ایک اور خالصتان تحریک تو نہیں بننے جارہا

17 ستمبر 2020 کو بھارت کی ایوان زیریں اور 20 ستمبر کو ایوان بالا سے حکومتی جماعت نے اپوزیشن کی طرف سے سخت تنقید کے باوجود انڈین زرعی ایکٹ 2020 کے تین بل پاس کئے ، یہ بل پاس کرنے ہی تھیں کہ بھارت کی کسانوں میں مایوسی کے کہرام مچ گیا اور کسانوں نے 26 نومبر کو ریاست ہریانہ اور پنجاب میں احتجاج شروع کیا اور احتجاج کی یہ آگ رفتہ رفتہ پھیل رہا تھا اور کچھ دنوں میں مظاہرین کی تعداد 2 سے 3 لاکھ ہوگئی اور معاملہ اتنا شدید ہوگیا کہ بھارت کے سپریم کورٹ کو اس ایکٹ پر سٹے آرڈر دینا پڑا اور بھارتی حکومت نے بھی کسانوں سے 9 مرتبہ ٹیبل ٹاک کی کوشش کی اور 18 مہینوں تک اس قانون کو معطل کرنے کا وعدہ کیا مگر کسانوں کی طرف سے ایک ہی مطالبہ تھا کہ احتجاج تب تک رہے گا جب تک اس قانون کو بلکل ختم نہیں کیا جاتا.

بہر حال اب آتے ہے کہ ان تین زرعی قوانین سے کسانوں کو کیا تحفظات ہے
کسانوں کو خوف ہے کہ منڈی کے نظام کو مجازی طور پر ختم کرنے سے انہیں اپنی فصلوں کی یقینی قیمت نہیں مل پائے گی اور آرتھیوں یعنی کمیشن کے ایجنٹ جو ان کیلئے قرض لیتے ہے ان کا کاروبار ختم ہو جائے گا اس کے علاؤہ کسان یونین کا کہنا ہے کہ مرکز میں نافذ کردہ حالیہ قوانین کم سے کم سپورٹ فرائس ایم ایس پی نظام کو ختم کردیں گے اور وقت گزرنے کے ساتھ بڑے کارپوریٹ ہاؤس شرائط کا پابند ہوجائیں گے اور کسان اپنے فصلوں کو کم وصول کریں گے ۔۔ کسانوں کا یہ بھی حیال ہے کہ بھارت کے کسان پہلے سے بھی اتنی مشکلات کا شکار ہے کہ جس کا اندازہ ہم اس سے لگا سکتے ہیں کہ 1995 سے 2015 تک 296438 کسانوں نے مسائل سے مایوس ہوکر خودکشیاں کی ہے 2019 میں بھی کاشتکاری کے شعبے میں شامل 10281 افراد نے اپنی جانیں لی ہے اب بجائے اس کے کہ حکومت کسانوں کی دل جوئی کریں الٹا کسانوں کی پیٹ میں چھرا گھونپ دیا ہے اور کسانوں کا یہ بھی شبہ ہے کہ اگر ان پر یہ قوانین بھی لاگو ہوگئے تو ان کے مسائل میں اور اضافہ ہوگا اور یہ کسانوں کی معاشی قتل کے مترادف تصور ہوگا مگر باوجود اس کے مودی سرکار اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہ آئیں اور کسانوں نے جب مجبور ہوکر "دلی چلو مارچ" شروع کیا تو حکومت نے مظاہرین کے خلاف سخت آپریشن کیا جس میں 60 سے زاید مظاہرین جابحق ہوگئے اور مودی نے احتجاج کو بیرونی سازش قرار دیا۔۔ اور جب بھارتی وزیراعظم نے یہ غیر زمہ دار بیان دیا تو خالات مزید سنگین ہوگئے یہاں تک کہ کسانوں کے حق میں 14 ملین ٹرک ڈرائیور بھی نکل آئیں اور مظاہرین نے 12 دسمبر کو ہریانہ ٹول پلازہ پر قبضہ کرتے ہوئے گاڑیوں کی فری نکل و خرکت کی اجازت دی جس سے خالات بلکل بگڑ گئے اور بھارت ایک نئی اندرونی انتشار کا شکار ہوگیا مگر پھر بھی مودی سرکار اپنی غلطی تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور احتجاج سے متعلق دوسرے ممالک پر الزام تراشیاں کررہے ہیں مگر شاید مودی جی نے دنیا کی تاریخ نہیں پڑھی ہوگی کہ ممالک تب تباہی و بربادی کے شکار ہوجاتے ہیں جب اس کے اپنے لوگوں میں مایوسی اور غیر محفوظی پیدا ہوجاتی ہے تو پھر کوئی بھی طاقت اس ملک کو ٹکڑوں میں بکھیرنے سے نہیں بچا سکتا خیر اب بھی بھارتی سرکار کے پاس وقت ہے کہ کسانوں کی مطالبات کو سنجیدگی سے سنیں اور تسلیم کریں ورنہ ایسا نہ ہوں کہ یہ بھی خالصتان تحریک کا شکل اپنائیں اور پھر پانی بھارتی حکومت کے سر سے گزر جائیں اور بھارت کے پاس پھر افسوس کے علاؤہ کچھ نہ بچ جائیں۔

Abdul Sami Khan
About the Author: Abdul Sami Khan Read More Articles by Abdul Sami Khan: 8 Articles with 6050 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.