سعودی شاہی حکومت کا اقامے کے سلسلہ میں اہم فیصلہ ۰۰۰ تارکین وطنوں کیلئے کتنا سودمند

سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی صدارت میں چہارشنبہ 27؍ جنوری کو منعقدہ سعودی کابینہ کے اجلاس میں ایک اہم فیصلہ کرتے ہوئے اقامے کے سہ ماہی اجرا اور تجدید کی منظوری دے دی گئی ہے۔ یہ منظوری ورک پرمٹ اقامہ ہولڈرز کیلئے ہے، گھریلو عملہ اوراس سے متعلق وہ تمام ملازمین جو اس کے دائرے میں آتے ہیں ان پر یہ فیصلہ لاگو نہیں ہوگا۔ واضح رہے کہ اس سے قبل ایک سال کی فیس یکمشت وصول کی جاتی تھی ، اب کم از کم تین ماہ کیلئے اقامے کا اجرا اور تجدید ہوسکے گی۔ یہ کتنا بہتر اور فائدہ مند رہے گا یہ تو آنے والا وقت بتائے گا لیکن بہت سارے تارکین وطن جو سعودی عرب میں مقیم ہیں جن کی تنخواہیں کم ہیں انہیں شاہی حکومت کی جانب سے کئے گئے اس فیصلہ کی وجہ سے سکون و راحت ملے گی، کیونکہ مملکت میں گھرکا کرایہ بھی چھ ماہ یا ایک سال کا ادا کرنا پڑتا ہے اور ساتھ میں اقامہ کی تجدید ایک سال کی کرانے کی صورت میں تارکین وطنوں کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ شاہی حکومت کے اس فیصلے نے کئی لوگوں کو راحت پہنچائی ہے۔مملکت میں گھروں کے کرایوں کے سلسلہ میں بھی اسی طرح کا قدم اٹھایا جاتا ہے تو یہ تارکین وطنوں کیلئے مزید سہولت کا باعث ہوگا۔اس سے قبل سعودی وزارت افرادی قوت اور سماجی فروغ کے سکریٹری برائے لیبر پالیسیز انجینئر ہانی بن عبدالمحسن المعجل نے کہا تھا کہ غیر ملکیوں کے اقامہ فیسوں اور فیملی فیس پر نظرثانی کی جارہی ہے ۔ انکا کہنا تھا کہ اس بات پر بھی غور کیا جارہا ہے کہ فیسوں کی ادائیگی سالانہ بنیاد کے بجائے سہ ماہی بنیاد پر کردی جائے، جس کی وجہ سے نجی شعبے کے بہت سے مسائل حل ہوجائیں گے۔ ہانی بن عبدالمحسن کے مطابق ’اقامہ تجدید فیس اور ٹیکس کی ادائیگی آجر کی جانب سے کی جاتی ہے‘۔ شاید ایسا بہت کم اداروں یا کمپنیوں میں ہوگا جہاں آجر انکے پاس کام کرنے والوں کی اقامہ فیس ادا کرتے ہوں کیونکہ کئی تارکین وطن جو سعودی عرب کے مختلف اداروں یا کمپنیوں میں کام کرتے ہیں انہیں اقامہ کے اجرا یا تجدید کیلئے اپنے جیب سے فیس ادا کرنی پڑتی ہے اور اس کے ساتھ اگر کسی سعودی کی کفالت میں ہوتو اس کفیل کو بھی سالانہ فیس ادا کرنی پڑتی ہے ، یہ الگ بات ہے کہ آزاد ویزے کے نام پر ہزاروں تارکن وطن سعودی کفیلوں کے پاس کام کرنے کا بتاکر دوسرے اداروں،کمپنیوں یا اشخاص کے پاس کام کرتے ہیں جو سعودی قانون کے مطابق غیر قانونی ہے ۔ محکمہ جوازات کی جانب سے غیرقانونی طو رپر مقیم تارکین وطنوں کے خلاف کارروائیاں ہوتی رہتی ہیں اس کے باوجود کفیل کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ اس سلسلہ میں سکریٹری برائے لیبر پالیسیز انجینئر ہانی نے اس سال کے ابتداء میں کہا تھاکہ ’’سعودی عرب میں لیبر اصلاحات کے بعد کفیل کا نظام باقی نہیں رہے گا بلکہ اسے شرائط کے ساتھ آجر اور اجیر کے درمیان ایک سمجھوتے کے تعلق سے تبدیل کردیا جائے گا‘‘۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق افرادی قوت اور سماجی فروغ کی وزارت گذشتہ سال4؍ نومبر کو لیبر اصلاحات کا اعلان کیا تھا جس کا اطلاق 14؍ مارچ2021سے ہوگا۔ سعودی عرب میں کفیل کا نظام ہونے کی وجہ سے کئی افراد کو اپنے ملک فوراً واپس ہونے کیلئے بھی کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ اگر کفیل کسی وجہ سے حکومت کے تمام شرائط کی تکمیل نہ کرتا ہے ، سالانہ زکوٰۃ اور چیمبر آف کامرس کی فیس وغیرہ جو اسے ادا کرنی ہے ،وہ ادا نہ کرتا ہے یا کوئی اور مسئلہ اسے درپیش ہوتو اسکے پاس کام کرنے والوں کے کام بھی متاثر ہوتے ہیں یعنی کام کرنے والے کا اقامہ تجدید نہیں ہوسکتا یا پھر خروج عودہ (اگزٹ ری انٹری )ممکن نہیں ہوتا۔ اس لئے اگرمملکت سے کفیل کا سسٹم نکال دیا جائے اور ڈائرکٹ جوازات سے خروج عودہ کردیا جائے تو اس سے لاکھوں تارکین وطنوں کو سہولت ہوگی۔اب دیکھنا ہیکہ شاہی حکومت مستقل قریب میں مزید کس قسم کے ردّوبدل کرتی ہے اور غیر ملکیوں کو جو مملکت میں خدمات انجام دے رہے ہیں انہیں کس قسم کے سہولیات فراہم کرتی ہے۰۰۰

