کیا عمران حکومت ختم ہونے والی ہے

ہفتہ 23جنوری کو چینل 92کے ایک پروگرام مقابل میں معروف صحافی اور تجزیہ نگار جناب ہارون رشید نے کہا کہ امریکا میں ایک منصوبہ بندی کی گئی ہے کہ عمران خان کی حکومت کو ختم کردیا جائے اور اس کی جگہ ٹیکنو کریٹس پر مشتمل حکومت قائم کی جائے ۔انھوں نے کہا کہ یہ میری پیشنگوئی ہے نہ میرا تجزیہ ہے بلکہ یہ میری اطلاع ہے اور بہت ہی باوثوق ذریعے سے یہ اطلاع ملی ہے جوعموماَکم ہی غلط ہوتی ہے،انھوں نے کہا ایک عرب ملک مولانا فضل الرحمن کی پشت پر ہے وہ ان کی فنڈنگ بھی کررہا ہے ۔ہارون رشید صاحب نے یہ بھی بتایا کہ جناب حسین ہارون اس کے وزیر اعظم ہو ں گے ۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ کوئی استعفادے گا اور نہ ہی لانگ مارچ ہو گا ،اور لانگ مارچ ہوا بھی تووہ اسلام آباد جائے گا راولپنڈی نہیں جائے گا ۔

درج بالا خبر کا جائزہ لیا جائے تو کچھ سوالات بنتے ہیں کہ امریکا کو اس تبدیلی کی ضرورت کیا ہے اور یہ کہ یہ منصوبہ سابق صدر امریکا کے زمانے کا ہے تو نئے صدر امریکا جو بائیڈن اس پر عملدرآمد کریں گے یا ان کا کوئی دوسرا پلان ہو گا۔ کیا اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کی سزا دی جائے گی اس لئے کہ عمران خان کا یہ بیان آچکا ہے جب تک مشرق وسطیٰ میں فلسطین کا مسئلہ حل نہیں کیا جائے گا اس وقت تک اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ایک اہم مسئلہ امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات بھی ہیں شاید امریکا کا یہ خیال ہے کہ موجودہ عمران خان کی حکومت اس میں وہ رول ادا نہیں کررہی ہے جو اسے کرنا چاہیے تھا ۔

