہ ہے۔آج کا ’’نفاذ دستور‘‘ کا یہ دن’’یوم جمہوریہ ہند‘‘ اسی عہد کی پاسداری اور تجدید عہد کا ہم سے مطالبہ کرتا ہے۔

 

farooq tahir
About the Author: farooq tahir Read More Articles by farooq tahir: 133 Articles with 265721 views I am an educator lives in Hyderabad and a government teacher in Hyderabad Deccan,telangana State of India.. View More