وطن عزیز اس وقت ایک ایسے دہرائے سے گذر رہا ہے ، جب
ملکی و عالمی غذائی صورت حال پر بے یقینی کے سائے و غذائی قلت کے خطرات ہیں
، یہ حالات آنے والوں برسوں میں ایک بڑے بحران کو جنم دے سکتے ہیں۔ اقوام
متحدہ بار بار دنیا بھر کو غذائی قلت و بحران کی نشان دہی کررہا ہے ، گیلپ
سروے میں بھی مملکت کے موجودہ غذائی حالات پر بدترین منظر کشی ،ہولناک
صورتحال سے آگاہ کیا گیاہے۔ آٹے ، چینی و دیگراشیا ء اجناس کی کمیابی ،
بلیک مارکیٹ و کم پیداوار، مہنگائی ،بے روزگاری ،زیرگردش قرضے اور ٹیکسوں
کی بھرمار ،گذرتے وقت کے ساتھ عوامی مصائب میں اضافے کا موجب بن رہے ہیں ۔سینوں
میں دبی چنگاری غصے کی آگ میں تبدیلی کا عندیہ دے رہی ہے۔
بدقسمتی سے دنیا کے بیشتر ممالک اقتصادی اہداف تک پہنچنے میں ناکامی پر
نوحہ کناں ہیں ، اقوام متحدہ دنیا کو تین دہائی قبل ہی آگاہ کرچکی تھی کہ
2030تک تمام ممالک کو خوراک کی پیداوار میں 50فی صد اضافہ کرنا ہوگا ۔ تاہم
غربت کے خاتمے کی عالمی کوششوں میں سنجیدگی کے فقدان نے ترقی یافتہ ممالک
کی بد نیتی ، استحصالی ذہنیت اور معاشی مفادات کو مکمل طور پر آشکارہ کردیا
ہے ، اگر عالمی برداری انسانی ہمدردری کی بنیاد پر خط افلا س کے نیچے زندگی
بسر کرنے والوں کی دستگیری کرتی تو ان کا مستقبل انہیں نگلنے کے لئے تیار
نہ ہوتا ۔لیکن عالمی قوتوں کے مفادات کے اثرات سے ترقی یافتہ و غریب ممالک
بُری طرح متاثر ہو رہے ہیں اور ہنوز کرونا وبا کے بعد ایسے ممالک کو مزید
چیلنجز کا سامنا ہوگا ، بالخصوص ترقی پزیر و غریب ممالک درپیش اہداف سے خوف
زدہ ہیں۔
عوام حکومت کو مسند اقتدار پر اس لئے براجمان کراتے ہیں، تاکہ ان کے معاشی
حالات میں تبدیلیاں آئیں ، ریلیف ملے ، روزگار کے مواقع دستیاب ہوں ،
مہنگائی سے نجات ملے ، تعلیم ، صحت ، رہائش و بہتر زندگی کی ضمانت ملے ،
لیکن اس کے برعکس ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے ان پر مسائل کا انبار
لاد دیا جاتا ہے ،جس سے عوام کے سر سے بوجھ اٹھانے کی تمام کوششیں بے سود
ہوتی چلی جاتی ہیں ، اس اَمرسے قطعی انکار نہیں کہ بے پناہ اقتصادی اور
معاشی مصائب کا ملبہ ہر حکومت کو ورثے میں ملتا ہے ، تیس ماہ گذر جانے کے
بعد بھی موجودہ حکومت کو درستی سمت و ملکی تعمیر نو کے بلند بانگ دعوؤں کو
پورا کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے ، یقیناََ انہیں بھی اس کا ادراک ہوچکا
کہ وہ ایک ایسے بھنور میں پھنسے ہوئے ہیں ، جس سے نکلنے کے لئے حاصل قوت
بھی ناکافی ثابت ہو رہی ہے۔ سیاسی پنڈت اس عمل کو ملک و قوم کے لئے مزید
نقصان کا موجب قرار دیتے ہیں۔
عام عوام کا اس سے کوئی تعلق نہیں کہ حکومتی اتحاد کو کن دشواریوں کا سامنا
ہے ، وہ صرف اپنے سادہ سوالوں کے سیدھے جواب ہی مانگتے ہیں ، کہ انہیں صاف
پانی ، سستی بجلی ، روٹی ، رہائش و چادر و چار دیواری کے تحفظ کی ضمانت کب
ملے گی ، اس ضمن میں فوری نتائج کی خواہش خود حکمرانوں نے ہی پیدا کی تھی
اب انہیں سمجھانے میں دقت کا سامنا ہے، کیونکہ وہ اپنے سیاسی انتقام کی آگ
سے باہر نکلنے کے لئے ذہنی طور پر آمادہ نہیں ۔ وزیراعظم کا یہ کہنا صائب
