بیکری سے کچھ چیزیں لے کر میں باہر نکلا تو وہاں ایک
سوزوکی وین کھڑی تھی جس پر ڈرائی فروٹ لدا تھا اور ایک بندہ اس وین کو دکان
بنائے وہ ڈرائی فروٹ بیچ رہا تھا۔میں ڈرائی فروٹ کا جائزہ لینے لگا کہ اس
میں کیا خریدا جا سکتا ہے۔ اتنے میں ایک بھکاری آیا اور اس نے دکاندار کی
منت کی کہ کچھ ڈرائی فروٹ بھیک کے طور پر اسے دے دے۔دکاندار نے مونگ پھلی
کے چار یا پانچ دانے اس کی طرف بڑھا دئیے۔ بھکاری نے مونگ پھلی لینے سے
انکار کر دیا اور دکاندار کو بڑے مسکین انداز میں درخواست کی کہ مونگ پھلی
کی بجائے اسے پانچ سات دانے چلغوزے کے دے دے۔ دکاندار ہنسا اور اسے چلغوزے
کے دو عدد دانے پیش کر دئیے۔ صرف دو؟ بھکاری نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا۔
دکاندار کچھ غصے میں آ گیا اور بولا،مانگتے بھیک ہواور باتیں ایسی جیسے کسی
نواب کے بیٹے ہو۔ چلغوزے کا ایک دانہ دس روپے کا ہے۔ یہ میں تمہیں بیس روپے
دے رہا تھا۔ دکاندار نے اس کے کھلے ہاتھ سے دونوں چلغوزے اٹھائے اور اس کے
ہاتھ میں ایک دس روپے کا نوٹ پکڑا کر اسے کہا، یہ دس روپے لو اور ڈھونڈو کہ
کہیں سے دس روپے میں مٹھی بھر چلغوزے مل جائیں۔ اب پرے ہٹو اور کسی گاہک کو
آگے آنے دو۔
میں اپنے وزیر اعظم کے کہنے پر کہ گبھرانا نہیں، آج تک بالکل نہیں گبھرایا
تھا۔ارد گرد سوکھی ٹہنیاں دیکھنے کے باوجود میری بہار کی امیدکبھی کم نہ
ہوئی تھی۔ مگر دس روپے کا ایک چلغوزہ سن کر یک دم گبھراہٹ طاری ہو گئی۔
مجھے عمران کے2012 میں کہے الفاظ یاد آ گئے کہ حکمران جب کرپٹ ہوتے ہیں تو
اس کے نتیجے میں عوام کو مہنگائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وزیر اعظم کہتے
ہیں ان کے دور میں حالات بہتر ہو گئے ہیں۔ مہنگائی کم ہو گئی ہے۔ مگر یہ
کیسی بہتری ہے اور کیسی کم مہنگائی ہے کہ فقط ایک چلغوزہ دس روپے کا۔ گبھر
اہٹ میں یہ سمجھ نہیں آیا کہ عمران خان غلط تھا کہ میرے محبوب وزیر اعظم،
مگر میں یہ کہہ نہیں سکتا یہ تو وزیر اعظم کی شان میں گستاخی ہو گی۔ شاید
دکاندار نے بھکاری سے غلط بات کی تھی ،دکاندار کا تعلق اپوزیشن کی جماعتوں
سے بھی ہو سکتا ہے۔ مگر کیا کروں ایمنسٹی نے پاکستان کی کرپشن کی ریٹنگ میں
اضافہ کرکے میری پریشانیوں کو دو چند کر دیا ہے۔ ایمنسٹی کو نہ تو عمران
خان غلط کہتا ہے اور نہ ہی میرا محبوب وزیر اعظم۔
مفکر لوگ بھی عجیب ہوتے ہیں، بڑی بڑی باتیں بڑی آسانی سے کہہ جاتے ہیں۔ ایک
مفکر نے کہا ہے کہ سیاست میں دو ہی بڑے گناہ ہیں، حقیقت پسندی کا فقدان اور
فیصلوں کے نتائج کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار۔موجودہ حکومت بھی انہی دو
خامیوں کا بہترین شاہکار ہے۔ڈھائی سال میں یہ کچھ ڈیلیور نہیں کر سکے ۔
مہنگائی کو کنٹرول کرنے کی باتیں تو بہت ہوتی ہیں مگر یہ لوگ جس طرف رخ
کرتے ہیں کہ کسی چیز کی بڑھتی ہوئی قیمت کو کنٹرول کریں وہ چیز ڈور لگا
دیتی اور اس کی قیمت ان کی ناکام کوشش کے نتیجے میں آسمان سے باتیں کرنے
لگتی ہے۔یہ زمینی حقیقت ہے مگر کوئی حکومتی عہدیدار اسے ماننے کو تیار
نہیں۔بلکہ الٹا یہ کہتے ہوئے کہ مہنگائی میں کمی آئی ہے انہیں کوئی شرم
محسوس نہیں ہوتی۔ دس روپے کا ایک چلغوزہ مہنگائی کی موجودہ صورت حال کا
بہترین عکاس ہے مگر یہ نہیں مانتے۔ یہ حقیقت پسندی کا فقدان ہے۔ اس حکومت
