دشا راوی کی گرفتاری اور نکیتا جیکب و شنتانو مولوک کے
خلاف ایف آئی آر کے بعد نظامِ جمہوریت پر منڈالانے والے خطرات پھر ایک
بار موضوع بحث بن گئے ہیں۔ شنتانو مولوک کی پیشگی ضمانت نے نکیتا کی راہ
آسان کردی ہے مگر اوشا روی کو پیروی کے حق سے محروم کرکے عدالتی حراست میں
بھیج دینا اس بات کی علامت ہے جمہوری سیاست نے عدلیہ کو بھی کس طرح دھر
دبوچا ہے۔ اس تناظر میں لوک سبھا کے اندر وزیر اعظم کے حالیہ خطاب کو یاد
کریں تو ہنسی آتی ہے۔ انہوں نے جمہوریت کو ان الفاظ میں یاد کیا کہ ’’کچھ
لوگ یہ کہتے تھے ’ انڈیا وازاے میریکل ڈیموکریسی‘،‘‘ اس کا آسان ترجمہ تو
یہ ہے کہ ہندوستان ایک معجزاتی جمہوریت تھا ۔نہ جانے پی ایم کے کس دشمن نے
یہ جملہ لکھ کر انہیں دیا اور بغیر سمجھے انہوں نے اس کو ادا کردیا۔ اس لیے
اگر یہ بات مان لی جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اب ملک جمہوریت نہیں ہے۔
وزیر اعظم اگر یہ کہنا چاہتے ہیں تو پتہ لگانا پڑے گا کہ اس کو کس نے اور
کب ختم کیا؟ اس طرح وہ خود شکوک و شبہات کے بادل میں گھر جائیں گے ۔ وزیر
اعظم کے اس جملے پر جمہوریت کی نیلم پری ان لفاظ میں فریاد کناں ہے؎
اورکوئی طلب ابنائے زمانہ سے نہیں
مجھ پہ احساں جو نہ کرتے تو یہ احساں ہوتا
یباک صحافی صدیق کپن کئی مہینوں سے بلاقصور من گھڑت الزامات کی بدولت قید و
بند کی صعوبت جھیل رہے ہیں ۔ عدالت عظمیٰ نے انہیں پانچ دن کی عارضی ضمانت
دیتے ہوئے پچاس شرائط لگا دیں گویا وہ کوئی خونخوار مجرم ہیں ۔ وہ لوگ جو
یہ سمجھتے تھے کہ ایسا صدیق کے مسلمان ہونے کے سبب ہوا ان کی غلط فہمی دور
کرنے لیے حکومت نے نیوز کلک جیسے نڈر نیوز پورٹل پر چھاپہ مارا اور اس کا
گلا گھونٹنے کی کوشش کی ۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ اسی چینل سے ابھیسار شرما کا
پروگرام بول کے لب آزاد ہیں تیرے نشر ہوتا ہے۔وطن عزیز کے اندر جبر و
استبداد پر اکتفاء کرنے بجائے اب حکومت ٹویٹر جیسے بین الاقوامی ادارے کی
چونچ بھی بند کرنے پر تُل گئی ۔اس اعلان جنگ نے ملک جمہوری نظام پر ایک اور
سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے بلکہ اس کو ’بنانا ریپبلک ‘ میں تبدیل کردیا ہے
۔ پرانی قومی ساکھ کی بدولت وزیر اعظم کودنیا بھر میں جمہوری ملک کا قائد
سمجھا جاتا اب وہ اعزاز بھی چھن گیا ہے۔
خود پسند وزیر اعظم کو ہنوز اس خسارے کا احساس نہیں ہوا ہے۔ اس لیے وہ
فرماتے ہیں ’’ جمہوریت ہماری رگوں میں، ہماری سانس میں پوری طرح سے بسی
ہوئی۔ ہماری ہر سوچ، ہر پہل، ہر کوشش، جمہوریت کے جذبے سے پُر رہتی ہے‘‘۔