ہے کہ طویل المدتی بنیادوں پر منصوبے نہیں بنائے جاسکتے ، کیونکہ اقتدار کی
مدت کم ہوتی ہے ، بلاشبہ یہ ایک اہم پہلو ہے ، لیکن ملکی معروضی حالات
بتاتے ہیں کہ کسی بھی سیاسی حکومت کو پہلے تو مدت اقتدار پورا ہونے کا موقع
ہی نہیں دیا گیا ، دو م جب اقتدار کی مدت پوری بھی ہوئیں تو جو بھی اپوزیشن
تھی ، اُس نے حکومت کو تسلی سے کام نہیں کرنے دیا ، یہ سب پہلے سے چلا آرہا
ہے ، یہ سلسلہ اب بھی ہنوز جاری ہے ۔
درحقیقت ہم نے اپنے قومی وسائل پر انحصار کرنے کی روایات پر بہت کم عمل کیا
ہے ، عالمی اقتصادی صورت حال سے کٹ کر بھی اپنے معاشی بحران پر قابو نہیں
پا یا جاسکتا ، مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ایسا کبھی نہیں ہوسکتا
،حکمرانوں و پالیسی سازوں کو دنیا کے دیگر ممالک پر انحصار کی پالیسی سے
زیادہ اپنے دست و بازو پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ رب کائنات نے ہمیں بے پناہ
معدنی و قدرتی وسائل سے نوازا ہے ، ہم شکران ِ نعمت کرتے ہوئے ان خامیوں کو
ختم کرنے پر قوت صَرف کریں، جس نے ہماری زرعی معیشت کو کھوکھلا کردیا ہے۔
گندم کی قلت ، آٹے و چینی کا بحران و اشیا ء خوردنوش کی گراں قیمتوں و
ذخیرہ اندوزی سے پیدا شدہ مسائل کی سنگینی چشم کشا ہے ، مارکیٹ کے عوامل ،
ہوس زر ، گٹھ جوڑ ، سمگلنگ سے مفاد پرست اربوں روپے بٹورنے والے کا نقصان
قومی خزانے کو پہنچ رہا ہے ۔احتساب کا عمل سیاسی ہوچکا ہے اور اب عوام کا
اعتماد اداروں کی استعداد کار سے اُٹھتے ہوئے بے یقینی میں اضافے کا موجب
بننے لگا ہے۔
حکومت کو پوری توجہ غذائی صورتحال کو کنٹرول کرنے پر مرکوز کرنے کی ضرورت
تھی اور ہے۔آٹے و چینی کی قلت ، گندم کی فراہمی و پیٹرولیم مصنوعات میں
تواتر سے اضافے سے لوگوں کی سماجی زندگی میں تعطل پیدا ہوا۔ حکومت اپنے
معاشی اہداف کے آکڑے میں مہنگائی میں پسے عوام کی مشکلات کو پیش نظر رکھے ،
بنیادی سہولتوں کی فراہمی میں بجلی ، گیس ، وغیرہ کی قیمتوں میں مسلسل
اضافہ و قوت خرید کی کمی سے ہر شعبہ زندگی بُری طرح متاثر ہے۔ پارلیمان میں
آئین سازی کے بجائے جو کچھ ہورہا ہے ، اس پر اٹھنے والے کروڑوں روپے
اخراجات ، ایوانوں و وزرا ء اور مشیروں کی فوج قومی خزانے پر سفید ہاتھی
ثابت ہو رہے ہیں۔
حزب اختلاف کی جماعتیں ، سیاسی مفادات کے ٹکراؤ کے باعث گنجلگ مسائل میں
الجھی ہوئی ہیں، تو دوسری جانب حکومت ابھی بھی ایسے راستے پر گامزن ہے ، جس
سے نکلنے کا کوئی حل کامیابی کی نوید نہیں دے رہا ۔شش وپنچ کی اس کیفیت میں
عوام ، اب کسی کی بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں ۔ بدقسمتی سے ملکی حالات
بدستور اُس نہج پر جا رہے ہیں جہاں کسی بھی ادارے کو اپنا اعتماد برقرار
رکھنے کے لئے پل صراط سے گزرنا ہوگا ۔ ضروری ہے کہ ریاستی ادارے عوام کو
درپیش مشکلات کا ادارک کریں ، سنگین حالات سے باہر نکالنے کے لئے اپنی
پالیسیوں کی خامیوں کو دور کریں ، ریاست کو اندرون خانہ ہی بلکہ خارجی
معاملات پر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ذاتی اَنا کو قوم کے اجتماعی مفاد پر
فوقیت دینا ناقابل تلافی نقصان کا موجب بن سکتا ہے۔
|