ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے دوسری اور تیسری دنیا بالخصوص
مسلم دنیا کے خلاف ظلم کی اک لمبی داستا ن ہے، لیکں آخر کیا وجہ ہے امریکہ
پوری دنیا میں ہر وقت جنگوں میں مصروف رہنے کے باوجود، آج بھی سپرپاور کے
طور پر جانا اور پہچاناجاتا ہے، اور آخر ایسی کونسی وجوہات ہیں کہ امریکہ
اور امریکی عوام دن بدن خوشحالی کی نئی منظرلیں تہ کرتے جارہے ہیں۔مسلمانوں
اور دوسری اقوام پر ظلم بربریت بالواسطہ اور بالاواسطہ کروانے کے باوجود آج
بھی ہر بندہ امریکہ کی شہریت حاصل کرنے کا خواہشمند نظر آتا ہے،ایک طرف
امریکہ مردہ باد کے نعرے بھی لگ رہے ہوتے ہیں تو دوسری طرف پاسپورٹ پر
امریکی ویزہ لگوانے کے لئے امریکی سفارتخانوں کے باہر فجر کی نماز سے بہت
پہلے ہی لائنیں لگنی شروع ہوجاتی ہیں۔ آخر ایسی کونسی وجوہات ہیں کہ سات
سمندر پار دنیا کے آخری کونے میں موجود اس ملک نے آج تک پوری دنیا میں اپنی
تھانیداری اور اثرورسوخ قائم و دائم رکھا ہوا ہے۔تو پھر آئیے اک نظر دنیا
کے نام نہاد تھانیدار امریکہ کی طرف کرتے ہیں۔
امریکہ جس کی 50 ریاستیں ہیں جن کو ہم سمجھنے کے لئے آسان زبان میں صوبے
بھی کہ سکتے ہیں ہیں۔ یہ ملک گزشتہ 200 سال سے زائد عرصہ سے اک متحد ملک ہے
اور آج کی تاریخ تک دنیا کی سپر پاورہونے کا اعزاز حاصل کئے ہوئے ہے۔ریاست
ہائے متحدہ امریکہ جسے United States of America کہا جاتا ہے، تقریبا 98
لاکھ مربع کلومیٹر کے رقبے اور 32 کڑور آبادی والا ملک جس نے اپنی آزادی کا
اعلان 4 جولائی 1776 عیسوی میں کیا، اسکا آئین 1789 سے نافذ ہونے کے بعد سے
آج تک یہ آئین بھی قائم دائم ہے، اسکے قانون ساز ادارے کو کانگریس کہا جاتا
ہے جو کہ دو ایوانوں پر مشتمل ہے ایوان زیریں کو House of Representatives
کہا جاتا ہے جبکہ ایوان بالا کو Senate کہا جاتا ہے۔امریکی آئین نے 1789 سے
نافذ ہونے کے بعد سے ہی امریکہ کے اعلی قانون کی حیثیت سے خدمات انجام دی
ہیں۔ یہ دستاویز 1787 میں فلاڈیلفیا کنونشن میں لکھی گئی تھی اور اس کی ایک
سیریز کے ذریعہ توثیق کی گئی تھی۔آئین میں ستائیس بار ترمیم کی گئی ہے
امریکی آئین میں آخری ترمیم 5 مئی 1992 کو کی گئی تھی۔امریکی آئین کو دنیا
کا مختصر ترین آئین بھی کہا جاسکتا ہے، جس کے کل Articles کی تعداد صرف 07
ہے اور یہ آئینی دستاویز صرف چند صفحوں پر مشتمل ہے ۔جسکو پڑھنا اور سمجھنا
انتہائی آسان ہے۔
امریکی آئین کے مطابق حکومت کے تین نظریاتی ستونوں یعنی (Three Branches of
Govt.) کے اختیارات اور ذمہ داریوں کے درمیان ''چیک اور بیلنس'' کا خیال
رکھا گیا ہے : امریکی ریاست پر حکمرانی کے لئے ریاست یا حکومتی ان تین
شاخوں میں ایک Executives (جن کا کام انتظامی امور کو سنبھالنا ہے جن کا
سربراہ امریکی صدر ہے)، دوسرے Legislature (پارلیمنٹ جس کو امریکہ میں
