وزیر اعظم نریندر مودی نے دیہی عوام اور کسان کو اس بجٹ
کی روح قرار دیا لیکن جیسا کہ مادہ پرستانہ زندگی روحانی ضروریات نظر انداز
ہوجاتی ہیں اسی طرح کا معاملہ اس بارکسا نوں کے ساتھ ہوا۔ حیرت اس بات پر
ہے کہ ایسا اس وقت ہے جب ملک میں دنیا کی سب سے بڑی کسانوں کی تحریک بامِ
عروج پر ہے ۔ ایسے میں جب کہ کسان قرض معافی کی توقع کررہے تھےوزیراعظم نے
بجٹ کے تحت کسانوں کی آمدنی میں اضافہ کی خاطر قرض لینے میں آسانی کا
اعلان فرمادیا۔ وزیراعظم کے سرمایہ دار دوستوں کے لیے تو قرض آمدنی کا
ذریعہ ہے کیونکہ وہ کروڈوں روپئے ڈکار کر دیوالیہ ہونے کا اعلان کردیتے
ہیںاور سرکار ان کے ہزاروں کروڈ معاف بھی کر دیتی ہے لیکن بیچارہ کسان تو
قرض کی عدم ادائیگی پر خودکشی کرلیتا ہے۔ کسانوں کو قرض دینے کی سہولت اس
بات کا اشارہ ہے کہ بجٹ کے بعد وہ بھی قرض لینے پر مجبور ہو گا ؟ اور واپس
نہ کرنے پر پھانسی کے پھندے پر لٹکے گا ؟
بجٹ کے بعد عام طور سے جائزوں یہ بتایا جاتا ہے کہ کس طبقہ کو کیا ملا؟
اعدادو شمار کی روشنی میں دیکھیں تو زرعی شعبے میں ۵ فیصد کا معمولی اضافہ
نظر آتا ہے جو مہنگائی کی نذر ہوجائے گا۔سال 2020-2021میں زرعی شعبے کے
لیے 1.34 لاکھ کروڈ کا تخمینہ لگایا گیا تھا جسے ترمیم کرکےفروری 2020 میں
1.16 لاکھ کروڈ کردیا گیا ۔ اس طرح یہ بجٹ ترمیم شدہ رقم سے 5 فیصد زیادہ
ضرور ہے لیکن ابتدائی تخمینے سے8 فیصد کم ہے ۔ زرعی شعبے میں ایم آئی ایس
؍پی ایس ایس کے تحت صرف 1500 کروڈ رکھے گئے ہیں جو 2019-2020 کے مقابلے 25
فیصد کم ہے ۔ اسی طرح پی ایم آشا کے تحت حکومت صرف 400 کروڈ خرچ کرنا
چاہتی ہے جو 2019- 2020 کے 1500 کروڈ کا تقریباً ایک چوتھائی ہے۔ اس سے
کسانوں کی ساری امیدوں پر پانی پھر گیا ہے۔ پردھان منتری کسان سمانّ کے تحت
کسانوں کو سال میں 6000 روپئے دے کر ان کا احترام کیا جاتا تھا ۔ اس بات کی
توقع تھی کہ کورونا کے سبب معاشی مشکلات کےپیش نظر اس میں اضافہ ہوگا لیکن
ایسا نہیں ہوا اور 2020-2021کے تخمینہ سے موازنہ کیا جائے تو یہ13 فیصد کم
کردیا گیا ہے ۔
کسانوں کے لیے مختص کی جانے والی رقم کو خرچ کرنے میں بھی سرکار کوتاہی
کرتی ہے 2019-2020میں 13640کروڈ زرعی شعبے کے لیے رکھے گئےتھے اس میں صرف
12639 کروڈ ہی خرچ ہوئے باقی ایک ہزار ایک کروڈ یونہی پڑے رہ گئے ۔ زرعی
اصلاحات پر ناراض مظاہرین کےکسان رہنما کرن کمار ویسا کا الزام ہے کہ اس
بجٹ میں کسانوں کی آمدنی بڑھانے یا دیہی علاقوں میں روزگار پیدا کرنے کے
لیے ایک بھی اقدام نہیں ہے۔ ان کے بقول، ''وزیر خزانہ نے ایک مرتبہ بھی
اپنی حکومت کے اس وعدہ کا ذکر نہیں کیا جس کے مطابق سن 2022 تک کسانوں کی
آمدنی دوگنی کی جانی تھی۔‘‘ بی جے پی والے بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ کشمیر
سے دفع 370کا خاتمہ ہمارا وعدہ تھا جس کو ہم نے پورا کیا۔ رام مندر بنانے
کا ہم نے وعدہ کیا تھا اس کو بھی پورا کیا لیکن بھول جاتے ہیں کہ کسانوں کی
آمدنی دوگنی کرنا اور ہرسال دو کروڈ نوجوانوں کو روزگار دلانے کا بھی وعدہ
کیا گیا تھا ۔اس کو بڑی چالاکی سے دیگر مسائل کی آڑ میں بھلا دیا گیا اور
