کشمیریوں کے ساتھ یک جہتی کا ایک دن

پاکستان اور دنیا بھر میں5 فروری کویوم یکجہتی کشمیر کے طور پر منایا جاتا ہے ۔لاکھوں بھارتی شہریوں اور فوجیوں کو کشمیر کا ڈومیسائل اجراء کرنے، 5اگست2019کے بعد انتفادہ کی نئی لہر، طویل عوامی مزاحمت، کرفیو، ہڑتالیں، مظاہرے، پیلٹ اور پاوا شیلنگ، سیکڑوں بچوں، طلباء، خواتین اور معمر افراد کو آنکھوں سے محروم کیا جانا، سیکڑوں شہادتیں،ہزاروں کی تعدادمیں گرفتاریاں، کالے قانون سیفٹی ایکٹ کے تحت ماورائے عدالت حراستیں،ریاستی دہشت گردی، آزاد کشمیر کی شہری آبادی پر گولہ باری، نام نہاد سرجیکل سٹرائیکس کے دعوؤں اور جنگی دھمکیوں کے دوران آج ایک بار پھر کشمیریوں کے ساتھ یک جہتی کی جا رہی ہے۔مسلم لیگ ن، پی پی پی سمیت اپوزیشن مظفر آباد میں جلسہ عام میں عمران خان حکومت کی کشمیر پالیسی کو ہدف تنقید بنانے کے لئے کمر بستہ ہے۔یک جہتی کا دن منانے کا آغاز 1990ء کو ہوا جب جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد مرحوم کی تحریک پر اس وقت کے اپوزشن لیڈر اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد نوازشریف نے کشمیریوں کے ساتھ مکمل اظہار یکجہتی کی اپیل کی۔اس اپیل کی بہت تشہیر کی گئی۔تب پاکستان میں 5 فروری 1990ء کو کشمیریوں کے ساتھ زبردست یکجہتی کا مظاہرہ کیا گیا۔ملک گیر ہڑتال ہوئی اور ہندوستان سے کشمیریوں کو آزادی دینے کا مطالبہ کیاگیا۔ اس دن جگہ جگہ جہاد کشمیر کی کامیابی کے لئے دعائیں مانگیں گئیں۔آج قاضی صاحب ہم میں موجود نہیں لیکن ان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔آج عمران خان پاکستان کے وزیر اعظم ہیں۔ توقع ہے کہ وہ کشمیریوں کے ساتھ روایتی یک جہتی کے بجائے اس کے بنیادی مقاصد یعنی حق خودارادیت، رائے شماری کے حصول کی جانب بھر پور توجہ دیں گے۔

کشمیریوں کے ساتھ یک جہتی کا آغاز اندرا گاندھی اور شیخ عبد اﷲ اکارڈ ( Indra-Abdullah-Accord)کے خلاف ذوالفقار علی بھٹو کی کال پر 28فروری 1975کو کشمیر کے آر پار اور پاکستان میں ہڑتال سے ہوا۔بے نظیر بھٹوکے دور حکومت میں پیپلز پارٹی نے 5 فروری کو عام تعطیل کا اعلان کر کے کشمیریوں کے ساتھ نہ صرف یکجہتی کا مظاہرہ کیا بلکہ وزیراعظم بے نظیر بھٹو آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد تشریف لائیں جہاں انہوں نے قانون ساز اسمبلی اور کونسل کے مشترکہ اجلاس کے علاوہ جلسہ عام سے خطاب کیا،کشمیریوں کو ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا اور مہاجرین کشمیر کی آباد کاری کا وعدہ کیا۔ تب سے اس دن کو ہر برس سرکاری طور پر منایا جاتا ہے۔پورے ملک میں سرکاری تعطیل ہوتی ہے۔ جبکہ آزادکشمیر اسمبلی اور کشمیر کونسل(تجدید شدہ) کے مشترکہ سیشن سے صدر یا وزیراعظم پاکستان خصوصی خطاب فرما کرکشمیریوں سے اظہار یک جہتی اور جدوجہد آزادی کی حمایت کا اعلان کرتے ہیں۔ 5 فروری 2004ء کو سابق صدر پرویز مشرف کی بھارتی حکمرانوں کے ساتھ تازہ دوستی میں کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار نہ کیا گیا اور اس روایت کو نظر انداز کر دیا گیا جو کشمیر کی تحریک آزادی کے نئے مرحلے پر ڈالی گئی تھی۔پھر سابق وزیر اعظم نواز شریف نے مظفر آباد میں اسمبلی کے مشترکہ سیشن سے خطاب کیا۔

