اب جوبائیڈن کا وقت ہے

امریکہ میں جو بائیڈن کی حلف برداری کے ساتھ ہی ایک نئے عہد کا آغاز ہوگیاہے۔امریکی عوام نے ٹرمپ کی پالیسیوں اور حکمت عملی کو مسترد کرتے ہوئے جو بائیڈن کونیا صدر منتخب کیاہے۔ ٹرمپ کو یہ قطعی امید نہیں تھی کہ امریکی عوام انہیں اس طرح مسترد کردے گی۔امریکی عوام نے سابق صدر ٹرمپ کے ساتھ نو منتخب صدر جو بائیڈن کو بھی یہ واضح پیغام دیاہے کہ جمہوری نظام میں اصل طاقت عوام کے پاس ہے۔اگر حکومت عوام کے حقوق کے تحفظ اور ان کی بہتر زندگی کے لئے کام نہیں کرتی ہے تو اسے اسی طرح ذلت آمیز رخصتی پر مجبور کردیا جاتاہے۔ اب دیکھناہے یہ ہوگا کہ ٹرمپ کی آئندہ حکمت عملی کیا ہوگی ؟۔آیا وہ نئی سیاسی پارٹی کا اعلان کریں گے یاپھر امریکی سیاست سے علیحدگی اختیار کرلیں گے کیونکہ ان کی پارٹی میں اکثریت ان کے مخالف ہے۔امریکی پارلیمنٹ پر قبضے کی کوشش اورٹرمپ کے اشارے پر تشدد مظاہرے اس بات کی دلیل ہیں کہ ٹرمپ اور ان کے حامی ابھی ہار ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔۔ٹرمپ نے در اصل امریکی فرسودہ جمہوری نظام کو بے نقاب کیا ہے ۔ڈونالڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی ہمیشہ تنازعات کا شکار رہی ہے۔امید ہے کہ جو بائیڈن امریکی خارجہ پالیسی پر ازسرنو غور کریں گے اور خوش آئند تبدیلیاں انجام دیں گے۔بائیڈن نے خارجہ پالیسیوں میں تبدیلی کا عندیہ دیاہے ، اس کے باوجود اسلامی دنیا کے لئے زیادہ خوش فہمی نقصان دہ ثابت ہوگی۔بائیڈن یقیناََ ٹرمپ کی پالیسیوں پر عمل نہیں کریں گے مگر ان کی خارجہ سیاست امریکی سیاسی روایت سے جدا نہیں ہوگی۔امریکی سیاسی روایت اسلامی دنیا کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے اور نہ مستقبل میں قبول کرنے کی توقع کی جاسکتی ہے۔یوروپی نظام سیاست اسلامو فوبیا کا شکار ہے اور کسی بھی ملک کی سیاسی حکمت عملی کو اس سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔اگر بائیڈن امریکی سیاسی روایت کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کے فیصلے اور ان کے اثرات قابل دید ہوں گے۔امریکی حکام نے جس طرح مسلمان حکومتوں کو تباہ و برباد کیاہے اس کی مثال نہیں ملتی۔عراق ،افغانستان ،شام اور یمن جیسے مسلم ممالک میں امریکی خارجہ پالیسی کی نمایاں شکست روز روشن کی طرح واضح ہے اس کے باوجود ہم یہ امید نہیں کرسکتے کہ آئندہ امریکی سیاسی روایت میں کوئی برقی تبدیلی رونما ہوگی۔امریکہ شام ،عراق اور یمن جیسے مسلم ممالک میں اپنی موجودگی پر از سرنو غور ضرورکرے گا مگر اس کی حکمت عملی میں بڑی تبدیلی ممکن نہیں ہے۔مشرق وسطیٰ میں امریکہ ذلت آمیز شکست اور فوجی انخلاء سے روبرو ہے لیکن وہ اپنی چودھراہٹ کی بقاء کے لئے ہر ممکن کوشش کرے گا۔اس طرح مشرق وسطیٰ کی بڑی طاقتوں سے تصادم کی گنجائش بڑھ جائے گی اور نئی محاذ آرائی دیکھی جاسکے گی۔ٹرمپ نے دنیا کو تیسری عالمی جنگ کے دوزخ میں جھونکنے کی ہر ممکن کوشش۔