اعتزاز احسن کی سیاسی و قانونی باتیں

اعتزاز احسن کی سیاسی و قانونی باتیں
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
سینٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے، حکومت کو گھر بھیجنے کے وہ تمام اقدامات جو پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کرچکی جن میں احتجاجی جلسے، جلوس، ریلیا شامل ہیں اور آئندہ اپنے لاائحہ عمل کے لیے اجلاس (4فروری)کو ہونے جارہاہے۔اجلاس میں لانگ مارچ اور منتخب ایوانوں سے استعطفے دینے کا آپشن شامل ہے۔ اعتزاز احسن پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک سینئر، قابل، فہم و فراست رکھنے والے، وکالت کا 52سال کا تجربہ رکھنے والے سیاست دان ہیں۔ مصنف ہیں، شاعر ہیں، ایوانون میں کئی بار منتخب ہوچکے ہیں۔1970 ء سے پاکستان پیپلز پارٹی سے وابستہ ہیں یعنی سیاست میں نصف صدی کا تجربہ رکھتے ہیں۔وہ بے باک اور صاف گو سیاستدانوں میں سے ہیں جو اپنی پارٹی پالیسی کے خلاف بھی اپنی رائے دینے میں دیر نہیں لگاتے۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کی یہ رائے ہے لیکن پارٹی جو فیصلہ کرے گی وہ اس کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ مَیں نے کبھی پاکستان پیپلز پارٹی کو ووٹ نہیں دیا، اول تو میں 2009ء تک سرکاری ملازمت میں رہا، 2008ء کے انتخابات تک شاید ہی کوئی الیکشن ایسا ہوگا جس میں مَیں نے پریزائیڈنگ آفیسر کی ذمہ داریاں نہ سر انجام دیں ہوں۔پارٹی پالیسیوں سے اختلاف کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو کو سیاست داں کا درجہ دیتا ہوں، ان پر تفصیلی کالم بھی لکھ چکا ہوں۔ میرا پاکستان تحریک انصاف یا کسی اور سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں، کالم نگاری میں کوشش ہوتی ہے کہ صاف گوئی اور ایمانداری سے کروں۔ کسی شاعر کا شعر دیکھئے ؎
صاف گوئی سے کام لیتا ہوں.........تم نے مجھ کو سمجھ لیا گستاخ
کپتان کے بارے میں خوش گمانی ضرور تھی کہ جس قسم کی باتیں اس نے 2018 ء کے انتخابات اور اس سے قبل کیں اور چالیس سال سے حکومت کرنے والی دو سیاسی جماعتوں کو جس طرح رخصت کیا۔ خیال تھا کہ یہ پاکستان کو درست سمت لے جائے گا۔ کپتان کے اقتدار کا نصف وقت گزرچکا، جو کارکردگی سامنے آئی اسے مایوس کن کہنے میں کوئی جھجک نہیں۔ جو دعوے کیے، جو اعلانات کیے وہ سب کے سب دھرے کے دھر ے رہ گئے۔ سچ تو یہ ہے کہ کپتان کو اچھی ٹیم میسر نہیں آئی۔مانگے تانگے کے لوگوں سے حکومتیں نہیں چلاکرتیں۔ جہاں تک عمران خان کی ذات کا تعلق ہے کوئی شک نہیں کہ وہ مخلص ہے، ایماندار ہے، اسے پاکستان سے محبت ہے وہ سچا محب وطن ہے، اسے پاکستانی قوم کی مشکلات کا احساس ہے لیکن وہ تن تنہا کیا کرسکتا ہے۔ وہ ساتھی جو 22سالہ سیاسی جدوجہد میں کپتان کی انگلی پکڑ ے ہوئے تھے، دائیں بائیں تھے، جب اقتدار ملا تو ان میں سے کئی اختلاف کر گئے، بد دیانت نکلے، چینی اسکینڈل میں شامل نکلے، کچھ نے اقتدار میں ساتھ ہی نہیں دیا، چند گھر کے بھیدی ہیں جنہوں نے فارن فنڈنگ کیس کیاہوا ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود کپتان کی گورننس گڈ نہیں بلکہ بیڈ گورننس رہی ہے۔ کورونانے بھی کپتان کی راہ میں رکاوٹیں ڈالیں۔ ملک کی چند جماعتوں کو چھوڑ کر جو حکومت کی اتحادی ہیں سب ہی کپتان کے سامنے لٹھ لیے کھڑی ہیں۔وہ ان سب کا مقابلہ کر رہا ہے۔ پی ڈی ایم کے لیڈروں کی ہوا نکلتی دکھائی دے رہی ہے لیکن کپتان کے تیور وہی ہیں، اس کی باڈی لینگویج میں وہی احتساب، این آر او نہ دینے کی گھن گرج ویسی کی ویسی ہے۔ وہ تو صاف الفاظ میں کہہ چکا کہ وہ اقتدار چھوڑ دے گا لیکن NROنہیں دے گا۔