جب بھی سربراہان حکومت نے مظفر آباد کے اس موقع پر دورے کئے تو وہ مہاجرین1989کے کیمپوں میں گئے۔سرینگر سے بہتے دریائے جہلم کے کنارے مانکپیاں مظفر آباد میں انہوں نے مہاجرین 1989کے ساتھ ظہرانا کیا۔ مہاجرین کے گزارہ الاؤنس میں اضافے، ان کے لئے تعلیم، صحت، روزگار،آبادکاری سمیت بنیادی حقوق دینے میں عملی قدم اٹھایا۔ مہاجرین کی حالت زارکا اندازہ وادی نیلم روڈ پر چہلہ میں قائم خیمہ بستیوں سی بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ان میں سے بعض کو سرینگر روڈ پر جہلم وادی میں ٹھوٹھہ کے مقام پر قائم بستی میں آباد کر دیا گیا۔ جو کہ حکومت کا مثبت قدم ہے۔ مظفر آباد شہر اور دیگر مقامات پر کرایوں پر رہائش پذیر مہاجرین سمیت دیگر مہاجرین کئی دہائیوں سے 1947, 65, 71کے مہاجرین کی طرز پر آبادکاری کے منتظر ہیں۔وہ چاہتے ہیں کہ حکومت اگر کسی معقول آبادکاری میں دلچسپی رکھتی ہے تو تہ کیمپوں میں ان کے زیر قبضہ تعمیرات انہیں الاٹ کرنے سمیت راولپنڈی، اسلام آباد، مانسہرہ یا آزاد کشمیر کے حدود میں انہیں آباد کیا جائے تا کہ ان کی کشمیری شناخت متاثر نہ ہو۔ تحریک آزادی مہاجرین کی اولین ترجیح ہے، اس کے ساتھ ان کے بچوں کو بنیادی سہولیات سے کسی بھی صورت میں محروم نہیں رکھا جا سکتا۔ مہاجرین89 کا مختص کوٹہ نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیئے۔ ٹھو ٹھہ جیسی بستیوں کا قیام مستقل آباد کاری کی جانب پہلا قدم ہو سکتا ہے۔کیمپوں میں مفت بجلی، پانی،مفت تعلیم اور طبی سہولیات کی فراہمی بھی ضروری ہے۔پتہ نہیں کہ مہاجرین کے لئے ریفوجی منیجمنٹ سیل ( آر ایم سی )کے زیر انتظام راولپنڈی ریلوے ہسپتال میں جاری مفت علاج و معالجہ سہولیات کئی برس قبل کیوں ختم کر دی گئیں۔

کشمیری صدیوں سے غیر ملکی تسلط اور قابض حکمرانوں کے مظالم کے شکار رہے ہیں لیکن انہوں نے کبھی ہمت نہ ہاری، ان کو ایمان فروشوں کا بھی سامنا کرنا پڑا لیکن تحریک آزادی کسی نہ کسی شکل میں جاری رہی۔ 100 سال تک ڈوگروں نے کشمیریوں کو بدترین غلامی کا شکار بنائے رکھا۔ انھوں نے ہوا کے بغیر ہر چیز پر ٹیکس لگا دیا، اگر کوئی بچہ پیدا ہوتا تو ٹیکس ادا کرنا پڑتا اور کوئی موت واقع ہوتی تو اس کے لواحقین ٹیکس جمع کراتے، پھر تدفین کی اجازت ملتی، اس سے قبل قحط سالی نے کشمیریوں کو گردو نواح کے علاقوں میں ہجرت پر مجبور کر دیا تھا۔ کشمیر جو دنیا کی زرخیز ترین سرزمین ہے، جہاں قدرتی وسائل کی بہتات ہے، جہاں کی زمین حقیقت میں سونا اگلتی تھی، اب خون سے لالہ زار بن چکی ہے۔ یہ ڈوگروں کے مظالم ہی تھے جن کے باعث کشمیری اٹھ کھڑے ہوئے اور 13 جولائی 1931ء کو 22 نوجوانوں نے اپنے سینوں پر گولیاں کھا کر شہادتیں پیش کیں لیکن وہ جھکے نہیں۔ ان شہداء کے خون کا قرض ان کے بعد 5 لاکھ شہداء نے چکا دیا۔

