ملک کی تاریخ میں اس بار پہلی باریوم جمہوریہ کی
پریڈ لال قلعہتک نہیں آئی بلکہ وہ راج پتھ سے شروع ہوکرنیشنل اسٹیڈیم پر
ختم کردی گئی مگر کسانوں کے اندر اپنے ایجنٹ بھیج کر ان کے لیے لال قلعہ کا
راستہ صاف کردیا گیا۔ ان کے ذریعہ پر لال قلعہ کے اندر سکھوں کا پرچم نشان
صاحب لگوا کر کسان تحریک کو بدنام کرنے کی مذموم سازش رچی گئی ۔ اس سانحہ
کا بہانہ بناکر کسان رہنماوں کو ڈرایا جارہا ہے اور مظاہرین کو بزور قوت
واپس بھیجنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ غازی پور سے اس کی ابتداء کی گئی مگر اس
جبر واستبداد کے خلاف اتر پردیش کے مظفرنگر شہر میں بھارتیہ کسان یونین کی
مہاپنچایت میں تنطیم کے سربراہ نریش ٹکیت نے اعلان کیا کہ زرعی قوانین کے
خلاف احتجاج جاری رہے گا۔ اس موقع پر کسانوں کومختلف سیاسی جماعتوں مثلاًآر
ایل ڈی ، عام آدمی پارٹی ، سماجوادی پارٹی، اور کانگریس کی حمایت حاصل
ہوگئی ۔ یوگی نے جو بجلی اور پانی کی سہولیات منقطع کردی تھیں کیجریوال نے
اسے بحال کروادیا نیز مہاپنچایت میں دہلی کوچ کرنے کا فیصلہ ہوا۔اس موقع
پرسوراج پارٹی کےرہنما یوگیندر یادو نے غازی پور بارڈر پر کہا کہ ، ’’مودی
جی، یوگی جی اور دیگر تمام لوگ اچھی طرح سن لیں، کسان اس تحریک سے پیچھے
ہٹنے والےنہیں ہیں ۔‘‘
72ویں جشن جمہوریہ کی سرکاری پریڈ میں سے اس بار کئی روایتی کشش کے حامل
دستوں کو کم کردیا گیا تھا ۔ ویسے اس کے مہمان خصوصی برطانوی وزیر اعظم نے
پہلے ہی کووڈ کا بہانہ بناکر معذرت کرلیا تھا لیکن ساری دنیا جانتی تھی کہ
انہوں نے یہ فیصلہ کورونا کے سبب نہیں بلکہ اپنے پنجابی رائے دہندگی کی
خوشنودی کے لیے کرکے مودی جی کو ناراض کردیا ۔ اس طرح کسانوں نے عالمی سطح
پر بھی پردھان سیوک کو دھوبی پچھاڑمار کر چاروں خانے چت کردیا۔ حکومت ہند
نے کووڈ کے سبب سماجی دوری کا بہانہ بناکر پریڈ میں حصہ لینے والے دستوں
کیتعداد144 سے کم کرکے 96 کردی ۔ سبکدوش فوجیوں سے احتجاج کر خطرہ تھا اس
لیے اس کے دستے کو پریڈ سے ہٹا دیا گیا ۔ موٹرسائیکل پر حیرت انگیز کرتب
دکھانے والے دستے کو بھی منع کردیا گیا حالانکہ اس کورونا کا کوئی تعلق
نہیں بنتا۔حکومت کی منافقت اس وقت کھل کر سامنے آگئی جب بنگلہ دیش کی
تینوں فوجوں کے122 جوانوں کو پریڈ میں شامل ہونے کا موقع دیا گیا کیونکہ
ایک طرف ہندوستانیوں کو بنگلادیشی بتا کر ان کے نام این آر سی سے خارجکرنے
کی دھمکی دی جاتی ہے اور دوسری جانب بنگلا دیشی فوجیوں کو یوم جمہوریہ کی
پریڈ میں شامل کیا جاتا ۔
جشن جمہوریہ کو بے رونق بنانے کے پیچھے واقعی کورونا ہے یا کسانوں کا
احتجاج ؟ اس کا فیصلہ کرنا مشکل ہے۔اسمیں شائقین کی تعداد کو مختصر کردیا
گیا ہے ویسے وہ کتنے بھی ہوں تب بھی کسانوں کے مقابلے عشر عشیر ہی ہوں گے
۔شائقین کی کمی کو کسان بڑے جوش و خروش سے پورا کردیں گے۔ یعنی جہاں سرکار
نے کووڈ کے بہانے صرف 25 ہزار شائقین کو راج پتھ پر پریڈ دیکھنے کی اجازت
دی ہے وہیں کسانوں نے لاکھوں ٹریکٹر کے ساتھ یوم جمہوریہ منانے کا
جرأتمندانہ اعلان کرکے اس قومی جشن میں چار چاند لگا دیئے۔ وزیر اعظم ایک
