پی ٹی آئی حکومت اور اپوزیشن میں آنکھ مچولی جاری ہے،
2018ء میں جب پی ٹی آئی کی حکومت اور عمران خان وزیر اعظم بنے تھے تو اس دن
سے ہی اپوزیشن جماعتوں کی قیادت نے کپتان اور اس کی کابینہ کے کھلاڑیوں کو
آڑے ہاتھوں لیا ہوا ہے، بالکل اسی طرح جس طرح کپتان 2015ء سے 2018 کے شروع
تک مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے رہے ہیں، اپوزیشن موجودہ
حکومت کو سلیکٹڈ، دھاندلی زدہ قرار دے کر احتجاج کا راستہ اپنائے ہوئے ہے،
جسے موثر بنانے کیلئے ماضی میں ایک دوسرے کی حریف اور آپس میں دست و گریبان
رہنے والی جماعتوں نے پی ڈی ایم کی صورت میں اتحاد بھی کر لیا اور اپوزیشن
پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے کپتان کی حکومت کو گرانے کیلئے دن رات کوشاں ہے،
اپوزیشن کی جانب سے 31 جنوری تک کپتان اور کابینہ کو استعفے دینے کی ڈیڈ
لائن گزرنے پر کپتان نے اپوزیشن کو کڑی پیشکش کی تھی کہ وہ (اپوزیشن
قائدین) کرپشن کا لوٹا ہوا پیسہ واپس قومی خزانہ میں جمع کرا دیں تو وہ
(کپتان) اگلے دن استعفی دے دیں گے یعنی
"نہ نو من تیل ہو گا اور نہ ہی رادھا ناچے گی"
اپوزیشن کی ڈیڈ لائن گزرنے پر کپتان، کابینہ اور کھلاڑیوں کی جانب سے
اپوزیشن پر کڑی تنقید کی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ اپوزیشن میں دم خم
نہیں رہا، اور اس کا شیرازہ بکھر چکا ہے۔ اپوزیشن کو ضمنی و سینیٹ کے
انتخابات اور اپوزیشن ارکان اسمبلیز کے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے اکٹھے
استعفے دینے کے اعلان پر لیے گئے یو ٹرن کی طرح اپوزیشن اسلام آباد لانگ
مارچ پر بھی یو ٹرن لے گی، حکومتی وزراء ابھی یہ شور کر ہی رہے تھے کہ
اپوزیشن نے مشترکہ اجلاس کے بعد بقول پی ڈی ایم سربراہ مولانا فضل الرحمان
متفقہ طور پر 26 مارچ کو اسلام آباد میں لانگ مارچ کا اعلان کرنے کے ساتھ
یہ بھی کہا گیا ہے کہ اپوزیشن 10 فروری کو محکمہ جات کے سرکاری ملازمین
(ایپکا) کے احتجاج میں بھرپور شرکت کرے گی، اپوزیشن نے ارکان اسمبلیز کے
استعفوں، سندھ کے علاوہ دیگر صوبوں کے وزراء اعلی، کپتان، قومی و صوبائی
اسمبلیوں کے سپیکرز، ڈپٹی سپیکرز کیخلاف عدم اعتماد کے معاملے کو سیکنڈ
آپشن کے طور پر رکھا ہے اور کہا ہے کہ اگر اسلام آباد لانگ مارچ سے حکومت
نہ گرائی جا سکی تو ان ہر دو آپشنز کو مرحلہ وار استعمال کریں گے، اگر
تحریک عدم اعتماد میں کامیاب نہ ہوئے تو پھر اسمبلیوں سے اپوزیشن اراکین کے
استعفے کے آپشن کو استعمال کیا جائے گا، اپوزیشن نے لانگ مارچ کو موثر
بنانے کیلئے مختلف شہروں کے ڈویژنل مقامات پر احتجاجی جلسے اور ریلیاں
نکالنے کے شیڈول کا اعلان کر دیا ہے، اپوزیشن نے 10 فروری کو کلرکوں (
ایپکا ) کے اسلام آباد دھرنے میں شمولیت کا بھی باقاعدہ اعلان کیا ہے، لیکن
اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی کہ سرکاری محکموں کے ملازمین کے لانگ مارچ و
احتجاج میں اپوزیشن کی صرف قیادت شرکت کرے گی یا کارکنان بھی شامل ہونگے۔
اس سے چند روز قبل 2 فروری کو آل ایمپلائز گورنمنٹ فیڈریشن آف پاکستان نے
مرکزی قیادت مرکزی صدر افضل جدون جنرل سیکرٹری خالد جاوید سنگیڑا کی کال پر
ملک گیر احتجاج کیا ہے۔ پنجاب کی صوبائی قیادت صدر ظفر علی خان جنرل
سیکرٹری طاہر علی شاہ کی کال پر پنجاب کے مختلف شہروں ملتان ، ساہیوال
،شیخو پورہ، فیصل آباد ،جھنگ کے علاوہ سرگودھا میں چوہدری پرویز اختر،