تیسری عالمی جنگ کا راستہ مشرق وسطیٰ سے ہوکر گذرتاہے ،آیا بائیڈن اس راستے کو مسدود کریں گے یا پھر اسی راہ پر چل کر دنیا کو جنگ کے دوزخ میں ڈھکیلنے کی کوشش کریں گے ؟ یہ بڑا سوال ہے۔بائیڈن انتظامیہ کے لئے شام ،عراق،افغانستان ،یمن اور فلسطین سمیت ہزارہا ایسے خارجی مسائل ہیں جن سے نمٹنا آسان نہیں ہے۔ایران کے ساتھ اس کی دشمنی کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا یہ دیکھنا بھی اہم ہوگا۔جبکہ بائیڈن نے جوہری معاہدے میں واپسی کے امکانات کی طرف اشارہ کیاہے ۔چین کی اقتصادی طاقت کے پھیلاؤ پر قابو پانا آسان نہیں ہوگا کیونکہ امریکہ مخالف طاقتیں چین کے ساتھ متحد ہورہی ہیں۔روس عالمی سطح پر امریکہ کا بڑا حریف ہے جس کی خارجہ پالیسیاں امریکہ کے لئے ہمیشہ خطرناک چیلینچ ثابت ہوئی ہیں ،ایسے ان گنت مسائل اورطاقتور ترین محاذ بائیڈن کے استقبال کے لئے عالمی سیاست کے میدان میں ہمہ وقت موجود رہیں گے۔مریکا اور چین میں اس وقت معاشی لڑائی ہو رہی ہے چین معاشی طور پر آگے نکل رہا ہے اور پوری دنیا میں اس وقت چین کا چرچا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہو گا ان چار سال میں جو بائیڈن کے چین کے ساتھ کیسے تعلقات ہوں گے۔مریکی صدر جوبائیڈن نے مجموعی طور پر عہدہ سنبھالنے کے فوری بعد پہلے ہی روز17 ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کیے،ان صدارتی حکم ناموں میں مسلم ممالک پرسفری پابندیوں کا خاتمہ، پیرس ماحولیاتی معاہدے کی بحالی اور تمام وفاقی املاک میں لازمی ماسک پہننے کے بل پر دستخط کیے گئے ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران، لیبیا، صومالیہ، شام، یمن، وینزویلا اور شمالی کوریا کے شہریوں پر سفری پابندیاں عائد کی تھیں۔امریکی میڈیا کے مطابق کیپٹل کمپلیکس کے سامنے حلف برداری تقریب کے بعد صدر بائیڈن اوول آفس (صدارتی دفتر) پہنچے اور وہاں انہوں نے ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کرتے ہوئے کہا کہ نئی ہدایات جاری کرنے کے لیے وقت ضائع نہیں کیا جا سکتا اور ابھی یہ ابتدا ہے

اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے صدر بائیڈن کے مذکورہ اقدامات کا خیر مقدم کیا ۔جو بائیڈن کے زیادہ تر حکم نامے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی متنازع پالیسیوں کو ختم کرنے سے متعلق ہیں۔اپنے صدارتی دور کے آخری دنوں میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کینیڈا کے صوبہ البرٹا سے امریکی ریاست نبراسکا تک تیل کی ترسیل کی 12 ہزار میل لمبی کی سٹون ایکس ایل پائپ لائن کی تعمیر کی منظوری دی تھی لیکن جو بائیڈن نے سابق صدر کے اس فیصلے کو بھی منسوخ کر دیا ہے مزید برآ ں جو بائیڈن نے سابق صدر ٹرمپ کے دورِ صدارت کے متنازعہ حکم نامے امریکہ سے ملحق میکسیکو کی سرحد پر دیوار کی تعمیر کے منصوبے کو بھی روک دیا ہے۔امریکی صدر جو بائیڈن نے کورونا وائرس کی عالمی وباء کے مقابلے کے لیے قومی حکمت عملی کا اعلان کیا ہے جو ان کی حکومت کی اولین ترجیح ہے۔