بیچارہ ’اچھے دن ‘ کا وعدہ تو گدھے کے سر سے سینگ کی مانند غائب ہوچکا ہے۔
بجٹ کے اندرتو کسانوں کو کچھ نہیں ملا لیکن اس اجلاس کے دوران ان کی تحریک
سے خوفزدہ حکومت نے اپنے شہریوں کی راہوں پرکیل کانٹے بچھا کرساری دنیا ملک
کا نام روشن کردیا۔ زرعی قوانین کے خلاف مظاہرہ کرنے والے کسانوں کو محصور
کرنے کیلئے سندھو بارڈر کی اہم شاہراہ کے پاس سیمنٹ کے بیریئرس کے درمیان
لوہے کی راڈ لگائی گئیاوربیریکیڈ کی پانچ سے چھ قطاریں کھڑی کردی
گئیں۔دہلی؍ ہریانہ سرحد پر روڈ کے ایک حصے پرپانچ فٹ چوڑی کنکریٹ کی عارضی
دیوار کھڑی کی گئی ۔ سڑکوں پر بڑی بڑی کیلیں گاڑ دی گئیں، خاردار تاروں کی
باڑ لگا دی گئی اور آٹھ سے دس فٹ گہری خندقیں کھود دی گئی ہیں۔کیل ٹریکٹر
کو روکنے اور کانٹے دار تارپیدل چلنے والوں کی رکاوٹ کیلئےنصب کی گئی ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارتیہ کسان یونین کے رہنما راکیش ٹکیٹ کی جذباتی اپیل
کے بعد راجستھان ، اترپردیش اور اتراکھنڈ سے کافی تعداد میں کسان وہاں
پہنچنے سےموجودہ حکومت خوفزدہ ہوگئی ہے ۔سرکار نے گھبرا کر پی اے سی اور آر
اے ایف سمیت بڑی تعداد میں سیکورٹی فورسیز کے اہلکار وہاں تعینات کرکے ڈرون
سے نگرانی شروع کردی مگرکسانوں کی جتھےاس قلعہ بندی اور کیلوں کو روندتے
ہوئے غازی پور پہنچ رہے ہیں ۔
دہلی میں داخل ہونے والے بند راستوں پر پولیس اور نیم فوجی دستوں کی بڑی
تعداد کو تعینات دیکھ کر شرومنی اکالی دل کی رکن پارلیمان اور مودی سرکار
کی سابق وزیرہر سمرجیت کور نے کہا ’’یہاں 3 کلومیٹر تک بندشیں نصب ہیں،
ایسے حالات میں کسانوں کی کیا حالت ہو رہی ہوگی؟ ہمیں بھی روکا جا رہا ہے،
13 سطحی بیریکیڈنگ کی گئی ہے۔ اتنی سکیورٹی تو ہندوستان پاکستان بارڈر پر
بھی نہیں ہے‘‘۔اس بیان میں پاکستان کے ذکرسے بھکتوں پر کیا گذری ہوگی اس کا
اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ افسوس کے غازی پور بارڈر پر کسانوں سے ملاقات
کےلیے جانے والے حزب اختلاف کے رہنماوں کا وفدبھی خالی ہاتھ لوٹنے پر مجبور
کردیا گیا ۔ ارکان پارلیمان کے ساتھ اگر یہ سلوک ہورہا ہے تو عام لوگوں کی
درگت کا اندازہ لگانا بہت آسان ہے۔ اس موقع پرہر سمرت نے کہا، ’’ہم یہاں
کسان تحریک پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے آئے تھے۔ جیل کے اندر بھی قیدیوں
کو کھانا ، پانی اور سونے کی سہولت ہوتی ہے لیکن یہاں کسان اس سے بھی محروم
ہیں ۔ بعض مقامات پر پانی کی سپلائی منقطع اورٹوائلیٹ کی سہولت ختم کردی
گئی ہے ۔ اب یہاں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کی تفصیلاتتمام جماعتیں پیش کریں گی
حالانکہ ہمیں پارلیمنٹ میں بھی اس معاملہ کو اٹھانے کی اجازت نہیں دی جا
رہی ہے۔‘‘
سندھو بارڈر تو دور پرانی دہلی میں لال قلعہ کے سامنےرام لیلا میدان میں
بھی زبردست پولیس فورس تعینات کردی گئی ہے اور بیریکیڈنگ کئی کئی قطاریں
کھڑی کی گئی ہیں تاکہ ٹریکٹرسے آنے والے کسانوں کو آگے جانے سے روکا جا
سکے۔ کچھ مقامات پر لوہے کے بڑے بڑے کانٹے نصب کیے گئے ہیں تاکہ اگر ٹریکٹر