زمانے میں بار بار کہا کرتے تھے ۷۰ سال میں پہلی بار ان کی قیادت میں فلاں
فلاں کام ہورہا ہے ۔ پہلی بار کا سابقہ لگانے کے لیے کبھی سال کم کردیئے
جاتے تھے مثلاً بیس سال بعد کوئی وزیر اعظم یہ کررہا ہے وغیر ہ لیکن اس بار
یوم جمہوریہ کے دن کسانوں کی متوازی ریلی ایک ایسی شئےتھی جو نہ پہلے ہوئی
تھی اور نہ جس تصور کیا جاسکا تھا۔ کسانوں کو بدنا م کرنے والوں کو یہ
بتانا چاہیے کہ جملہ کتنے لوگوں نے پریڈ میں شرکت کی اور ان میں کتنے لوگوں
نے تشدد میں حصہ لیا ۔ وہ کون لوگ تھے اور حکومت کے ساتھ ان کا تعلق اور
معاملہ کیسا ہے۔ کسان رہنما راکیش ٹکیت کا یہ سوال اہم ہے کہ پرچم کی توہین
کرنے والوں پر گولی کیوں نہیں چلی گئی؟
کسانوں کو یہ اقدام کرنے پر مجبور کرنے والے وزیر اعظم یقیناً مبارکباد کے
مستحق ہیں لیکن اناپرستی کے سبب انہیں اسے قبول کرنے میں عار محسوس ہوگی ۔
کسانوں کی یہ بہت بڑی فتح ہے کہ ان لوگوں نے امیت شاہ جیسے سفاک وزیر داخلہ
کے تحت کام کرنے والی دہلی پولس کو اجازت دینے پر مجبور کردیا ۔ یہ دراصل
دہلی پولس کی نہیں امیت شاہ اور نریندر مودی کی بھی شکست ہے۔مرکزی حکومت نے
جب محسوس کیا کہ نئے زرعی قوانین کے خلاف ٹریکٹر ریلی کو روکنے کی اس کے
اندر ہمت نہیں ہے تو اپنی پولس کو سپریم کورٹ میں فریاد کرنے کے لیے روانہ
کردیا۔ یعنی عدالت عظمیٰ کی آڑ میں اپنے ناپاک عزائم کے بازیابی کی
گھناونی کوشش کی گئی۔ ویسے اس بار بھی عوام کو یہی توقع تھی کہ دہلی پولیس
کی عرضی پر چیف جسٹس شرد اروند بوبڈے کی صدارت والی تین رکنی بنچ وہی کرے
گی جورنجن گوگوئی نے بابری کے معاملے میں کیا تھا لیکن اس بار غالباً سپریم
کورٹ کو اپنے وقار کا خیال آگیا اور اس نے دوبارہ اس کی مٹی پلید کرنے سے
دانستہ گریز کیا۔
چیف جسٹس بوبڈے نے سماعت کے دوران کہا کہ دہلی میں(کسانوں کے) داخلہ کا
معاملہ نظم و نسق کا ہے ۔دہلی میں کون آئے اور کون نہیں،یہ دہلی پولیس کے
طے کرنےکاکام ہے۔ جسٹس بوبڈےیہ بات سمجھ گئے کہ دہلی پولس کا اصلی سربراہ
کہ جس کے اشارے پر وہ کٹھ پتلی کی مانند کام کررہی ہے قوت فیصلہ سے محروم
ہوچکا ہے ۔ اس کے اندرچونکہ اقدام کرنے کی جرأت نہیں ہے اس لیے وہ عدالت
کی آڑ میں چھپ کر وار کرنا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انتظامیہ کو کیا
کرنا ہے اور کیا نہیں، عدالت طے نہیں کرے گی ۔ دہلی پولس کی اس حرکت نے
امیت شاہ کی قلعی کھول دی ۔ دہلی کی پولیس نے کسانوں کی ٹریکٹر ریلی کو
منسوخ کرنے کےلیے سپریم کورٹ میں جو دلیل پیش کی تھی اس کو پڑھ کر ہنسی
آتی ہے۔
پولس نے کہا تھا اس ریلی سے یوم جمہوریہ پریڈ خراب ہوسکتی ہے۔ یہ درست بات
ہے کہ اس یوم جمہوریہ کو روایتی سرکاری پریڈ کے مقابلے ساری دنیا کی توجہ
کسانوں کے ٹریکٹر ریلی پر ہوں گی۔ اپنے ٹیلی ویژن پرہر روز کسی نہ کسی
بہانے وزیر اعظم کا چہرہ دیکھ دیکھ کر بور ہونے والے ناظرین یقیناً کچھ نیا
دیکھنا پسند کریں گے ۔ ساری دنیا کے اخبارات میں کسان ریلی چھا جائے گی
لیکن کوئی عقلمند پولس یہ باتیں نہیں کہتی ۔دہلی پولس کے ذریعہ اس بات کا
