کرونا اورپاکستانی سیاست

کرونا وائرس پاکستان میں کیسے پھیلا؟ اور کیوں ابھی تک اس کے بڑھتے ہوئے کیسز کے روک تھام کے لئےحکومت کی جانب سے اہم فیصلے نہیں کئے جا رہے ہیں ؟ ایسے بہت سے سوالات پاکستانی عوام کے ذہنوں میں ہیں جن پر سوشل میڈیا کے مختلف سائٹس، ٹوئٹر، فیسبک وٖغیرہ پر بحث کیا جاتا ہے اور عوام اپنی رائے بھی اس وباء کے روک تھام کے حوالے سے دیتی رہی ہے۔

اس وائرس سے ہر طبقہ چاہے وہ امیر،غریب، خاص، عام، سب متا ثر ہورہے ہیں لیکن ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ آگے چل کر اس وباء کو کنٹرول کیا جائیگا یا یہ اورخطرناک بن کر اورمعصوم زندگیاں نگلےگی کیونکہ ابھی تک پاکستانی حکومت کی طرف سے کوئی بھی سنجیدہ ایکشن اس وباء کے روک تھام کے لئے نہیں لیا جا چکا ہے۔

ایک طرف پوری دنیا میں اس وباء کے روک تھام کیلۓ نئے منصوبے بنا ئے جا رہے ہیں اور دوسری طرف پاکستان میں سیاستدان بجاے عوام کی جان کی حفاظت کرنے کے ایک دوسرے کو الزام تراشی اور تنقید کرنے میں مصروف ہیں۔

حکومت ملک بھر میں لوک ڈاؤن کرتی رہی ہےلیکن لوک ڈاؤن پہلے بھی صرف نام کے لئے ہی تھے اور اب بھی اس پر کوئی خاص دھیان نہیں گیا لیکن ہمارے حکمرانوں کا یہی فلسفہ ہے کہ اصل حل ہی لاک ڈاؤن ہے-

وزیر آعظم عمران خان صاحب بھی اپنی تمام خطاب میں یہی فرما تے رہے ہیں کہ اس وباء کو کنٹرول کرنے کا واحد حل لوک ڈاؤن کرنا ہے جسکی مدد سے ہم اس وائرس کو بڑھنے سے روک سکتے ہیں -لیکن حقیقی معنوں میں ان تمام لوک ڈاؤن میں حکومت کی کو خاص سنجیدگی نظر نہیں آئی۔

ملک کے بازاروں اور مارکیٹوں میں عوام کی بھیڑھ اور حکومت مخالف پارٹیوں کی ریلیوں اور جلسوں سے تو ایسے لگتا ہے کہ کرونا نام کی کوئی بیماری پاکستان میں ہے ہی نہیں کیونکہ نا تو سیاستدان اور ناہی عوام اسکو سنجیدگی سے لے رہی ہے۔

تماشہ تو یہ ہے کہ حکومت مخالف پارٹیاں سیاست کرنےکو تیار نہیں اور حکومت کے خلاف ملک بھر میں اس وباء کی موجودگی میں جلسوں میں مصروف ہیں اور حکومت کرسی جانے کے خوف سے خاموش تماشہ ہی دیکھ رہی ہے بجائے اس وباء کے دور میں ان جلوس کو روکنے اور عوام کی جان کی حفاظت کرنے کیلۓ سخت فیصلہ کریں۔

پاکستان میں کرونا عوام کیلۓ مصیبت اور عذاب اور حکمرانوں کے لۓ غنیمت بن گئ ہے۔ وجہ یہ ہیکہ حکومت کو اس وبا کی بنا پر تباہ شدہ معیشت کے لیے بہانہ مل گیا ہے کیونکہ پہلے معیشت کی تباہی کے لیے حکومتی بلنڈرز کا ذکر ہوتا تھا تواب کرونا کو سہارا بنایا گیا ہےاور دوسری طرف بیچاری پاکستانی غریب عوام جو بمشکل اپنے بچوں کے لۓ دو وقت کی روٹی کما لیتے اب حکومت نے بہت سو کو بیروزگار کردیا ہے۔

اس وبا کا پاکستان میں آنے کے بعد بلاول بھٹو زرداری نے اس حوالے سے پہلی دفعہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ" یہ وقت سیاست کرنے کا نہیں بلکہ اس وبا سے لڑنے اور اس مشکل وقت میں وزیراعظم کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کا ہے"-

مگر پچھلے کچھ دنوں سے وفاقی وزراء پریس کانفرنس کر کے حکومت سندھ پر خراب گورننس اور کرپشن کا الزام لگائے پھر رہے ہیں جبکہ یہ وقت اس وبا سے لڑنے اور اسے مل کر ختم کرنے کا ہے لیکن بظاہر ہمیں ایسا نظر آرہا ہے کہ وفاقی وزرا وائرس سے نہیں بلکہ سندھ حکومت سے لڑنے میں مصروف عمل ہیں-

منگل کو جو وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا تھا اس میں بھی وزیراعظم عمران خان نے ان دو وفاقی وزراء کی حوصلہ افزائی بھی کی جنہوں نے حکومت سندھ پر تنقید بازی کی تھی -جبکہ ہونا تو یہی چاہیے تھا کہ ان دونوں وفاقی وزراء کی حوصلہ شکنی کی جاتی- پر، افسوس کے ساتھ یہی کہنا پڑ رہا ہے کہ ' یہی ہمارے ملک کی سیاست ہے-----------'

پاکستانی ٹی وی چینلز بھی صرف بات سیاست کی ہی کرتے ہیں جب کہ اس وبا کے دور میں انکی اولین فرائض میں اس وبا کا خوف عوام کے دلوں میں ڈالنا بھی ہے مگر ہمارے ٹی وی چینلز سیاستدانوں کے بیانات کو ہوا دینے میں لگے رہے ہوتے ہیں-

الیکٹرونک میڈیا کی جنگ بھی کرونا سے نہیں بلکہ سیاست سے لڑی جا رہی ہے-

حکومت کا نعرہ ہے کہ کرونا سے ڈرنا نہیں میڈیا اور اپوزیشن سے لڑنا ہے اپوزیشن کا نعرہ ہے کہ جان بچا کر کسی طرح اپنے خلاف کیسز کو ختم کرنا ہے ،سرمایہ داروں کا نعرہ ہے کہ کرونا سے ڈرنا نہیں بس اپنی جیبوں کو بھرتے رہنا ہے اور ر ہی بیچاری مجبور عوام جس کی فریاد یہی ہے کہ ہمیں تو بس مرنا ہی مرنا ہے---

اس مشکل دور میں سیاست سیاست کھیلنے کے بجائے وبا کے خاتمے کے لیے ہر ایک کو ایک دوسرے کا ساتھ دینا چاہےاور اس وبا سے کس طرح بچا جاسکے ؟ اس کا کیا حل ہے؟ایک مشترکہ فیصلہ کرنا چاہے۔ یہ وبا کوئی سیاسی کھیل نہیں کہ اس کا فیصلہ صرف سیاستدان نہیں بلکہ طبی ماہرین کی باہمی مشاورت سے کرونا وائرس کے خاتمے کے لیے پالیسیاں بنانی ہونگی۔
 

Shahida
About the Author: Shahida Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.