بات اعتزاز احسن کی کرنا تھی۔ ایک ٹی وی ٹاک شو میں اعتزاز احسن نے بہت صاف گوئی سے کہا کہ سینٹ کے انتخابات اوپن بیلٹ پیپر کے ذریعے کرانے کی بات بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے مابین ہونے والے میثاق جمہوریت میں موجود ہے۔ اس وقت یہ فیصلہ دونوں جماعتوں نے اس تجربے کی بنیاد پر کیا تھا کہ سینٹ کے انتخابات میں پیسہ چلتا ہے، اراکین بکتے ہیں، اس وجہ سے یہ شق میثاق جمہوریت میں موجود ہے۔ دوسری بات یہ کہ کوئی منتخب رکن اگر اپنی پارٹی لیڈر کی رائے کے خلاف ووٹ دیتا ہے قانونی طور پر اس کی رکنیت ختم نہیں ہوتی۔ اس وقت قانون میں کوئی شق موجود نہیں۔ اعتزاز احسن نے ایوانوں سے مستعفی ہونے کی بھی مخالفت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی، سینٹ، قومی اسمبلی اور سندھ کی حکومت کو کیسے چھوڑ سکتی ہے۔ اس وقت بھی پی ڈی ایم اس معاملے پر پی پی کی تجویز استعفے نہ دینے کے آگے جھک گئی تھی۔ اسی طرح ضمنی انتخابات اور سینٹ کے انتخابات میں حصہ لینے کے اصولی موقف پر پاکستان پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔ آج پی ڈی ایم کی جماعتیں سینٹ انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں لیکن قومی اسمبلی میں اس بات پر کے سینٹ کے انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے ہوں حکومت کے خلاف ہے۔ آج اسمبلی میں جو کچھ ہوا اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ شرف سے سر جھک جاتے ہیں، اپنے منتخب نمائندوں کی حرکات و سکنات دیکھ کر۔ باوجود اس کے کہ ایوان میں خواتین کی اچھی خاصی تعداد موجود ہوتی ہے، بعض ارکان کے نعرے اور ان کی حرکتیں بے حیائی اور جاہلت کے سوا کا نام دیا جائے۔
اعتزاز احسن غیر جمہوری طریقے سے حکومت کو گھر بھیجنے کے خلاف ہیں۔ ان کا صاف کہنا ہے کہ جمہوری طریقے آئین میں درج ہیں ان میں سے ایک وزیر اعظم کے خلا ف تحریک عدم اعتماد یا پھر وزیر اعظم از خود اسمبلیاں تحلیل کردیں اور نئے انتخابات ہوں۔ کل کے اجلاس میں بھی پی ڈی ایم کے آر یا پر جیسے اقدامات کی روشنی میں کوئی ایسا فیصلہ متوقع نہیں جن میں ملین مارچ یا دھرنا ڈی چوک پر یا کہیں اور کا فیصلہ کیا جائے۔ یہ بھی نہیں ہوگا کہ یہ فیصلہ ہو کہ سینٹ کے انتخابات کے بعد استعفوں کا آپشن استعمال کیا جائے۔ فیس سیونگ کے لیے یہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔ ا س لیے کے سینٹ کے انتخابات اور ضمنی انتخابات کے بعد آزاد کشمیر میں انتخابات ہوں گے، پھر ملک میں بلدیاتی انتخابات کا مرحلہ شروع ہوجائے گا۔ حالات ایسے ہی رہیں گے، عمران خان کی حکومت کو وقت سے قبل رخصت کرنے کی ہوائی باتیں محسوس ہوتی ہیں۔ دور دور کوئی آثار ایسے دکھائی نہیں دے رہے، حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں، مہنگائی بڑھتی ہی رہے گی، پیٹرول ہر پندرہ دن بعد مہنگا ہوگا جس کے نتیجے میں مہنگائی کا راج ملک میں رہے گا۔ اعتزاز احسن کی رائے بہت صائب ہے کہ حکومت کو صرف اور صرف جمہوری طریقوں سے، جو آئین میں درج ہیں سے ہی رخصت کیا جاسکتا ہے، غیر جمہوری طریقوں جیسے آر یا پار، اسلام آباد کے بجائے کہیں اور ملین مارچ یا دھرنا دینے کی باتوں کو اعتزاز احسن نے غیر جمہوری اور غیر آئینی قرار دیا۔سینٹ کے انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کی درخواست سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے، وہاں سے کیا فیصلہ آتا ہے، قانوں سازی ہوپاتی ہے یا نہیں لیکن سینٹ کے انتخابات تو وقت مقررہ پر ہر صورت میں ہوں گے۔ تحریک انصاف کو سینٹ میں واضح برتری حاصل ہونے کے امکانات ہیں۔(3فروری 2021ء)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1273682 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More