آزای کے قریب 70 سال بعدہندوستانی مسلمانوں میں ایک
شعورپیدا ہوا اورانکی زبانوں سے یہ بات سامنے آئی کہ مسلمانوں کو میڈیا
چاہئے، اب میڈیا بنانے کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں کیلئے ایک اچھا میڈیا ہو!
یقیناً مسلمانوں کی طلب قابل ستائش ہے اورانکی جو سوچ بدل رہی ہے وہ اس بات
کی دلیل ہے کہ عام مسلمانوں کا ذہین آہستہ آہستہ کھل رہا ہے۔ ہندوستان میں
اس وقت 350 نیوز چینلز ہیں جس میں مشکل سے ایک درجن ہی ایسے چینل ہوںگے جو
حقیقی صحافت کے علمبردار ہیں، ورنہ باقی سب گودی میڈیا کہلانے کے لائق
ہیں۔ہم آپ کو یہ بتاتے چلیں کہ ملک کا بیشتر میڈیا کا شعبہ گودی کیسے
ہوگیا۔ یہ جواب بہت ہی آسان ہے، جب ملک میں آزادی کے بعد دوردرشن کے علاوہ
کچھ نئے نئے چینل شروع ہونے لگے تو ان چینلوں کو چلانے کیلئے کروڑوں روپیوں
کی ضرورت پڑی۔ اس وقت سنگھ پریوار کو بھی اپنے ایجنڈوںکو ملک میں پھیلانے
کیلئےمیڈیا چینلز اور اخبارات کی ضرورت پڑی۔ اسکےلئے سنگھ پریوار کے
کارکنوں نے اپنے آپ کو میڈیا کیلئے وقف کردیا۔ واجپائی ، اڈوانی، مرلی
منوہر جوشی جیسے نامور صحافیوں نےنہ صرف اپنی زندگیاں صحافت میں گذاری بلکہ
اپنی تحریروں کے ذریعہ سے لوگوں کو میڈیا کی جانب راغب کیا۔ بجائے نئے
چینلوں کی شروعات کرنے زیر خدمات چینلوں اور اخبارات کو مالی تعاون فراہم
کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ جس کی وجہ سے آج کروڑوں روپئے چند مخصوص چینلوں کے
سپرد ہوگئے اوروہ چینلز ڈونرس کے گود میں جاکر بیٹھ گئے۔ جس کی وجہ سے
انہیں گودی میڈیا کہا جاتا ہے۔ آج ملک میں جو کچھ ہورہا ہے وہ اسی گودی
میڈیا کہ وجہ سے ہورہا ہے، ورنہ بھارت جیسے سیکولر ملک میں کیا مجال تھی کہ
آئین کی دھجیاں اڑا کر جمہوریت کو پامال کیا جائے۔ اب بات کرتے ہیں ان
مسلمانوں کی جو یہ کہتے ہیں کہ ہمیںمیڈیا کہ ضرورت ہے۔ ہندوستان بھر میں آج
مسلمانوں کے ماتحت کچھ ہی اخبارات ہیں اورکچھ ویب پورٹل ہیں ، کچھ ویب
پورٹل تو میڈیا کے نام سے شروع کئے گئے لیکن یہ ویب پورٹل آج روایتی طریقے
سے اسلامی تعلیمات کی تبلیغ کررہے ہیںاورمیڈیا کے نام پر لوگوں کو الجھائے
ہوئے ہیں۔ اسکی مثال ایسی ہے کہ انہوںنے بریانی پکانا چاہا مگر بریانی
پکانے میں ناکامی حاصل ہوئی تو انہوں نے کھچڑی اورخورمے کوہی ملاکر بریانی
کا نام دے دیا۔ اب کچھ اخبارات اورویب سائٹ پروفیشنل سطح پر کام کرنے کی
کوشش کررہے ہیں، لیکن ان اخبارات اورویب سائٹ کو جو تعاون حاصل ہونا چاہیے
تھا وہ تعاون نہیں مل پارہا ہے۔ تعاون کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی شائع