فلسطینیوں کے ساتھ تعلقات کی بحالی ۰۰۰ بائیڈن انتظامیہ کا اعلان
نئے امریکی صدر کی حیثیت سے حلف لینے کے بعدجوبائیڈن نے کئی ایک فیصلوں پر دستخط کئے ہیں ۔جوبائیڈن انتظامیہ نے فلسطینیوں کے ساتھ تعلقات کی بحالی ، فلسطینی پناہ گزینوں کیلئے امداد کی تجدید کا اعلان کیا ہے ۔واضح رہے کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ نے جو سفارتی مشن بند کردیئے تھے انہیں بائیڈن انتظامیہ دوبارہ کھولنے کیلئے اقدمات کرنے کا بھی ارادہ ظاہر کیا ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق اقوام متحدہ میں قائم مقام امریکی سفیر رچرڈ ملر نے سلامتی کونسل میں کہا ہیکہ امریکی صدر جوبائیڈن کی مشرقِ وسطیٰ پالیسی باہمی اتفاق سے دو ریاستی حل کی حمات کرے گی جس میں اسرائیل امن اور سلامتی کے ساتھ رہے اور ایک قابل وجود فلسطینی ریاست بھی ساتھ ہی قائم رہے۔ رچرڈ ملر کا کہنا تھا کہ امریکہ دوسرے ممالک پر اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے پر زور دیتا رہے گا تاہم اس بات کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اسرائیل اور فلسطین کے امن کا کوئی متبادل نہیں ہے‘۔ انہوں نے کہاکہ امریکہ اسرائیل اور فلسطینیوں کو ایسے یکطرفہ اقدامات سے باز رکھنے کی کوشش کرے گا جو دوریاستی حل کو مزید مشکل بناتے ہوں۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہیکہ صدر جوبائیڈن نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کہا تھا کہ وہ اس بات کے مخالف ہیں کہ اسرائیل مزید فلسطینی علاقوں کو اپنی خود مختاری میں شامل کرے۔ الشرق الاوسط کے مطابق عرب لیگ کے سکریٹری جنرل احمد ابو الغیط نے 26؍ جنوری کو ’’مقبوضہ فلسطینی علاقوں سمیت مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال‘‘ پر بحث کیلئے منعقدہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عالمی برادری ابھی تک فلسطین اسرائیل تنازعہ ختم کرانے کیلئے دو ریاستی حل پر متفق ہے۔انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی اب تک رائے یہی ہے کہ مقبوضہ عرب علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیر غیر قانونی ہے۔ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینا غیر قانونی ہے اور یہ مذاکرات کے ذریعہ تنازعہ کے حل کے اصول کے بھی منافی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سلامتی کونسل کی رائے اب تک یہی ہے کہ اسرائیل اور خودمختار فلسطینی ریاست کے درمیان مستقبل کی سرحدیں متعین کرنے کے سلسلے میں 1967کی سرحدیں ہی قابل قبول ہیں۔عرب لیگ سکریٹری جنرل کا کہنا ہے کہ’’ فلسطینیوں نے گذشتہ چار سال کے دوران سابق امریکی حکومت کا غیر معمولی دباؤ برداشت کیا، مسئلہ فلسطین کو جان بوجھ کر نظرانداز کیا گیا ، مسئلے کو صرف ایک زاویہ سے دیکھا گیا ، صرف اسرائیلی موقف کو مدنظر رکھا گیا‘‘۔ اب دیکھنا ہیکہ جوبائیڈن انتظامیہ مستقبل قریب میں فلسطین اور اسرائیل کے درمیان کس قسم کے فیصلے کرتی ہے کیونکہ سابق امریکی صدر ٹرمپ نے اسرائیل او ریہودیوں کیلئے کئی اہم اقدامات کئے تھے یہاں تک کہ امریکی سفارت خانہ کو جو تل ابیب میں واقع تھا اسے یروشلم منتقل کردیا جس کے خلاف فلسطین اور کئی ممالک نے احتجاجی بیانات جاری کئے لیکن ٹرمپ نے اپنے فیصلہ ہی پر قائم رہے ، یہاں تک کہ فلسطینیوں کیلئے دی جانے والی امداد بھی انہوں نے روک دی تھی اب ہوسکتا ہیکہ مستقبل قریب میں بائیڈن انتظامیہ اسے بحال کردے۔ اسرائیل کے ساتھ چند عرب و اسلامی ممالک کے سفارتی تعلقات بحال ہونے کے بعد ہوسکتا ہیکہ اسرائیل کی پالیسی میں کچھ تبدیلی آئے لیکن اس سلسلہ میں کچھ کہا نہیں جاسکتا کہ اسرائیل فلسطینیوں کے مقبوضہ علاقوں سے دستبردار ہوجائے گا یا آئندہ مزید علاقوں پر قبضہ کرنا چھوڑدے۰۰۰