اس حکمت عملی میں ویکسین کے ٹیکے لگانے میں ترجیح دیے جانے والے گروپوں کو وسعت دینا اور ضرورت کے مطابق، ویکسین کے ٹیکے لگائے جانے والے مقامات کی تعداد میں اضافہ کرنا شامل ہے۔اس حکمت عملی میں بائیڈن حکومت کے پہلے 100 دنوں کے اندر 10 کروڑ افراد کو ویکسین کے ٹیکے لگانے میں کامیابی حاصل کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔اس منصوبے کا مقصد کووڈ 19 کے خلاف عالمی اقدامات میں امریکی قیادت پر اعتماد بحال کرنا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ امریکہ، کورونا وائرس کی ویکسین کی منصفانہ تقسیم کے بین الاقوامی ڈھانچے میں شمولیت اختیار کرے گا۔جناب بائیڈن نے ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے زور دیا کہ وہ کورونا وائرس کے حوالے سے اپنے پیشرو ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی کے برعکس پالیسی اختیار کرنے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ کووڈ 19 کے باعث 4 لاکھ سے زائد امریکی شہری ہلاک ہو چکے ہیں، اور یہ تعداد دوسری عالمی جنگ کے دوران مرنے والے امریکیوں کی تعداد سے زیادہ ہے۔ بہر کیف بائیڈن نے اپنے پہلے 100 دن کے ایجنڈے کا اعلان کر دیا ہے ان کے ایجنڈے کے اہم نکات میں 19کھرب ڈالر کا کرونا ریلیف پیکج دینا اور صدر ٹرمپ کا مواخذہ شامل ہیں وہ امریکہ میں موجود ایک کروڑ دس لاکھ سے زائد غیر قانونی شہریوں کو قانونی حیثیت دینے کے لیے ایک بل متعارف کرائیں گے۔تاہم بعض ایسے معاملات بھی ہیں جس میں بائیڈن کو اپنی ہی پارٹی کی جانب سے مزاحمت کا سامنا ہو گا۔ مثال کے طور پر بائیڈن نہیں چاہتے کہ طالب علموں کو سود کے بغیر قرضوں کی فراہمی ہو جبکہ ان کی اپنی ہی جماعت کے بعض آزاد خیال اراکین چاہتے ہیں کہ بائیڈن امریکی طلبہ کے ذمہ واجب الادا 16 کھرب ڈالر کے قرضوں کی معافی کا اعلان کر دیں۔ ٹرمپ نے ایگزیکٹو آرڈر کے تحت غیر قانونی شہریوں کو مردم شماری میں شمار کرنے سے روک دیا تھا، خیال ہے کہ بائیڈن دوبارہ ایگزیکٹیو آرڈر جاری کر کے انہیں شمار کرائیں گے کیونکہ امریکہ میں ریاستوں میں فنڈز کی تقسیم ہر دس سال بعد ہونے والی مردم شماری کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ تاہم بائیڈن ایک آزمودہ کار سیاستدان ہیں جنہوں نے امریکہ کی سینیٹ میں 36 سال گزارے ہیں بہت سے سینیٹروں کے ساتھ انہوں نے طویل عرصہ کام کیا ہے۔ اس لیے ٹیکسوں کے نظام میں اصلاحات کے لیے اسے ایوان زیریں کے ساتھ ایوان بالا سے بھی مطلوبہ حمایت ملنے کا امکان ہے۔ اب دیکھنا یہ ہو گا کہ بائیڈن کیا کرتے ہیں کیونکہ اگر ٹرمپ کا مواخذہ ناکام ہو گیا تو ٹرمپ بائیڈن کے لیے اس سے زیادہ بڑا خطرہ بن سکتے ہیں ۔


 

Haji Latif Khokhar
About the Author: Haji Latif Khokhar Read More Articles by Haji Latif Khokhar: 141 Articles with 112982 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.