اعتراف کرواکے مودی سرکار نے اپنے پیر پر کلہاڑی مارلی ہے۔ پولس نے اس بابت
ساتھ ہی لا اینڈ آرڈر کے خراب ہونے کا بھی حوالہ دیا تاہم سپریم کورٹ کا
کہنا تھا پہلے دہلی پولیس اس پر کوئی فیصلہ تو کرے اور پھر عدالت دیکھے گی
کہ اس پر کیا ہوسکتا ہے یعنی وہ درست ہے یا نہیں؟ بغیر کچھ کیے روتے ہوئے
عدالت کے دروزے پر دستک دینا کہ خدارا کچھ کیجیے کسی بھی باوقار انتظامیہ
کو زیب نہیں دیتا ۔ یہی وجہ ہے کہ اپنا دامن جھاڑتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے
کہہ دیا دہلی پولیس اپنا کام عدالت سے نہ کروائے۔ اس جواب سے موجودہ سرکار
کے چودہ طبق روشن ہوگئے ہوں گے ۔
اس موقع پرکسان تنظیموں کے معقول دلائل کو دیکھنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے
۔ انہوں نے کہا کہ وہ دہلی کے اندر یوم جمہوریہ پریڈ کے نزدیک نہیں جانا
چاہتے۔ یہ تو سیدھی سی بات ہے کہ جس پریڈ میں شامل ہونے کے لیے برطانیہ کے
وزیر اعظم کو دعوت دی گئی ہو۔ اس برطانیہ کے وزیر اعظم کو کہ جس نے اس ملک
کوغلام بنایاتھا اس کے قریب حریت پسند کسان کیسے جاسکتے ہیں؟ وہ تو خیر
بورس جانسن کی معذرت کے بعد مسئلہ ٹل گیا۔ کسانوں نے کہا وہ جن پتھ پر نہیں
بلکہ دہلی کے رنگ روڈ پر ٹریکٹر ریلی نکالنا چاہتے ہیں۔ یہ بات قابل غور ہے
کہ جہاں جن پتھ پر سرکار دربار کا بسیرا ہے وہیں رنگ روڈ پر گاندھی جی کی
سمادھی ہے۔ اس طرح ایک طرف غلامی پر نازاں و شاداں حکومت کے زیر اہتمام یوم
جمہوریہ کی تقریب اور دوسری جانب آزادی کے متوالوں کا جشن جمہوریہ کا منظر
آمنے سامنے ہے ۔
کسانوں نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ وہ جن پتھ کے پروگرام میں کوئی
رخنہ اندازی نہیں کریں گے ۔ ان دلائل سے عدالت عظمیٰ مطمئن ہوگئی اور اس نے
دہلی پولس کے ذریعہ اس پر پابندی لگانے کے مطالبے کو مسترد کردیا ۔ موجودہ
حکومت یہ بھول گئی کہ پابندی لگانے کا کام عام طور پر حکومت اور انتظامیہ
کے ذریعہ سے ہوتا ہے۔ عدالت میں اسے چیلنج کیا جاتا ہے ۔ کبھی پابندی اٹھتی
ہے اور کبھی قائم رہتی ہے لیکن عدالت پابندی لگانے کا کام نہیں کرتی ۔
موجودہ حکومت کے سربراہان کو دراصل انتخابی جوڑ توڑ کے علاوہ کسی چیز میں
مہارت نہیں ہے اس لیے اتنی سہل بات بھی ان کی سمجھ میں نہیں آتی ۔عدالت
میں منہ کی کھانے کے بعد دہلی پولس نے کسان رہنماوں کو اجازت دینے کی خاطر
بابت گفت و شنید کا آغاز کیا لیکن اس کی تفصیل جاننے سے قبل ایک نظر تحریک
پر خالصتانی اور ماونواز ہونے کا الزام لگانے والوں کی خبر لینا ضروری
معلوم ہوتا ہے۔ اس طرح کی غیر ذمہ دارانہ بہتان طرازی کرنے والوں میں بی جے
پی چھٹ بھیا ّ رہنماوں کو نظر انداز کردیا جائے تب بھی کسانوں سے بات کرنے
والے وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر، وزیر اعظم کے منظور نظر پیوش گوئل،
مرکزی وزیر روی شنکر پرشاد، ہریانہ کے وزیر اعلیٰ کھٹر، منوج تیواری اور
سشیل مودی جیسے رہنما شامل ہیں ۔ اب انہیں جواب دینا ہوگا کہ آخر نام
نہادخالصتانی یا ماونوازوں کو یوم جمہوریہ کے دن دہلی میں جلوس نکالنے کی
اجازت کیوں دی گئی؟
(۰۰۰۰۰۰۰جاری)
|