سعودی دارالحکومت ریاض پر حوثیوں کا ناکام حملہ
سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض پر یمن کے حوثی باغیوں نے منگل کے روز پھر ایک بیلسٹک میزائل کے ذریعہ حملہ کیا جسے ناکام بنادیا گیا ، اس حملہ کے خلاف کئی ممالک کی جانب سے شدید مذمت کی جارہی ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق یمن کی ایرانی حمایت یافتہ حوثی ملیشیا نے 76لاکھ 80ہزار آبادی والے اس بڑے شہر پر حملہ کیا جو ناکام بنادیا گیا ۔ اس سے قبل ہفتہ کے روز بھی حوثی ملیشیا کا فضائی ہدف ناکام بنادیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ حوثی باغیوں نے یمن کے دارالحکومت صنعا پر 2014میں قبضہ کیا تھا جس کے بعد یمن کے صدر عبد ربہ منصور ہادی کی جانب سے سعودی عرب سے مدد کی درخواست کی گئی تھی ۔ سعودی عرب نے اپنے اتحادی ممالک کے ساتھ ملکر مارچ 2015 میں حوثی بغاوت کے خلاف جنگ کا آغاز کیا ، اسی جنگ کا نتیجہ ہیکہ حوثی باغی سعودی عرب کو نشانہ بنانے کی کوشش کرتے ہوئے کئی مرتبہ سعودی شہروں پر مزائیل حملے کئے جسے سعودی فضائیہ نے ناکام بنادیا ۔ کئی ممالک نے اس حملہ کی سخت مذمت کی ہے ، ترکی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کئے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہیکہ ’’ریاض پر حالیہ تین دنوں میں دوسری دفعہ میزائل حملے کی اطلاع موصول ہوئی ہے ، شہری آبادی کو ہدف بنانے والے اس میزائل حملے کو سعودی فضائی دفاعی نظام کی جانب سے ناکام بنادیا گیا ہے ، ہم مذکورہ حملوں کی شدت سے مذمت کرتے اور برادر ملک سعودی عرب اور سعودی عوام کے ساتھ نیک تمناؤں کا اظہار کرتے ہیں‘‘۔ ہفتہ کو ہونے والے حملہ کے بعد جوبائیڈن انتظامیہ نے ریاض کے شہریوں کو نشانہ بنانے کی مذمت کی ۔ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے کہا کہ ’’ایسے حملے بین الاقوامی قانون کے خلاف ہیں اور ان سے امن اور استحکام کو فروغ دینے کی تمام کوششیں کمزور ہوتی ہیں‘‘۔