یا گاڑیاں آگے بڑھیں تو انھیں پنکچرکیا جا سکے ۔ دہلی کی سرحدوں پر غیر
معمولی حصار بندی کیعالمی سطح پر مذمت ہو رہی ہے پہلے مشہور ہستیوں نے پھر
امریکی انتظامیہ نے بھی اس پر لب کشائی کی ہے۔ ایوان پارلیمان میں عام آدمی
پارٹی کےرہنما سنجے سنگھ نے اس کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ 76 دنوں سے
احتجاج کر نے والے کسانوں پر پہلے لاٹھی چارج کیا گیا، پھر انہیں غدار،
دہشت گرد اور خالصتانی قرار دیا گیا۔ 11 مرتبہ بات چیت ناکام رہی۔ اب تک
قریب 165 کسانوں جان گنوادی ۔ اب تورحم کرو اور تینوں سیاہ قوانین کو واپس
لو۔ اس درد مندانہ اپیل سے بھی سفاک حکومت کے کانوں پر جوں نہیں رینگی اور
یہ آواز صدا بہ صحرا ثابت ہوئی ۔
اس دگرگوں صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے آل انڈیا کسان مہاسبھا کے جنرل
سکریٹری اتل کمار انجان نے کہا کہ ”مودی حکومت کسانوں کو ان کے آئینی حق سے
محروم کرنے کے لیے جو اقدامات کر رہی ہے اس سے تو بہتر تھا کہ ملک کے اندر
مارشل لا نافذ کر دیتے۔"اس حکومت نے تمام حدیں پار کردی ہیں۔ آزاد بھارت
میں جمہوریت کے تحت لوگوں کو اپنے حق اور انصاف کی لڑائی کے لیے آئینی حقوق
حاصل ہیں۔انجان کے مطابق مودی حکومت کی پریشانییہ ہے کہ پچھلے۶ برسوں کے
دوران اس نے ہندو مسلمان میں تفرقہ پیدا کرنے کی جو کوشش کی تھی، کسان
تحریک نے اس بیانیے کو توڑ ڈالا ہے۔ اس کے بعد ہندو اور سکھوں کے درمیان
منافرت پیدا کرنے کیسعی میں نا کام سرکار اب فسطائیت پر اتر آئی ہے۔انجان
سوال کرتے ہیں اترپردیش کے 76 اضلاع میں گزشتہ تقریباً دو برس سے امتناعی
احکامات نافذ ہیں۔ کیا کہیں اتنے دنوں تک امتناعی احکامات نافذ کیے جاتے
ہیں؟ کہاں ہے قانون؟کہاں ہیں عدالتیں؟ کہاں ہے سپریم کورٹ؟" انجان بھول گئے
کہ وادیٔ کشمیر بھی18مہینے سے اسی صورتحال سے دوچار ہےلیکن ہندو رائے
دہندگان کی ناراضگی کے خوف نے انہیں اس کے خلاف آواز اٹھانے کی اجازت نہیں
دی۔
دہلی کی سرحدوں پر لگائے گئے سخت پہرے پر اتول کمار انجان کا کہنا ہے کہ
حکومت ملک کے اندر ہی لائن آف کنٹرول (ایل او سی) بنانا چاہتی ہے۔ اس طرح
کی دیواراگر پاکستان اور چین کی سرحد پر ہوتی تو شاید ملک کی حفاظت زیادہ
بہتر طریقے سے ہوپاتیاس طرح ممکن ہے ملک کے اندر نفرت بھی کم ہوتی۔ انہوں
نے یہ بھی کہا کہ اس ملک کے کسان کانٹے دار تاروں اور خندوقوں کی پرواہ
نہیں کرتے۔ اگر حکومت زیادہ پریشان کرے گی تو کسان دہلی میں چاروں طرف
اکٹھا ہو جائیں گے اور یہ کام بہت جلد ہونے والا ہے۔اس کا پہلا قدم 6 فروری
کا چکہ جام ہے۔ اس سلسلے میں کسان لیڈر راکیش ٹکیت نے کہا ہے کہ اُس دن چکہ
جام میں پھنسے لوگوں کو کسان کھانا کھلائیں گے، پانی پلائیں گے اور زرعی
قوانین کی حقیقت سے واقف کرائیں گے۔یہ حیرت انگیز نظارہ ملک کے عوام دیکھ
رہے ہیں کہ ایک طرف حکومت کسانوں کا کھانا پانی بند کررہی ہے اور دوسری
جانب کسان پریشان حال لوگوں کو کھلا پلا رہے ہیں ۔ اب اپنے حقیقی دوست اور
دشمن کی پہچان کرنے کا وقت آگیا ہے ۔
(۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰جاری)
|