یہ دعویٰ تو بہت بڑا ہے لیکن اس کے حق میں دلیل بڑی کمزور پیش کی گئی ۔
انہوں نے کہا ’’ اس بات کو ہم نے کئی انتخابات میں ثابت کیا کیونکہ کئی
مرتبہ اقتدار میں تبدیلی ہوئی، بڑی آسانی سے اقتدار منتقل ہوئے اور تبدیل
شدہ نظام اقتدار کو بھی سب نے دل سے تسلیم کر کے آگے بڑھایا۔75سال کا یہ
سلسلہ رہا ہے‘‘۔ ویسے انتخابات تو ہر آمریت میں ہوتے ہیں اور اقتدار تبدیل
بھی ہوجاتا لیکن اسی کے ساتھ حقوق انسانی کو بھی اسی طرح کچلا جاتا ہے جیسا
کہ مودی سرکار کچل رہی ہے۔
وزیر اعظم نے کسان بل پر اپنی حیرانی جتا تے ہوئے کہا پہلی بار ایوان میں
یہ نئی دلیل آئی ہےکہ بھائی ہم نے مانگا نہیں تھا، تو دیاکیوں؟ آگے مودی
جی کہتے ہیں پہلی بات یہ ہے کہ لینا نہ لینا آپ کی مرضی ہے، کسی نے کسی کے
گلے میں نہیں ڈالا ہے۔یہ اختیاری ہے، ایک نظام ہے اور ملک بہت بڑا ہے۔
ہندوستان کے کسی کونے میں اس کا فائدہ ہوگا، ہو سکتا ہے کسی کو نہ بھی ہو،
لیکن یہ لازمی نہیں ہے اور اس لئے مانگا اور دینے کا مطلب نہیں ہوتا ہے۔ یہ
کس قدر بیچارگی کا عالم ہے کہ دنیا بھر کی دھاندلی کے بعد وضع کیے جانے
والے قانون کو اس کےخلاف ہونے والی مزاحمت کے سبب لازمی کے بجائے اختیاری
قرار دے دیا جائے۔ سوال یہ ہے ایسا قانون بنایا ہی کیوں کہ جو لازمی نہیں
ہے اور اس کے اختیاری ہونے کا اعتراف احتجاج کے بعد کیوں کیا گیا؟ اس کا
صاف مطلب یہ ہے کہ بی جے پی کی یہ حکمت عملی اس کے گلے کی ہڈی بن گئی جسے
وہ نہ نگل پارہی اور نہ اگل پارہی ہے۔
وزیر اعظم نے اپنی اس شکست کی لیپا پوتی کرنے کے لیے پرانے قوانین کی ایک
طویل فہرست پیش کردی ۔ وہ بولے جہیز کے خلاف قانون بنے، اس کی ملک میں کبھی
کسی نے مانگ نہیں کی تھی ، پھر بھی ملک کی ترقی کےلئے قانون بنا تھا۔ طلاق
ثلاثہ کے خلاف قانون بنے، کسی نے مانگ نہیں کی تھی، لیکن ترقی پسند سماج
کےلئے ضروری ہے ، اس لئے ہم نےقانون بنائے ۔ ہمارے یہاں بچوں کی شادی پر
روک لگی کسی نے مانگ نہیں کی تھی قانون بناؤ، پھر بھی قانون بنے تھے،
کیونکہ ترقی پسند سماج کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے۔ شادی کی عمر بڑھانے کے
فیصلےکی کسی نے مانگ نہیں کی تھی، لیکن ترقی پسندانہ سوچ کے ساتھ وہ فیصلے
بدلنے پڑتے ہیں۔ بیٹیوں کو حق دینے کی بات کی گئی کسی نے مانگ نہیں کی تھی،
لیکن سماج کے لئے ضروری ہوتا ہے، تبدیلی کے لئے ضروری ہوتا ہے، تو قانون
بنتے ہیں۔
اس احمقانہ دلیل کا دو زاویوں سے تجزیہ ہونا چاہیے۔پہلا تو یہ ہے کہ مذکورہ
قوانین میں کوئی نہ کوئی خیر تھا یا اس کا شر قابلِ برداشت تھا اس لیے