برصغیر کے مسلمانوں نے ہمیشہ کشمیریوں کے دکھ و درد کو محسوس کیا اور اس پر عملی اقدامات کئے۔ 13 جولائی 1931ء کو سرینگر میں مسلمانوں کے قتل عام نے لاہور میں سب کو غمگین کر دیا، لاہور میں ہی فوراً آل انڈیا کشمیر کمیٹی تشکیل دی گئی جس کا واحد مقصد کشمیریوں کی تحریک آزادی کی عملی امداد کرنا تھا۔اس وقت لوگ سیاسی، سفارتی اور اخلاقی امداد سے زیادہ مادی اور عملی امداد پر یقین رکھتے تھے۔ کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی نے ہندوستانی مسلمانوں کو تحریک پاکستان کے لئے بھی ایک پلیٹ فارم مہیا کیا۔ مفکر اسلام عظیم فلاسفر اور دانشورڈاکٹر علامہ اقبال کو کشمیر کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ اس دوران آل انڈیا مسلم لیگ نے ایک قرارداد کشمیریوں کی حمایت میں منظور کی۔ حالات تیزی سے بدل رہے تھے۔ لیڈر شپ میدان میں آ چکی تھی۔ یہ لیڈر شپ مخلص، ہمدرد اور قوم پر مرمٹنے والی تھی، آج کی لیڈر شپ قوم پر مر مٹنے کے لئے تیار رہے تومثبت نتائج کی توقع کی جا سکتی ہے۔
مئی 1936ء کو قائداعظم محمد علی جناحؒ نے کشمیریوں کے ساتھ عملی یکجہتی کا اظہار کرنے کیلئے سرینگر کا دورہ کیا۔ انہوں نے کشمیریوں کو متحد ہو کر جدوجہد کرنے کی اپیل کی۔ قائداعظم کو اندازہ تھا کہ ڈوگرہ حکمران مسلمانوں کے عقیدے اور اقدار کے برخلاف اقدامات کریں گے۔ قائداعظم کے دورے کے بعد جواہر لعل نہرو نے بھی سرینگر کا دورہ کیا۔ حالانکہ وہ خود کشمیری تھا لیکن 1931ء کے قتل عام کے بعد اسے مقبوضہ وادی آنے کی توفیق نہ ہوئی جس پر کشمیری مسلمان برہم تھے۔ مسلم کانفرنس نے نہرو کے خلاف احتجاج کیا جبکہ قائداعظم کا شاندار استقبال کیا گیا تھا۔ قائداعظم نے جون 1944ء کو سرینگر کا دوسرا دورہ کیا۔ انہوں نے مسلم کانفرنس اور نیشنل کانفرنس کو اتحاد قائم کرنے کی اپیل کی۔ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ نے قائداعظم سے ملاقات نہ کی۔ وہ مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کے درپے تھے جبکہ قائداعظم مسلمانوں کو متحد ہو کر جدوجہد آزادی تیز کرنے کی طرف لے جا رہے تھے۔ قائداعظم کے اثرات ختم کرنے کیلئے 1945ء کو نہرو نے بھی سرینگر کا دورہ کیا۔شیخ محمد عبداﷲ نے نہرو کا استقبال کیا اور دریائے جہلم پر کشتیوں میں نہرو کے حق میں جلوس نکالا۔ اس جلوس پر مسلم کانفرنسیوں نے پتھراؤ کیا اور جوتے پھینکے۔ جارج بش کی طرح جواہر لعل نہروجوتوں کے حملے میں بال بال بچ گئے لیکن کشمیریوں کوقائداعظم کیساتھ تعاون اور عقیدت کی سزا دینے کا ایک دور شروع ہوا ۔ جو نہرو خاندان نے جاری رکھا۔ اندراگاندھی ،راجیو گاندھی اور اب ان کے جانشین راہول گاندھی نہروپرجوتے برسانے کا انتقام کشمیریوں سے لے رہے ہیں۔ جن سنگھی مسلم اور پاکستان دشمنی پر ہی آگے آئے ہیں۔نریندر مودی نے نفرت کی وجہ سے اپنا مقام بنایا ہے۔ وہ انتہا پسندی کو فروغ دینے میں سب سے آگے ہیں۔