کانگریس کہا جاتا ہے، جس کا کام قانون سازی کرنا ہے) اور تیسرے Judiciary
یعنی عدلیہ اور سپریم کورٹ آف امریکہ کے عدالتی نظام کا سب زیادہ طاقتور
فورم ہے۔ریاست کی ان تینوں حکومتی شاخوں کے درمیاں check & balance کو
پڑکھنے کے لئے اس چھوٹی سی مثال کا سہارہ لیتے ہیں، مثال کے طور پر: اگر
قانون سازی برانچ (کانگریس) قانون بنانے کا اختیار رکھتی ہے اسکے ساتھ ہی
ساتھ امریکی آئین کے تحت امریکی صدر کے ماتحت ایگزیکٹو برانچ کسی بھی قانون
سازی کو ویٹو کر سکتی ہے,صدر کے ذریعہ ججوں کو ملک کی اعلی عدلیہ اتھارٹی،
سپریم کورٹ میں نامزد کیا جاتا ہے، لیکن ان نامزد کردہ ججز کی منظوری
کانگریس سے لی جاتی ہے، اسی طرح سپریم کورٹ کانگریس کے منظور کردہ غیر
آئینی قوانین کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔
امریکی ترقی کا راز امریکیوں کے اپنے آئین کی پاسداری کی وجہ سے ہے، جب ہم
”قانون کی حکمرانی“ یعنی Rule of Law کی بات کرتے ہیں تو وہ اسی صورت میں
ممکن ہے کہ جب ریاست کے ہر فرد کو اپنے آئینی حقوق کے بارے میں جانکاری ہو
اور انکے حصول کے لئے اپنی آوازبھی بلند کرسکتا ہو اور اسکو یہ بھی معلوم
ہو کہ آئین میں درج انکے بنیادی حقوق کی خلاف وزری کی صورت میں کس فورم پر
دستک دینی ہے۔پچھلے دنوں ٹرمپ کے حمایتی افراد نے امریکہ کی پارلیمنٹ کی
عمارت پرحملہ کردیا اور بالکل اسی طرح کی صورتحال پیدا ہوگئی تھی جیسا کہ
پرانے پاکستان میں پاکستان کے سب سے سپریم ادارہ یعنی پارلیمنٹ اور سرکاری
نشریاتی ادارہPTV پر حملہ ہوا تھا اور امریکیوں نے بھی بالکل اپنے پاکستانی
پیٹی بھائیوں کی طرح امریکی کانگریس یعنی کیپٹل ہل پر خوب تماشہ لگایا،
دوسری اور تیسری دنیا کی عوام یہ سمجھ رہی تھی کہ شاید ابھی ابھی بریکنگ
نیوز دیکھنے کو ملے کہ امریکہ کے دفاعی اداروں نے ملک میں ہنگامی حالت کا
نفاذ کرتے ہوئے مارشل لاء لگا دیا ہے اور تمام سیاستدانوں بشمول امریکی
صدرٹرمپ کو بھی گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا ہے، اور ہم
جیسے بہت سے کم عقل افراد یہ بھی سوچ رہے تھے کہ شاید امریکہ جس نے پوری
دنیا میں جمہوریت کا ٹھیکہ لے رکھا ہے اسکے اپنے ملک میں جمہوریت کا بوریا
بسترہ لپیٹ دیا جائے گا اور یہ کہ ٹرمپ سے بائیڈن کو اقتدار کی منتقلی
بالکل بھی نہیں ہو پائے گی، کچھ عقل سے پیدل لوگ یہ بھی سمجھ بیٹھے تھے کہ
شائد امریکہ میں بھی ادھر ہم اور اُدھر تم والی باتیں سننے دیکھنے کو ملیں
گی، مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ٹرمپ کی اپنی پارٹی کے اراکین اسمبلی نے
ٹرمپ کی للکار پر پارلمنٹ پر حملہ کی ناصرف مذمت کی بلکہ امریکی صدرٹرمپ جس
کے اقتدار کے چند دن باقی رہتے تھے اسکے مواخذہ کی کانگریس میں کاروائی
ہوئی جس میں ٹرمپ پارٹی کے حمایتی اراکین پارلمنٹ نے بھی پارلمنٹ پر حملہ
