ڈاکٹر لبنیٰ ظہیر
آج پاکستان بھر میں یوم یکجہتی کشمیر منایا جا رہا ہے۔
یہ دن اب ایک روایت بن چکا ہے جو گزشتہ اکتیس برس سے جاری ہے۔ اس طرح کی
رسمی روایتوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ ایک معمول سا بن جاتی ہیں۔ لوگ محسوس
کرتے ہیں کہ چلو یہ رسم بھی پوری ہو گئی۔ طلبہ و طالبات، سرکاری ملازمین
اور دفاتر میں کام کرنے والوں کے لئے یہ دن فقط ایک عام تعطیل کے حوالے سے
دیکھا جاتا ہے۔ تاہم حکومتی، سیاسی اور سماجی حلقوں میں کچھ سرگرمی ضرور
دکھائی دیتی ہے۔ آج بھی تقریبات ہوں گی، آزاد کشمیر میں حکومت اور
پی۔ڈی۔ایم کے جلسے ہو ں گے۔ زور دار تقریریں ہوں گی۔ نعرے لگیں گے۔ ریلیاں
نکلیں گیں۔ کئی کئی کلومیٹر طویل ہاتھوں کی زنجیریں بنیں گی۔ جا بجا بینرز
لگیں گے۔ اخبارات خصوصی ایڈیشن شائع کریں گے۔ کشمیریوں سے یکجہتی کے لئے
اشتہارات چھپیں گے۔ خصوصی نغمے جاری ہوں گے۔ ٹیلی ویژن چینلز خصوصی نشریات
ترتیب دیں گے۔ اگر پچھلی روایت زندہ رہتی ہے تو عین ممکن ہے کہ پارلیمنٹ کا
مشترکہ اجلاس بھی بلایا جائے۔ اس میں کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے
تقاریر بھی ہوں گی۔ حکومتی ارکان کا دعویٰ ہو گا کہ ہم نے کشمیر کا مسئلہ
اجاگر کرنے کے لئے جو کچھ کیا، ماضی میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ وہ
یقینا اپوزیشن جماعتوں کو یاد دلائیں گے کہ ماضی میں انہوں نے کشمیر کا
مسئلہ بگاڑ دیا اور پاکستان کے موقف کی پر جوش ترجمانی نہیں کی۔ اپوزیشن کی
دونوں بڑی جماعتیں اپنے کارناموں کا ذکر کریں گی۔ وہ عمران خان پر "کشمیر
فروشی " کا الزام لگاتے ہوئے کہیں گی کہ پی۔ٹی۔آئی حکومت کی غلط پالیسیوں
اور بزدلانہ حکمت عملی کے سبب بھارت کو مقبوضہ کشمیر ہڑپ کرنے کا حوصلہ
ہوا۔ اس کے بعد ایک قرار داد منظور ہو گی ۔اتفاق رائے کے ساتھ مقبوضہ کشمیر
میں جاری بھارتی مظالم اور کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے اقدام کی مذمت
کی جائے گی اور اجلاس ختم ہو جائے گا۔ ملک کے طول و عرض میں چھوٹے بڑے
سیمینار اور اجتماعات بھی ہوں گے۔ یوم کشمیر سمیت تین چھٹیوں کی وجہ سے
پاکستانیوں کی بڑی تعداد باہمی میل جول، تفریحات اور سیر سپاٹوں پر نکلے
گی۔ شاید ہی کوئی بچہ پوچھے کہ " یوم یکجہتی کشمیر" کیا ہوتا ہے اور شاید
ہی بڑوں میں سے کسی کو خیال آئے کہ وہ اپنے بچوں کو کشمیر کے بارے میں کچھ
بتائیں۔ یوں یہ دن تمام ہو جائے گا۔ اگلے دن ہمارے اخبارات میں بڑی بڑی
سرخیاں لگیں گی کہ پاکستانی قوم نے بھرپور عزم کے ساتھ یک جان ہو کر
کشمیریوں سے یکجہتی کا دن منایا اور بھارت کو دو ٹوک پیغام دے دیا کہ
پاکستان کسی صورت میں کشمیر پر بھارتی قبضے کو تسلیم نہیں کرئے گا۔ اور یہ
بھی کہ ہم اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے۔ کسی نے ہماری طرف میلی آنکھ سے
دیکھا تو اسکی آنکھ پھوڑ دیں گے۔ پھر پوری قوم ، حکمران اور سیاستدان اپنے
اپنے معمولات زندگی میں مصروف ہو جائیں گے۔ یہاں تک کہ 2022 کا 5 فروری آئے
گا اور ہم 32 واں یوم یکجہتی کشمیر منائیں گے۔
کشمیر کا المیہ کوئی معمولی المیہ نہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے ایک کروڑ کے لگ
بھگ مسلمان، عملا ایک بڑے زنداں میں بند ہیں۔ سات لاکھ خونخوار بھارتی فوج
ان کے سروں پہ بیٹھی ہے۔ ایک لاکھ کے قریب افراد بھارتی سفاکی اور درندگی
کا شکار ہو کر شہید ہو چکے ہیں۔ لاکھوں معذور ہو گئے۔ کتنی ہی بیٹیوں کی
عزتیں پامال ہو گئیں۔ بنیادی انسانی حقوق کاکوئی تصور باقی نہیں رہا۔
لاکھوں لوگ بے گھر ہو گئے۔ کشمیر کے کتنے ہی بیٹے جیلوں میں پڑے ہیں۔ ان کے
کاروبار اور رزق روزی کے وسائل تباہ کر دئیے گئے۔ 5 اگست 2019 کو بھارت نے
کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے آرٹیکلز 370 اور35-A ختم کرکے کشمیر کو