شیخ صباح الخالد الصباح دوبارہ وزیر اعظم کویت مقرر
امیر کویت شیخ نواف الاحمد الجابر الصباح نے اتوار24؍ جنوری کو شیخ صباح الخالد الصباح کو دوبارہ کویت کا وزیر اعظم مقرر کردیا ہے۔ واضح رہے کہ گذشتہ ہفتہ کابینہ اور وزیر اعظم شیخ صباح الخالد الصباح نے پارلیمنٹ کے ساتھ اختلاف کے بعد استعفیٰ دے دیا تھا۔ وہ استعفیٰ دینے کے بعد امیر کویت کے کہنے پر نگران وزیر اعظم کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے ۔ امیر کویت نے وزیر اعظم کو نئی کابینہ بنانے کا حکم دے دیا ہے۔

دنیا میں بڑھتی ہوئی اسلام دشمنی کو روکنے کی ضرورت۰۰۰ رجب طیب اردغان
دنیا میں جہاں کہیں بھی دہشت گردی کے واقعات پیش آتے ہیں تو فوراً دشمنانِ اسلام اسے اسلامی دہشت گردی کے نام سے جوڑ دیتے ہیں جبکہ تحقیقات کے بعد کچھ اور ہی پتہ چلتا ہے کہ ان ظالمانہ کاررائیوں کو انجام دینے والے کون تھے ۔ اسلام دشمنی کو روکنے کے سلسلہ میں ترک صدر رجب طیب اردغان نے کہا کہ دنیا میں بڑھتی ہوئی اسلام دشمنی اور غیر ملکی دشمنی کو روکنے کی ضرورت ہے۔ انٹر نیشنل ’’ہولوکاسٹ‘‘ کے دن کے موقع پرترک صدارتی اطلاعات آفس کی جانب سے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا جس میں صدر ترک رجب طیب اردغان نے کہا کہ ایک ایسے دور میں جب انسانیت ایک مشکل دور سے گزر رہی ہے نئی قسم کے کورونا وائرس کے ساتھ ساتھ نسل پرستی کا وائرس بھی وبا کی شکل میں بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’مساجد ، گرجا گھروں اور دیگر عباتگاہوں کے خلاف تشدد کی کاررائیوں میں بڑے پیمانے پر اضافہ دیکھا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ نفرت انگیز مواد کے خلاف اقدامات اٹھانا ، جنگ کرنا صرف متاثرین ہی کی نہیں بلکہ پوری انسانیت کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے عالمی برادری کو بوسنیا، روانڈا اور کمبوڈیا جیسے سانحات دوبارہ وقوع پذیر ہونے سے روکنے کی ضرورت پر زوردیا۔

بائیڈن انتظامیہ کا افغانستان کیلئے فیصلہ
جوبائیڈن انتظامیہ نے جمعہ کو طالبان کے ساتھ کی جانے والی تاریخی امریکی ڈیل کا پھر سے جائزہ لینے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ کیا طالبان جنگجوؤں نے معاہدے کے اپنے حصے کی پاسداری کرتے ہوئے افغانستان میں حملوں میں کمی کی ہے یا نہیں۔گذشتہ سال قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کے ساتھ واشنگٹن نے ایک معاہدہ کیا تھا تاکہ عسکریت پسندوں سے سکیوریٹی ضمانتوں اور افغان حکومت کے ساتھ امن بات چیت شروع کرنے کے بدلے اپنی فوجوں کا انخلا کرینگے۔ لیکن سال گذشتہ ستمبر کے بعد دونوں فریقین میں مذاکرات کے باوجود افغان بھر میں تشدد میں اضافہ ہوگیا ۔ گذشتہ چند ماہ میں خاص طور پر کابل میں مہلک حملوں اور اعلیٰ شخصیات کی ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے ، جہاں کئی صحافیوں، کارکنوں ، ججوں اور سیاستدانوں کو دن دہاڑے قتل کیا گیا ۔ طالبان نے ان ہلاکتوں کی ذمہ داری سے انکار کیا ہے لیکن افغان اور امریکی عہدیداروں نے طالبان کو ہی ان ہلاکتوں کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ افغان عوام چاہتے ہیں کہ ملک میں امن و آمان قائم ہو اور صدر افغان اشرف غنی نے بھی اس سلسلہ میں جنگ بندی کی کوشش کی لیکن طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات ناکام ہی رہے۔ جب کبھی قطر میں مذاکرات کا عمل ہوتا ہے افغانستان میں حملوں میں شدت دیکھی گئی۔ اب دیکھنا ہیکہ جوبائیڈن انتظامیہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان کس طرح کے اقدامات کرتی ہے او رملک میں امن و سلامتی کے قیام کیلئے کیا فیصلے کرتی ہے۰۰۰
 

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 358 Articles with 255929 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.