کشمیر میں تسلط کو مضبوط کرنے کیلئے بعض کشمیریوں، پاکستانی حکمرانوں کی یک طرفہ لچک اور معذرت خواہانہ پالیسی نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ جب شیخ محمدعبداﷲ نے زراسی خودمختاری کا مظاہرہ کیا تو انہیں ان کے نام نہاد دوست نہرو نے ہی گرفتار کرکے 13سال تک جیل میں ڈالے رکھا اور جب پاکستان ٹوٹنے پر1971ء کے بعد کشمیر پالیسی پر کمزوری دکھائی گئی اور کشمیری مایوس ہوگئے تو25فروری1975ء کی محاذ رائے شماری کے پلیٹ فارم سے آزادی کی جدوجہد کو ترک کرکے بھارت کے ساتھ معاہدہ کے تحت شیخ عبد اﷲ کو جیل سے نکال کر اقتدار دیدیا گیا۔اس معاہدے کو اندرا عبداﷲ اکارڈ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اندراگاندھی کی طرف سے جی پارتھا سارتھی اور شیخ محمدعبداﷲ کی طرف سے مرزا افضل بیگ نے اس معاہدے کو تکمیل تک پہنچایا۔

اندرا گاندھی نے 24فروری 1975کو اس معاہدے کا اعلان کیاتو وزیراعظم پاکستان ذوالفقارعلی بھٹو نے اس کے خلاف ہڑتال کی کال دی۔ کشمیریوں نے اس کال پر عمل کیا اور28فروری1975ء کو فقیدالمثال ہڑتال کی گئی۔ شیخ محمدعبداﷲ کانگریس والوں کو گندی نالی کے کیڑے قراردیتے تھے ۔ لیکن بعد ازاں انھوں نے کانگریس کے ساتھ مل کر حکومت قائم کرلی ۔ لیکن کشمیریوں نے ذوالفقارعلی بھٹو کی کال پر مکمل عمل کیا۔ بھٹو صاحب نے کشمیر پر100سال تک جنگ لڑنے کا بھی اعلان کیاتھا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کشمیریوں اور پاکستان نے ایک دوسرے کے ساتھ مکمل یکجہتی کا عملی مظاہرہ کیا۔28فروری1975ء کو ذوالفقارعلی بھٹو کی کال پر ہڑتال کے بعد کشمیریوں اور پاکستان کی مکمل یک جہتی کے اظہار کا تسلسل 5 فروری ہے۔ جسے بینظیربھٹو نے سرکاری طورپر منانے کافیصلہ کیا تھا۔ محترمہ نے1995ء میں برطانوی لیبرپارٹی کے تعاون سے کشمیر پر برائٹن ڈیکلریشن میں مرکزی کردار ادا کیا۔ پہلی مرتبہ جب سینئر صحافی واجد شمس الحسن کو برطانیہ میں سفیر بناکر بھیجا گیا تو ان کو مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کیلئے خصوصی ٹاسک دیاگیاتھا۔ ان کو واضح طورپر محترمہ بینظیربھٹو نے مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کی ہدایت دی تھی۔ کشمیری مجاہدین کو فریڈم فائٹرزکا خطاب محترمہ بینظیربھٹو نے ہی دیا تھا۔ میاں نواز شریف تیسری بار وزیراعظم بنے ۔ انھوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کے موقع پر برہان وانی کو شہید مجاہد قرار دے کر بھارت کو للکار ا۔ دنیا بھر میں جارحانہ سفارتی مہم شروع کی گئی تا کہ مسلہ کشمیر کو کشمیریوں کی رائے کے مطابق حل کیا جائے اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں رائے شماری کرائے جائے۔بھارت اس سے راہ فرار اختیار کر رہا ہے۔یک جہتی کا تقاضا ہے کہ بھارت کو بھاگنے کا موقع نہ دیا جائے۔

