ترکی اسلامی خلافت کی راہ پر

اسرائیل امریکہ اور انکے کارندے یورپی حکمرانوں کی نظریں ترک الیکشن پر جمی ہوئی تھیں۔ساروں کی تمناؤں کا ایجنڈہ یک نکاتی تھا کہ طیب اردگان کی پارٹی شکست سے دوچار ہو مگر ترک قوم کی عظمت کو سلام کہ انہوں نے اردگان کو جیت کی ہیٹرک کا تابناک تحفہ اور عقیدت و افتخار عطا کیا۔طیب اردگان کی جسٹس پارٹی نے مسلسل تیسری بار فتح کا رکارڈ قائم کردیا۔ طیب اردگان کی جیت ترک قوم کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ کے لئے نیک بخت اور نیک شگون ہے۔طیب اردگان نے دنیا کے ہر فورم پر فلسطینیوں اور محکوم اقوام کے علاوہ عالم اسلام کا مقدمہ جوش و خروش کے ساتھ لڑا۔ سامراج چاہے کوئی ہو امریکہ یا برطانیہ فرانس ہو یا یورپی یونین کا کوئی ملک طیب اردگان نے انہیں کھری کھری سنانے اور کلمہ حق بلند کرنے سے ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔ ترکی کے ماضی کے جھروکوں میں دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ وہاں نہ تو کوئی سیاسی جماعت تیسری مرتبہ حکمرانی کا تاج پہن سکی اور نہ ہی کوئی سیاسی لیڈریا جرنیل وزارت عظمی کے تخت پر تیسری مرتبہ براجمان رہا ہے۔ ترک سرکار نے یورپی یونین میں شمولیت کے لئے کئی کڑوے گھونٹ پئے۔ ایک طرف ترکش مسلمانوں نے مغربی تہذیب کو اپنایا تو دوسری طرف لبرل ازم کی آڑ میں درجنوں اسلامک روایات کا تیاپانچہ کیا گیا۔یورپ کی پراگندہ ثقافت مشرقی تہذیب کو نگل گئی مگر یورپی یونین نے اپنی شرائط منوانے کے باوجود متعصبانہ رویوں کا ثبوت دیا۔ مغرب کے بغض معاویہ نے ترکی کی شمولیت کو ناممکن بنادیا۔ترک قوم کے سروں سے یونین کی رکنیت کا بھوت اڑ گیا اور وہ دوبارہ دین حق کی جانب راغب ہوئے جسکا اندازہ طیب اردگان کی تیسری فتح سے لگایا جاسکتا ہے۔طیب اردگان کٹر مسلمان اور نمازی ہے۔ شراب نوشی سے بہت دور ہے اسکی بیٹیاں سر پر سکارف اوڑھتی ہیں۔1990 کی دہائی میں ترک شہر دوحصوں میں تقسیم تھے۔ایک حصے میں درویش اور شرفا رہائش پزیر تھے۔ دوسرا حصہ فحاشی عریانی ڈانس کلب قحبہ خانوں اور شراب خانوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔پولیس کی سرپرستی میں ایسے کالے دھندے زوروں پر تھے۔استنبول شہر میں منشیات فروشی اور جسم فروشی کھلے عام تھی۔کلبوں میں برہنہ ڈانس جاری رہتے۔افیون چرس اور سفید موت کے کاروبار زوروں پر تھے۔ترکی انسانی سمگلنگ کی سب سے بڑی منڈی تھی۔ ترکوں کو ایشیا کے مرد بیمار کا لقب حاصل تھا۔1996 میں اسلام پسند نجم الدین اربکان ترکی کے وزیراعظم بنے تو افواج اور لبرل طبقوں میں صف ماتم بچھ گیا۔اربکان ترکی کو دوبارہ اسلامی تشخص کی طرف لے جانے کی کوشش کی۔استنبول کو اخلاقی گراوٹوں جرائم سے پاک کرنے کی خاطر اربکان نے طیب اردگان کو استنبول کا مئیر بنادیا۔اردگان نے عزم جنون سے نہ صرف استنبول کو جرائم فحاشی تخریب کاری سے پاک کردیا بلکہ انکی مساعی جلیلہ سے شہر کے تمام مسائل حل ہوگئے۔ استنبول کے حسن کی تراش خراش سے شہر کی ہیت بدل گئی ۔پانی بجلی کے ناکارہ نظام کو ٹھیک کردیا گیا۔ شہر کی خوبصورتی پر اتنی توجہ دی گئی کہ دنیا بھر کے سیاہ استنبول کی طرف لپکے۔استنبول کی ریکارڈ ساز کامیابی کے بعد ہی اردگان نے2001 میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ قائم کی جو دیکھتے ہی دیکھتے عوام کی مقبول ترین جماعت بن گئی۔اردگان نے نوزائیدہ جماعت کے ساتھ2002 کا الیکشن لڑا اور وہ34٪ ووٹوں کے ساتھ ملک کے سربراہ بن گئے۔استنبول والے کے لئیے اور اصلاحات پورے ترکی میں پھیل گئیں۔2007 میں انہی اصلاحات کے کارن وہ 47٪ ووٹوں کے ساتھ دوسری بار منتری بن گئے۔اسکی معاشی پالیسیوں نے عوام کو معاشی ثمرات نصیب ہوئے۔ وہ معاشی ترقی کے ٹارگٹ کو9 فیصد تک لے گئے جو چین کے بعد دنیا کے پہلے 20 ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں دوسری پوزیشن پر ہے۔ اردگان کوimf کے23.5 بلین ڈالر کے غیر ملکی قرضے ورثے میں ملے جو2010 تک 6.1 بلین ڈالر رہ گئے۔ طیب اردگان نے اعلان کیا کہ ترک قوم کی گردن میںimf کے شکنجے سے ازاد کروادیا گیا ہے کیونکہ ترکی اب ائی ایم ایف سے قرض نہیں لے گا۔ اردگان نے اعلان کیا کہimf کو6.1 بلین ڈالر کی رقم 2013 میں ادا کرکے بری الزمہ ہوجائیں گے۔آمدہ اطلاعات کی رو سے اردگان80 صوبوں میں سے66 میں بازی لئے گئے۔ قومی اسمبلی کی550 نشتوں میں سے327 اس کے حصے آئیں۔طیب اردگان کا سیاسی وژن امت مسلمہ کے حکمرانوں کے لئے خضر راہ بن سکتا ہے۔ایک اور نقطہ جو اردگان کی کامیابیوں میں دیکھا جاسکتا ہے کہ اگر حکمرانوں کی کارکردگی عمدہ ہو تو زندہ قومیں انہی حاکموں کو تین تین مرتبہ مسند اقتدار پر بٹھا سکتے ہیں۔کیا پاکستان کی موجودہ قیادت طیب اردگان کی سیاسی و معاشی اصلاحات کی پیروی کرسکتی ہے؟ طیب اردگان امت مسلمہ کے جری قائد بن چکے ہیں۔اسلامی ریاستیںاردگان کوOIC ایسی بانجھ تنظیم کی باگ ڈور سونپ دیں تو اقوام مسلم کو سامراج کی غلامی سے چھٹکارہ مل سکتا ہے۔اس امر میں کوئی شک نہیں کہ اقوام مسلم کو بھٹو اور شاہ فیصل ایسا عظیم و انیق میسر آچکا ہے۔
Rauf Amir Papa Beryar
About the Author: Rauf Amir Papa Beryar Read More Articles by Rauf Amir Papa Beryar: 204 Articles with 129164 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.