لوگوں نے بحالت مجبوری مان لیا ۔ وزیر اعظم کو سوچنا چاہیے کہ پہلے جو لوگ
قانون مان لیتے تھے اب کیوں نہیں مان رہے ہیں ؟ اس نئے قانون میں کون سی
خرابی ہے کہ جس نے ملک بے حس عوام کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور انہیں
اس قدر طویل احتجاج کے لیے مجبور ہونا پڑاہے ؟ وزیر اعظم کی یہ دلیل کمزور
ہے کہ یہ جاگیردارانہ نظام نہیں کہ جب مانگو گے تبھی ملے گا ۔ جمہوری نظام
میں ترقی کے نام پر سرکار بن مانگے بھی بہت کچھ دے دیا کرے گی ۔ اتنے سارے
قوانین حکومت نے بن مانگے عوام پر تھوپے اور انہوں تسلیم کرلیا تو خود
انہیں بھی کبھی لوگوں کی بات مان لینی چاہیے ۔ آخر یہ یکطرفہ داداگیری کب
تک چلے گی؟ کیا ہمیشہ وہی اپنی بات منواتے رہیں گے اور لوگ مانتے رہیں گے ۔
کیا لوگوں کی بات وہ کبھی نہیں مانیں گے؟
وزیر اعظم میں شروع میں جمہوریت کا ذکر کیا مگر یہ تو اس کے خلاف آمرا یت
کی بات ہوگئی کہ ہمیشہ اپنی بات منوائی جائے اور بن مانگےمن مانی مصیبت
عوام کو تھما دی جائے۔ اس پر یہ توقع بھی کی جائے کہ لوگ اسے شکریہ کے ساتھ
قبول کرلیں گے ۔ وزیر اعظم جس جمہوری نظام کی بات کرتے ہیں اس کے بارے میں
کہا جاتا ہے کہ ’ وہ عوام کے لیے، عوام کی ذریعہ اور عوام کی خاطر‘ ہوتا
ہے۔ اب اگر عوام نہیں چاہتے تو اس کو واپس لینے میں کیا حرج ہے؟ کبھی کبھار
کسانوں کی بھی مان لیں ۔ وہ بیچارے ڈھائی مہینے سے سڑکوں پر ڈٹے ہوئے ہیں ۔
یہ تو نہیں ہوسکتا کہ حکومت بے ضرر قوانین کی آڑ میں ایسا ضرر رساں قانون
ان پر مسلط کردے جو ان کی معاشی آزادی چھین کر انہیں اپنے کھیت میں بندھوا
مزدور بنادے۔
وزیر اعظم نے کسی زمانے میں کہا تھا سب سے اوپر عوام یعنی قوم اس کے نیچے
جماعت یعنی پارٹی اور سب سے نیچے فرد یعنی خود ان کا مفاد ہے لیکن اب ترتیب
الٹ گئی ہے ۔ ایک فرد چند سرمایہ داروں کے مفاد کی خاطر نت نئے قوانین وضع
کرتا ہے۔ آنکھ موند کرپارٹی اس کی تائید کردیتی ہے ۔ اس کے بعد عوام سے یہ
توقع کی جاتی ہے وہ بھی اس کو بلا چوں چرا قبول کرلیں تو یہ کیونکر ممکن
ہے۔ سرکار مانے نہ مانے لوگ احتجاج کریں گے ۔ اور آج جو حکومت لازمی سے
اختیاری تک آئی ہے اسے کل اس کالے قانون کو واپس لینا پڑے گا۔ اس لیے وزیر
اعظم کی بھلائی اسی میں ہے کہ معاملے کو مزید طول دینے کے بجائے جلد از جلد
راہِ راست پر آجائیں اس لیے وہ جتنا تاخیر کریں گے اتنا ہی ان کی مشکلات و
رسوائی میں اضافہ ہوگا۔ آگے ان کی مرضی بقول شاعر؎
مانیں، نہ مانیں، آپ کو یہ اختیار ہے
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں
|