کے لئے اشتعال دلوانے کی وجہ سے ٹرمپ کے خلاف مواخذہ کی کاروائی میں ٹرمپ
کے خلاف ووٹ دیا اور مواخذہ کو کامیاب بنایا۔ آخرکار امریکہ میں پہلے سے طہ
شدہ تاریخ والے دن انتقال اقتداد انتہائی پر امن طریقہ سے ہوا۔کوئی ہنگامہ
نہیں ہوا، ہاں مگرامریکی پارلمنٹ پر حملہ آور ہونے والوں کو اب چن چن کر
گرفتار کیا جارہا ہے اور انکے خلاف قانونی کاروائی شروع کی جارہی ہے۔
امریکہ میں قانون کی حکمرانی کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ دنیا کے طاقتور
ترین شخص یعنی امریکی صدر ٹرمپ نے الیکشن ہارنے کے بعد اشتعال انگیزی کی
اور بہت سے اداروں کو اپنے پیچھے لگانے کی ناکام کوشش کی تو امریکہ کے تمام
ریاستی اداروں بشمول امریکی افواج نے کھل کر امریکی آئین کی پاسداری کے عہد
کو دہرایا، یہاں تک کہ امریکی افواج کے سربراہ کا وہ ویڈیو پیغام دیکھنے
اور سننے کے لائق ہے جس میں انہوں نے یہ کہا ہے وہ اور انکی پوری فورس کسی
بادشاہ، صدر یا حکومتی عہداران کے غیر آئینی حکم ماننے کی پابند نہیں ہے
کیونکہ انہوں نے اور انکی فورسز نے امریکی آئین کی پاسداری کا حلف اُٹھایا
ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر امریکہ کی تمام افواج کے سربراہان کے
دستخط شدہ خط کا بھی بہت چرچہ دیکھنے سننے کو ملا کہ جس میں تمام افواج کے
سربراہان نے امریکی آئین سے اپنی وفاداری کے عہد کو دہرایا۔
مگر دوسری اہم ترین خبریہ دیکھنے کو ملی کہ برما کی افواج نے برما کی
وزیراعظم جس نے حا ل ہی الیکشن جیتا تھا،انکی افواج نے اپنے وزیراعظم کی
جیت کو تسلیم نہیں کیا بلکہ اقتدار پر شب خون مارتے ہوئے قبضہ کرلیا۔ یقینی
طور پر ہم کہ سکتے ہیں کہ دنیا کے ہر اُس ملک نے ترقی کرلی ہے کہ جنہوں نے
ملکی آئین کی پاسداری کی اور جمہوریت کو فروغ دیا۔امریکہ کی پچاس ریاستوں
کو اگر کسی نے ابھی تک جوڑے رکھا ہے تو وہ ہے امریکہ کا آئین اور امریکیوں
کا آئین کی پاسدراری کرنا۔ اسلئے یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ امریکی
یکجہتی اور ترقی کا راز صرف آئین کی پاسداری کی مرہون منت ہے۔جس دن
امریکیوں نے اپنے آئین کی خلاف وزری پر چپ کا روزہ رکھ لیا، سمجھ لیں اسی
دن امریکیوں کے زوال کا وقت شروع ہوجائے گا۔اسلئے امریکہ مردہ باد اسی وقت
ہی ممکن ہوگا جب امریکیوں نے اپنے آئین کو فراموش کرنا شروع کیا۔
نوٹ: یہ تجزیہ، کالم لکھنے کا مقصد امریکی خوشنودی، امریکی ویزہ یا گرین
کارڈ کا حصول بالکل نہیں ہے اور نہ ہی امریکہ کو دنیا کا سب سے بہتر ملک
قرار دینا ہے۔ بلکہ یہ بتانے کی ادنی سی کوشش ہے کہ دنیا کے ہر اُس ملک نے
ترقی کی منزلیں تہ کرلیں جنہوں نے ملکی آئین و قوانین کی پاسداری کی۔امریکہ
کا دوسرے ممالک کیساتھ معمالات کیسے ہیں وہ اک علیحدہ اور لمبی بحث ہے۔
|