ہونے والے مضامین کی تعریف کردے یا اپنے مضامین شائع کروائیں یا زبانی
تعریف کریں، بلکہ جس طرح سے گاڑی کو چلنے کیلئے پیٹرول کی ضرورت ہوتی ہے
اسی طرح سے اخبارات کو چلانے کیلئے مالی وسائل کی ضرورت ہے۔ مالی وسائل صرف
اخبارخریدنے سے نہیں بڑھتے، بلکہ اسکے لئے باضابطہ طور پر تعاون کرنے کی
ضرورت ہے۔ جب اشتہارات ہی نہیں دئے جاتے تو میڈیا کیسے مستقل کام کریگا۔
گودی میڈیا میں دیکھیں کہ کسطرح سے کسی کے پیدا ہونے پر ، مرنے پر، سالگرہ
پر ، مندر کی تعمیر پر، مندر میں پوجا پاٹھ کرنے پر، کسی پجاری کی آمد پر،
کسی رہنما کے جنم دن پر ، کسی دکان کی شروعات پر ہزاروں روپیوں کے اشتہارات
دئے جاتے ہیں، مگر مسلمانوں میں چندہ مانگ کر کروڑ دو کروڑ کی مسجد تو
بنادی جاتی ہے اوراسکا گراینڈ اوپننگ بھی کیا جاتا ہے۔ اس گرانٹ اوپننگ میں
ہزاروں لوگوں کو بریانی کھلانے کا اہتمام کیا جاتا ہے، لیکن جب اخبارات
اشتہار پوچھتے ہیں تو پانچ ، دس ہزارو روپئے اشتہارات بھاری پڑجاتے ہیں،
ایسا نہیں کہ یہ لوگ خالص اپنے پیسوں سے مسجدیں بنائیں ہوئے ہیں، بلکہ یہ
تو چندہ لے لےکر مسجدوں کی تعمیر کرتے ہیں اوراس دوران جم کر ہوٹلوں میں
بریانیاں بھی کھاتے ہیں، اس وقت انہیں یہ یاد نہیں رہتا کہ وہ اللہ کیلئے
کام کررہے ہیں۔ اسی طرح جلسے ، جلوس ، منعقد کرنے والوں کا بھی یہی حال ہے۔
ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی ہے کہ جلسے وجلوسوں اورمہمات کیلئے ہزاروں
روپئے خرچ کئے دیتے ہیں لیکن جب اخبارات میں اشتہارات دینے کی بات سامنے
ا?تی ہے تو مالی مشکلات اوروسائل کی کمی کا رونا کیوں رویا جاتا ہے؟۔ سب
کہتے ہیں کہ ہمارا میڈیا ہونا چاہئے، ہمارے جلسوں کی تشہیر ہونی چاہئے،
ہمارے مہمات کو لوگوں تک پہنچانا چاہئے، لیکن جو اخبارات ومیڈیا ان کاموں
کو انجام دیتے ہیں اسکے لئے اشتہارات یا مالی تعاون کیوں نہیں پیش کیا
جاتا۔ یقیناً تنظیموں، اداروں، جماعتوں کا کام اچھائی کرنا ہے۔یہ لوگ بھی
امت کی رہبری ومدد کا کام کرر ہے ہیں۔ لیکن ہردن رہبری کرنے اورہر وقت
ترجمانی کرنے کیلئے اخبارات و ویب سائٹ جیسے وسائل جو مہم چلارہے ہیں ان
کاوجود کیسے باقی رہے؟۔ کیا انہیں اچھی ترجمانی کرنے کے عوض آسمان سے
اشرفیاںو ہیرے جواہرات ملتے ہیں جسے وہ اخبار یامیڈیا چلاسکیں۔ کیا اخبارات
کے مالکان اخبار چلانے کیلئے اپنی ماں، بہنوں اوربیویوں کے زیورات بیچ کر
چلائیں؟۔یا انہیں کسی کے تلوے چاٹو بن کر رہنا پڑیگا۔ سوچئے میڈیا ہونا
چاہئے، لیکن اسکے وجود کو برقرارکھنے کیلئے مدد بھی چاہئے۔ غورکرنے کی بات
ہے غصے کی نہیں۔
|