آج پاکستان بھر میں جگہ جگہ یوم یک جہتی کشمیر کے حوالے سے تقریبات منعقد ہو تی ہیں۔ وفاقی دارالحکومت میں کشمیر کنونشن ہوتا ہے۔ کوہالہ اور آزاد کشمیر کو پاکستان سے ملانے والے دیگر تمام رابطہ پلوں پر انسانی زنجیر یں بنائی جاتی ہیں۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلباء کے درمیان مضمون نویسی کا مقابلہ ہوتا ہے۔ پاکستانی قوم کشمیریوں کے ساتھ یک جہتی کا عزم کرتی ہے اور تحریک آزادی کے ساتھ بھرپور تعاون کرنے کا تجدید عہد کیا جاتا ہے۔پاکستان کشمیریوں کا وکیل بھی ہے اور مسلہ کشمیر کا اہم فریق بھی۔ اس لئے ایک مضبوط اور مستحکم سپر پاورپاکستان پر کشمیریوں کی نظریں لگی ہیں کہ وہ کس طرح تحریک آزادی کے لئے معاون و مددگار بننے میں مزید جدید خطوط پر تحریک کو استوار کرنے کے لئے اپنا کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔

کشمیر کے ساتھ یک جہتی کا تقاضا ہے کہ کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کو ایسے جدید سائنسی خطوط پر استوار اور منظم و مربوط کیا جائے کہ بھارت مسلہ کشمیر کو کشمیریوں کی مرضی کے مطابق حل کرنے پر مجبور ہو جائے۔اقوام متحدہ کی انسانی حقوق رپورٹ کی دنیا بھر میں مزید تشہیر کی ضرورت ہے۔دنیا کا بھارت پر دباؤ ضروری ہے تا کہ بھارت کشمیر میں رائے شماری کرانے پر آمادہ ہو۔ بھارت اپنے آئین کے تحت مقبوضہ کشمیر میں ڈی ڈی سی انتخابات کے بعد ریاستی اسمبلی اور پارلیمنٹ کے انتخابات کی ایک بار پھر تیاری کر رہا ہے۔ ان انتخابات کوبھارت دنیا کے سامنے دہلی کے حق میں عوامی رائے کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل عالمی دباؤ کے بغیر ناممکن ہے۔ اقوام متحدہ، او آئی سی، عرب لیگ،ایس سی او،سارک اور دیگر پلیٹ فارمزکشمیر کی آزادی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ بھارت کی کوشش ہے کہ مسلہ عالمی سطح پر اجاگر نہ ہو۔ بلکہ پاک بھارت قیادت مل کر اسے حل کرے۔ اس کا مقصد ہے کہ مسلہ کشمیر کو عالمی مسلے سے نکال کر دو طرفہ علاقائی مسلہ بنایا جائے۔ پاک بھارت مذاکرات کے سیکڑوں راؤنڈ ہو چکے ہیں ۔ آئیندہ بھی ہوں گے۔ مگر کشمیریوں کی ان میں شمولیت کے بغیر کوئی پیش رفت ناممکن ہے۔کشمیریوں کوان کی مرضی کا فیصلہ کرنے کا حق دیئے بغیر مسلہ حل نہیں ہو سکتا ہے۔کشمیر کے ساتھ یک جہتی کے لئے عالمی اور بھارتی رائے عامہ کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔اس کے ساتھ جدوجہد آزادی کے متاثرین، بھارتی ازیت خانوں میں کشمیری قیدی،شہداء کے بچے، بیوائیں، زہنی اور جسمانی طور ناکارہ اور مفلوج کئے گئے ہزاروں افراد، اپنے گھرو بار چھوڑنے پر مجبور ہونے والے مہاجرین بھی خصوصی توجہ کے مستحق ہیں۔امید ہے عمران خان حکومت اور پی ڈی ایم مظفر آباد میں جلسہ عام کے بعد بھی کشمیریوں کے ساتھ یک جہتی سمیت نئے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے کشمیریوں کی جدوجہد کو دنیا میں اجاگر کرنے کی جانب توجہ دے گی۔
Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 555872 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More