کو عوام کی بے مثال حمایت اور وقت کی کمزور تریں اپوزیشن ملی تھی مگر ان کی
نا اہلیوں اور لگا تار غلط فیصلوں نے اپوزیشن کو اس قدر تقویت بخشی ہے کہ
آج وہ حکومت کے لئے ایک مستقل مسئلہ ہے۔
تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ جو اچھے حکمران آئے انہوں نے دنوں
میں پورے ملک کی کایا پلٹ دی۔ شیر شاہ سوری انتہائی ابتر حالات میں مئی
1540 میں ہندستان کے تخت کا مالک بنا ۔ مئی 1945 میں اپنی وفات تک فقط پانچ
سالوں میں اس نے جو کچھ کیا وہ آج بھی نظر آتا ہے۔ اس کی بنائی ہوئی سڑکیں،
ریونیو کا مکمل نظام سب اسی طرح جاری اور ساری ہے۔رابرٹ منٹگمری جس کے نام
پر منٹگمری شہر آباد ہوا جو آج ساہیوال کے نام سے موسوم ہے، انگریز عہد میں
1859سے1865 تک تقریباً چھ سال پنجاب کا لیفٹیننٹ گورنر رہا۔ اس کی کارکردگی
پنجاب میں درجنوں کالج، نہری نظام ، لاہور امرتسر ریلوے لائن اور دیگر بہت
سی چیزیں کی شکل میں بڑی نمایاں ہیں۔ تاریخ میں ایسی سینکڑوں مثالیں ملتی
ہیں۔ آپ ڈھائی سال گزرنے کے بعد بھی اپنی صفیں بھی درست نہیں کر سکے۔آپ کی
نا اہلیاں اور غلط فیصلوں کے نتائج آج ساری قوم بھگت رہی ہے مگر آپ ماننے
کو تیار نہیں ۔ کہتے ہیں تھوتھا چنا باجے گنا۔ اپوزیشن کا شور مچانا تو بڑا
فطری ہوتاہے ۔ حکومت کے پاس اس کا جواب کارکردگی ہوتا ہے۔آپ کے پاس
کارکردگی نہیں فقط الزامات ہیں۔بہت سے معاملات میں خاموشی حکومت کا بہترین
ہتھیار ہوتا ہے ، یہ خاموشی حکومت کو وقار اور استحکام دیتی ہے مگر اپوزیشن
کے شور کے مقابلے میں حکومت نے مرحوم امان اﷲکے سارے شاگرد بطور مشیر بھرتی
کر لئے ہیں۔ اب حکومت اور اس کے سارے مشیر شور مچانے میں بے مثل ہیں مگر
اپنے ناقص فیصلوں کے نتائج قبول کرنے کو بالکل بھی تیار نہیں۔
سکاٹ لینڈ کے مشہور ماہر اقتصادیات اور اخلاقی مفکر ایڈم سمتھ نے کہا تھا
کہ کسی ریاست کو بدترین حالات سے اعلیٰ ترین خوشحالی تک لانے کے لئے صرف
تین چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے ، پہلی امن،دوسرے آسان ٹیکس اور تیسرا قابل
تحمل انصاف۔ یہ تین چیزیں ہوں تو باقی ہر چیز خود بخود آ جاتی ہے۔موجودہ
دور میں امن کی بات کریں تو نظر آتا ہے کہ صرف لاہور میں روزانہ چوریوں اور
ڈاکو کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔پولیس صرف دس فیصد رپورٹ کرتی ہے ۔ نوے فیصد
لوگوں کو یا توپولیس ٹرخا دیتی ہے یا پھر لوگ پولیس اور کورٹ کچہری کی ذلت
سے بچنے کے لئے رپورٹ درج ہی نہیں کراتے۔ ٹیکسوں کی بات کریں توآسان کا لفظ
ایک مذاق لگتا ہے۔ اس قدر ٹیکس کہ سانس لینا دشوار ہے ہاں سانس لینے پر
ابھی کوئی ٹیکس نہیں۔انصاف کی باتیں تو سب کرتے ہیں مگر یہاں کا نظام انصاف
طبقاتی ہے۔ با اثر افراد اپنی مرضی کا انصاف جب اور جہاں چائیں حاصل کر
لیتے ہیں ۔مگر عوام کے لئے انصاف کا حصول بھی بڑا ذلت آمیز ہے۔ میں عدالتوں
میں بہت سے ایسے لوگوں سے ملا ہوں جو انصاف کے حصول سے اس قدر مایوس ہیں کہ
کھلم کھلا کہتے ہیں کہ انصاف دور ہے اور قبر نزدیک۔ یہ مایوسی کی انتہا ہے۔
موجودہ حکومت جب آئی تھی تو ایسے لوگوں کے لئے امید کی کرن تھی مگر افسوس
عروج حاصل کرنے کی بجائے یہ وقت سے بہت پہلے زوال ہی نہیں خاتمے کی طرف
گامزن ہے۔
|