باضابطہ بھارتی ریاست بنا لیا۔ معاملہ یہیں پر ختم نہیں ہوا۔ اس بھارتی
اقدام کے خلاف احتجاج اٹھا تو ظلم اور جبر کا ایک اور دور شروع ہو گیا۔ سیل
فون، انٹرنیٹ وغیرہ پر بھی پابندی لگ گئی۔ بھارت نے آئینی تبدیلی کرنے کے
بعد کھلی چھٹی دے دی کہ اب کوئی بھی شخص کشمیر میں زمین، مکان اور دیگر
جائیدادیں خرید سکتا ہے۔ صرف چند ماہ میں چار لاکھ افراد کشمیر میں آکر بس
گئے ہیں۔ یوں فروری 2020 کا دن آیا تو ہم نے بڑی شد و مد سے یوم یکجہتی
منایا تھا لیکن بھارت کے کانوں پر جوں رینگی نہ دنیا کو کچھ خبر ہوئی۔ یوں
لگتا ہے کہ اب یہ روایت ہم بس اپنے آپ کو تسلی یا فریب دینے کیلئے مناتے
ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن بھی مطمین ہو جاتے ہیں کہ ہم نے کشمیریوں کا قرض
چکا دیا۔ سات دہائیوں سے ہم ایک لگا بندھا جملہ کہتے ہیں، جو فارن آفس کے
کسی بابو نے تیار کیا ہو گا ۔۔۔" ہم کشمیریوں کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی
حمایت جاری رکھیں گے" ۔ اخلاقی تو چلیں جو بھی ہے، لیکن سیاسی اور سفارتی
حمایت کہاں ہے اور اس کے اثرات کیوں دکھائی نہیں دے رہے؟ اس کا جواب کسی کے
پاس نہیں۔
یہ کالم لکھنے سے پہلے میں نے اخبارات پر نظر ڈالی۔ ایک خبر کا کچھ حصہ میں
من و عن پیش کر رہی ہوں۔
" مسئلہ کشمیرپر پارلیمان کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس وفاقی وزیر شہر یار
آفریدی کی زیر صدارت ہوا جس میں بریفنگ دیتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود
قریشی نے بتایا کہ وزیر اعظم کی کوششوں اور حکومتی پالیسیوں کے نتیجے میں
مسئلہ کشمیر اجاگر ضرور ہوا ہے تاہم مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔ وزیر خارجہ
نے کہا کہ ہمیں زمینی حقائق ضرور مدنظر رکھنے چاہییں۔ بھارت، پاکستان کے
مقابلے میں کئی گنا بڑی معیشت ہے۔ کون سا ملک ہے جو انڈیا میں سرمایہ کاری
نہیں کر رہا۔ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بھارت کا بین الاقوامی میڈیا پر کنٹرول ہے جس کی
وجہ سے پاکستان اور کشمیریوں کا موقف عالمی سطح تک نہیں پہنچ پا رہا۔"
وزیر خارجہ کے بیان پر تبصرے کی ضرورت نہیں لیکن اتنی بات ضرور سوچنی چاہیے
کہ جب حکومت کے اہم تریں وزیر کا "مائنڈ سیٹ" یہ ہے تو ہم نے کیا کرنا ہے۔
سو اب سب سے بڑی زمینی حقیقت یہی ہے کہ بھارت جو چاہے کرتا رہے، ہم نہ عملا
اس کا ہاتھ روک سکتے ہیں نہ عالمی برادری تک اپنا موقف پہنچا سکتے ہیں۔ اس
سوال کا جواب کوئی نہیں دیتا کہ ہم نے عالمی سطح پر کشمیر کا مقدمہ لڑنے
اور بھارت کو بے نقاب کرنے کے لئے کیا کوششیں کیں؟ کیا وجہ ہے کہ دنیا
ہماری بات نہیں سنتی۔ یہاں تک کہ ہمارے برادر اسلامی ممالک بھی ہمارا ساتھ
دینے کے بجائے، بھارت کی حمایت کرتے ہیں۔
جی چاہتا ہے کہ آج کے دن کے حوالے سے جماعت اسلامی کے مرحوم امیر قاضی حسین
احمد کو بھی ضرور یاد کیا جائے۔ اگر ہم کشمیریوں کے لئے بھی اب صرف دعا ہی
کر سکتے ہیں تو قاضی صاحب کے لئے بھی ضرور دعا کرنی چاہیے کہ اﷲ ان کی روح
پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔ 31 برس پہلے قاضی صاحب نے ہی سب سے پہلے یوم
یکجہتی کشمیر منانے کا خیال اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد نواز
شریف کے سامنے رکھا ۔ انہوں نے وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو سے بات کی
اور یوں پہلی بار 5 فروری 1990 کو یوم یکجہتی کشمیر منایا۔آج تو قاضی حسین
احمد جیسا کوئی مرد قلندر بھی نظر نہیں آتا جو آگے بڑھ کر کہے کہ ظلم و ستم
کی زنجیریں صرف تقریروں سے نہیں کٹتیں۔ ان کے لئے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔
علامہ اقبال نے بھی تو یہی کہا تھا کہ عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کار بے بنیاد
|