شیخ شرف الدین سعدی ؒ ایک حکایت
میں لکھتے ہیں کہ ایک عالم و فاضل استاد سے ایک شہزاد بھی تعلیم پاتا تھا
استاد دوسرے طلباءکی نسبت شہزاد ے پر بہت سختی کرتا تھا۔ ایک دن شہزاد ے نے
تنگ آکر باپ کے پاس شکایت کی اور جسم سے لباس اتار کر استاد کی مار کے
نشانات دکھائے ۔ بادشاہ کو سخت غصہ آیا اور اس نے استاد کو بلا کر پوچھا کہ
تو دوسرے شاگردوں پر اتنی سختی کیوں نہیں کرتا جتنی میرے فرزند پر ۔ استاد
نے جواب دیا کہ شہزادے نے بڑے ہو کر بہت بڑی ذمہ داری اٹھانی ہے اس لئے
دوسرے لوگوں کی نسبت اسے زیادہ عاقل اور قابل ہونا چاہیے ۔ بادشاہ کے ہاتھ
اور زبان سے جو حرکت ہوتی ہے اس پر دنیا کی نظرہوتی ہے اور عوام میں اس کا
چرچا ہوتا ہے اس کے برعکس عام لوگوں کے قول اور فعل کی چنداں اہمیت نہیں
ہوتی ہے یہی سبب ہے کہ میں شہزادے کو تعلیم دینے اور اس کے اخلاق سنوارنے
میں امتیازی سلوک کرتا ہوں اگر ایک درویش میں سو عیب ہوں اس کے ساتھی سو
میں سے ایک کو بھی نہیں جانتے ۔ لیکن اگر بادشاہ سے ایک ناپسندیدہ فعل بھی
سرزد ہوتا ہے تو اس کا چرچا ایک ملک سے دوسرے ملک تک ہو جاتا ہے ۔ بادشاہ
کو استاد کا جواب بہت پسند آیا اسے انعام و اکرام سے سرفراز کیا اور اس کا
منصب بڑھا دیا۔۔۔
قارئین! اگر دیکھا جائے تو کسی بھی ملک کے حکمران اس ملک کے رہنے والے
لوگوں کی نمائندگی کے ساتھ ساتھ اقوام عالم میں اس قوم کے اخلاق ، سیرت ،
معاشرت سے لیکر ہر چیز کی نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں جیسے حکمران ہوتے ہیں
انہیں دیکھ کر اندازہ لگایا جاتا ہے کہ وہ قوم کیسی ہو گی بد قسمتی سے قیام
پاکستان اور آزادی کے بیس کیمپ آزاد کشمیر کے دنیا کے نقشے پر ظاہر ہونے سے
لیکر اب تک ہم نے وہ قیادت اپنے اوپر مسلط دیکھی ہے جو کسی بھی طور پر
ہماری یا ہماری قوم کی نمائندگی نہیں کرتی یہ لوگ جاگیردار ، سرمایہ دار ،
صنعت کار ، رسہ گیر ، اٹھائی گیر اور ناجانے کیا کیا ہیں۔ لیکن یہ لوگ قوم
کے نمائندے نہیں ہیں ۔اشرافیہ کلاس سے تعلق رکھنے والے یہ لوگ وہی ہیں کہ
جو انگریزوں کے غلام تھے اور انگریز جابرانہ نظام حکومت کو قائم رکھنے
کےلئے اس اشرافیہ کلاس کے آباﺅ اجداد نے مسلمانوں کے ساتھ غداری بھی کی اور
انہیں ظلم و ستم کا نشانہ بنوانے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔ یہ ایلیٹ
کلاس صرف اور صرف اپنے مفادات کی نگہبانی کےلئے پہلے بھی لاکھوں انسانوں کو
ظلم کی چکی میں پسوا چکی ہے اور دیکھا جائے توآج ان کی تیسری نسل ایچی سن
سے لیکر آکسفورڈ تک بڑے بڑے اداروں میں حکمرانی کے آداب سیکھتی ہے اور یہ
آداب سیکھنے کے بعد اٹھارہ کروڑ انسانوں پر یہ لوگ آٹو میٹک طریقہ سے
حکمران بن کر نازل ہو جاتے ہیں یہ تمام صورتحال جو ہم نے بیان کی وہ
پاکستان کے چاروں صوبوں ، پنجاب ، سندھ ، بلوچستان ، خیبرپختونخواہ میں
آسانی سے دیکھی جا سکتی ہے اور اس دورِغلام کو ختم کرنے کےلئے ہی آج ایک
انقلاب کی آواز پورے پاکستان میں گونج رہی ہے اب یہ انقلاب عمران خان کی
تحریک انصاف کی شکل میں سامنے آتا ہے یا میاں محمد نوازشریف اپنی سادگی سے
نکل کر اس کی قیادت کرتے ہیں اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرےگا ۔ یہاں ہمارے
آج کے موضوع کا تعلق آزاد کشمیر میں 26جون کو ہونے والے عام انتخابات کے
ساتھ ہے آزاد کشمیر اگرچہ پاکستان سے مختلف زمینی صورتحال رکھتا ہے اور