اس میں تو کوئی کلام نہیں کہ عمران خان سے جو امیدیں عوام نے وابستہ کی تھیں وہ پوری نہ ہو سکیں ،روز بروز ہونے والی مہنگائی نے عام لوگوں کی چیخیں نکال دی ہیں نئے سال میں دو مرتبہ پٹرل کی اور دو ہی مرتبہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے آج 27جنوری کے اخبارات میں یہ خبریں شائع ہوئی ہیں کہ ایک بار پھر پٹرول اور ثیزل کی قیمتیں بڑھانے کا پروگرام ہو رہا ہے۔موجودہ حکومت میں عوام ایک نفسیاتی خوف کا شکار ہیں روز سوتے وقت وہ سوچتے ہیں کہ دیکھو کل اب کس چیز میں اضافے کی خبر آتی ہے ۔ایک کروڑ لوگوں کو روزگار دینے کا انتخاب سے پہلے کا وعدہ تو ہوا ہو گیا بلکہ ہو یہ رہا ہے بے روزگاری بڑھتی جارہی ہے اور اس روز بروز کی بڑھتی ہوئی بے روزگاری سے جرائم میں اضافہ ہورہا ہے ۔اب تو ہر مسجد کے باہر بھیک مانگنے والوں کی بھرمار ہوتی ہے ورنہ پہلے تو ایک دو فقیر نظر آتے تھے اب دس بارہ سے کم نہیں ہوتے اس میں تشویش کی بات یہ ہے کہ زیادہ تر عورتیں برقعہ اور چہرے پر نقاب ڈال کر سوال کرتی نظر آتی ہیں اپنی چھوٹی بچیوں کو کچھ جملے رٹادیے ہیں کہ انکل ہمارے گھر میں کھانے کو کچھ نہیں ہے ۔انکل ہمارا کوئی بھائی نہیں ہے ابو بیمار ہیں ہمیں گھر کا کرایہ ادا کرنا ہے آپ ہماری مدد فرمائیں کوئی بچی کہتی ہے انکل ہمارا کوئی بھائی نہیں ہے والد صاحب کا انتقال ہو گیا ہے آپ ہماری مدد فرمائیں ۔سائلوں کی تعداد میں دن بدن اضافے کے ساتھ ،آئے دن فراڈ کے کیسز بھی بڑھ رہے ہیں اسی طرح اسٹریٹ کرائم میں بھی اضافہ ہو رہا ہے جس میں کوئی ذرا سی بھی مزاحمت کرے اسے فوراَ گولی مار دی جاتی ہے ۔معاشرے میں غربت میں بہت تیزی سے اضافہ ہورہا ہے ۔اب سے کچھ عرصہ قبل ہمارے ایک دوست نے ایک فیملی کے حوالے سے بتایا تھا کہ ان کی قلیل آمدنی تھی اور اخراجات زیادہ تھے ۔میاں بیوی نے مل کر یہ فیصلہ کیا ہم دوپہر کا کھانا ختم کردیتے ہیں شام کی چائے تو وہ بہت پہلے ہی ختم کرچکے تھے انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ صرف رات کو کھانا پکایا جائے گا اس میں سے تھوڑا سا بچالیا جائے گا تاکہ بچے اسکول سے بھوکے آئیں گے انھیں تھوڑا بہت کھلا دیا جائے ۔
ایک صاحب کئی مہینو ں بعد اپنی بہن سے ملنے گئے وہ کافی دن سے آ نہیں رہی تھی وہ جب اس کے گھر گئے دروازے پر ایک تحریر لکھی دیکھی انھیں بہت غصہ آیا وہ گھر میں گئے اور اپنی بہن سے پوچھا یہ کیا قصہ ہے تمھارا شوہر کہاں ہے اور تم نے دروازے یہ کیا لکھ رکھا ہے کہ اہل محلہ اپنے کپڑے دھلوانا چاہتے ہیں تو ہم سے دھلوایے ہم استری کرکے اسی دن شام کو دے دیں گے بہن نے اپنے بھائی سے کہا کہ دو ماہ سے شوہر غائب ہے وہ بچوں کا خرچ بھی پورا نہیں کررہا تھا اب تو وہ منہ چھپا کر کہیں چلا گیا میں بچوں کو بھوکا کب تک رکھتی اس لیے میں نے یہ کام کیا ہے تاکہ رات کو بچوں کا پیٹ تو بھر جائے بھائی کی آ نکھوں میں آنسو آگئے وہ بہن اور بچوں کو اپنے ساتھ گھر لے آئے ،یہ چند زندہ مثالیں ہیں۔ معاشرے میں غربت اور تنگدستی اتنی پھیلی ہوئی ہے کہ لوگ خود کشی کرنے پر مجبور ہیں۔

ہماری عمران خان سے گزارش ہے کہ وہ اپوزیشن کے پیچھے نہ پڑیں آپ کی حکومت اب بھی مضبوط ہے عام پاکستانی ابھی آپ سے مایوس نہیں ہوئے ہیں یہ تو ٹھیک ہے کہ آپ ہر ہفتے اپنی کابینہ کا اجلاس بلاتے ہیں تو کیا اس میں غربت کم کرنے کی کوئی بات یا تجاویز آتی ہیں یا صرف پی ڈی ایم اس کا موضوع ہوتا ہے اور یا پھر کس چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ کرنا ہوتا ہے اس کے بارے میں فیصلہ کیا جاتا ہے اور ایک رٹا رٹایا جملہ ہر وزیر کورس کے ساتھ یہ گاتا ہے پچھلی حکومتوں کی کرپشن کی وجہ سے ہمیں یہ تلخ فیصلے کرنے پڑرہے ہیں ۔اور اب یہ جملے میں کسی کو نہیں چھوڑوں گا یا یہ میں انھیں این آر او نہیں دوں گا لوگ سنتے سنتے تنگ آگئے ہیں ،آپ نے چوروں کو ایکسپوز تو کردیا ہے لیکن اب عوام اپنے لئے ریلیف چاہتے ہیں کہیں لوگ یہ سمجھنے پر نہ مجبور ہو جائیں کہ آپ خود تو ایماندار ہیں لیکن آپ نے اپ نے ارد گرد کے لوگوں کو کھلی چھوٹ دی ہوئی ہے کہ وہ سب کچھ کر سکتے ہیں انھیں کچھ نہیں کہا جائے گا ۔
 

Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 80 Articles with 56300 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.