پاکپتن میں چیئرمین خدا بخش وٹو صدر محمد عتیق بٹ جنرل سیکرٹری زاہد گوہر
سکھیرا کی قیادت میں احتجاج کیا گیا۔ ایپکا رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وطن عزیز
میں آج سے 20 سال پہلے کلرکوں کے جو حالات تھے اس دور جدید میں بھی مہنگائی
کی وجہ سے ویسے کے ویسے ہی ہیں۔اس طبقے کے ساتھ ہر آنے والی حکومتوں نے
ہمیشہ سوتیلوں جیسا سلوک کیا ہے۔
جان کی امان پاؤں تو اپوزیشن کی جانب سے ملک بھر کے محکموں کے ملازمین کے
دھرنے میں شرکت کا اعلان کیا ہے جو بری بات نہیں کیونکہ ہر دور میں برسر
اقتدار حکومت کیخلاف عوامی احتجاجوں میں اپوزیشن جماعتوں کے نمائندے شرکت
کرتے رہے ہیں، لیکن اپوزیشن کا موجودہ سرکاری ملازمین کے احتجاج اور لانگ
مارچ شرکت کرنا نا صرف تعجب خیز بلکہ مضحکہ خیز لگتاہے کیونکہ سرکاری
ملازمین دو دہائیوں سے ہر دور حکومت کیخلاف چارٹر آف ڈیمانڈ (اپنے مطالبات)
کیلئے احتجاج کرتے چلے آ رہے ہیں، ان میں پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کے گزرے
ادوار بھی شامل ہیں، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی جو کہ پی ڈی ایم کی بڑی
اتحادی جماعتیں ہیں کی قیادت کو چاہئے تھا کہ وہ ان (سرکاری ملازمین) کے
مطالبات اپنے ادوار میں ہونے والے سرکاری ملازمین کے احتجاج کے وقت جسے وہ
اپنے دور حکومت میں غلط اور موجودہ حکومت کے دور میں درست قرار دے رہے ہیں
کو تسلیم کر کے سرخرو ہو جاتے تو نا صرف لاکھوں کی تعداد میں کلرک اور ان
کے خاندان ان سے راضی ہو کر ان کی جماعتوں کو انتخابات میں سپورٹ کرتے تو
آج (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت کو یہ دن نہ دیکھنا پڑتے اور نہ ان
جماعتوں کی قیادت کو چند روز بعد ہونے والے کلرکوں کے احتجاج میں شرکت کی
تکلیف اٹھانا پڑتی۔
سو بات کہاں سے کہاں نکل گئی، بات ہو رہی تھی اپوزیشن کے لانگ مارچ کی تو
اس احتجاج کیلئے 26 مارچ کی تاریخ مقرر کی جا چکی ہے، مگر اپوزیشن نے ابھی
تک یہ واضح نہیں کیا کہ یہ دھرنا پی ٹی آئی کے دھرنے کی طرح طویل مدتی ہو
گا یا ایک روزہ۔
دوسری طرف کپتان اور اس کے کھلاڑیوں نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ اپوزیشن
دھرنا دے یا لانگ مارچ وہ کسی صورت اپوزیشن کی کرپٹ قیادت کو این آر او
نہیں دیں گے اور ان سے لوٹی ہوئی قومی دولت ہر صورت برآمد کر کے قومی خزانہ
میں جمع کروائیں گے، حکومتی ارباب اختیار نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ وہ لانگ
مارچ کے شرکاء کا اسلام آباد میں استقبال کریں گے، حکومت نے اپوزیشن کے
ممکنہ لانگ مارچ کو ثبوتاژ کرنے کیلئے حکمت عملی بھی ترتیب دینا شروع کر دی
ہے، تا ہم یہ وقت بتائے گا کہ حکومت اپوزیشن کے لانگ مارچ کے شرکاء کا
استقبال کس طرح کرتی ہے کیونکہ موجودہ حکومت کے دور میں کسانوں ، ینگ
ڈاکٹرز، اساتذہ، لیڈی ہیلتھ ورکرز، ریڈیو پاکستان کے برطرف ملازمین سمیت
اسلام آباد میں دیگر احتجاج کرنے والوں کا حکومت کی طرف سے استقبال کوئی
قابل رشک نہیں تھا۔ بہرحال یہ بات عیاں ہو چکی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن میں
محاذ آرائی وقت گزرنے کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے جو کسی بھی جمہوری ملک کیلئے
اچھی ثابت نہیں ہوتی۔بڑھتی ہوئی سیاسی کشیدگی کے نتائج جمہوریت اور
سیاستدانوں کیلئے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں؟
|