یہاں پر بظاہر انگریزوں کے نسل در نسل غلام تو دکھائی نہیں دیتے لیکن عقلی
و فکری اعتبار سے بد قسمتی سے یہاں بھی اغیار کی ذہنی غلامی پائی جاتی ہے
لیکن پھر بھی صورتحال پاکستان سے بدرجہا بہتر ہے ۔ اس وقت تین بڑی سیاسی
قوتیں پاکستان مسلم لیگ ن ، پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم کانفرنس تخت کشمیر
پر براجمان ہونے کےلئے سیاسی میدان میں کشتی کر رہی ہےں اور بدقسمتی سے
اقتدار کی اس جنگ میں غلط صحیح ہر طرح کے حربے بھی استعمال کیے جا رہے ہیں
اور برادری ازم سے لیکر علاقائی نفرتوں تک ہر نعرے کو جیت کےلئے استعمال
کیا جا رہا ہے اور عوام کی یہ صورتحال ہے کہ وہ غربت ، بے روزگاری ، بد
حالی اور ناجانے کس کس مصیبت میں مبتلا غالب کی زبان میں یہ کہتے دکھائی
دیتے ہیں۔
حیراں ہوں ، دل کو روﺅں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
چھوڑا نہ رشک نے کہ ترے گھر کا نام لوں
ہر اک سے پوچھتا ہوں کہ جاﺅں کدھر کو میں
قارئین اس وقت پاکستان پیپلزپارٹی میں بیرسٹر سلطان محمود چوہدری ، چوہدری
عبدالمجید ، چوہدری یاسین ، لطیف اکبر، قمرالزمان خان اور سردار یعقوب خان
شامل ہیں یہ تمام معززین پہلے بھی آزاد کشمیر کی سیاست میں ایک انتہائی
نمایاں مقام رکھتے ہیں اور آئندہ بھی یہ لوگ وزیراعظم بنیں یا نہ بنیں ان
کی سیاسی اہمیت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا ۔ لیکن اگر آئندہ آنے والے
تین سالوں کے دوران مسئلہ کشمیر کے حل کے سلسلہ میں بین الاقوامی ڈائیلاگ
کے پس منظر میں دیکھا جائے توسابق وزیراعظم آزاد کشمیر بیرسٹر سلطان محمود
چوہدری اس وقت ہاٹ فیورٹ ہیں ۔۔۔
قارئین ! اسی طریقہ سے اگر ہم پاکستان مسلم لیگ ن کی طرف دیکھتے ہیں تو
سالار جمہوریت سردار سکندر حیات خان ، راجہ فاروق حیدر خان ، شاہ غلام قادر
اس وقت اہم ترین زعماءمیں شامل ہوتے ہیں اور یہی تین لوگ الیکشن جیتنے کی
صورت میں صدارت یا وزارت عظمیٰ کےلئے سامنے آسکتے ہیں ۔ کشمیر کیس کے پس
منظر میں سردار سکندر حیات خان مضبوط ترین امیدوار ہیں ۔
اس طرح اگر ہم موجودہ حکمران جماعت مسلم کانفرنس کی طرف دیکھتے ہیں تو عجیب
منظر دکھائی دیتا ہے کہ موجودہ صدر جماعت و وزیراعظم آزاد کشمیر سردار عتیق
احمد خان کے علاوہ ایک بھی ایسی شخصیت نہیں ہے کہ الیکشن جیتنے یا مخلوط
حکومت بننے کی صورت میں صدارت یا وزارت عظمیٰ کےلئے کوالیفائی کر سکے ۔بقول
شاعر
کر گیا سر مست مجھ کو ، ٹوٹ کر میرا سبو
مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان کے صاحبزادے سردار عتیق احمد خان کے ساتھ
شائد ایسا ہی کچھ ہوا ہے لیکن اب وہ بہت محتاط دکھائی دے رہے ہیں اور امید
ہے کہ آئندہ وہ ایسی سیاسی غلطیاں نہیں کریں گے کہ جو سواداعظم جماعت کو اس
آزمائش میں دوبارہ دھکیلیں ۔۔۔
دیکھئے 26جون 2011کے بعد آنے والی سحر کیا پیغام لیکر آتی ہے کیا اپنے
مفادات کے غلام ہمارے آقا بنےں گے یا ہمارے حقوق کا تحفظ کرنے والی
دیانتدار قیادت تخت کشمیر پر براجمان ہوتی ہے ۔۔۔۔؟
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
ایک صاحب نے محفل میں شدید بوریت میں مبتلا ایک دوست سے پوچھا ۔
”کیا تمہیں کسی عورت کو دیکھ کر یہ خواہش ہوتی ہے کہ تمہاری شادی نہ ہوئی
ہوتی ۔؟“
دوست نے فی الفور جواب دیا۔
”بالکل ہوتی ہے اپنی بیوی کو دیکھ کر “
قارئین ! اللہ کرے کہ یہ انتخابات ایسے ہوں کہ ہمیں دوبارہ ایسے ہی
انتخابات کےلئے دعا کرنی پڑے ۔۔۔ |